اختلافاتِ قرآنی

Eastern View of Jerusalem

Contradictions in the Quran

By

Alfred

ایلفریڈ

Published in Nur-i-Afshan Dec 11, 1890

نور افشاں مطبوعہ ۱۱دسمبر ٫۱۸۹۰

نور افشاں نمبر ۳۹مطبوعہ ۲۵۔ستمبر۱۸۹۰ ؁ء کے صفحہ ۴ میں بھائی خیر اﷲصاحب نے اِختلاف قرآنی پر حملہ کیا محمدی پسپا ہوئے پر افسوس کہ آپ نے فقط تین ہی اِختلاف دکھائے چاہئے تھا کہ ۵ یا ۶اِختلاف پیش کرتے تا کہ وہ پھر سر نہ اُٹھا سکتے۔ ۲۔سلاطین ۱۳ باب ۱۸۔۱۹ آیت ۔لہذا موقع پا کر میں بھی کچھ نذارانہ پیشِ خدمت ناظرین کرتا ہوں۔

ا۔اِختلاف ۔سورہ مائدہ رکوع ۱۰ آیت ۷۵۔’’اور کُچھ نہیں مسیح مریم کا بیٹا مگر رسول ہے‘‘یہ آیت مخالف ہے بقرہ ۳۳رکوع ۲۵۳آیت سے کہ ’’سب رسول بڑائی دے ہم نے اُن میں ایک کو ایک سے کوئی ہے کہ کلام کیا اُس سے اﷲنے اور بلند کئے بعضوں کے درجے اور دیں ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو نشانیاں صریح (واضح)اور زور دیا اُس کو روح پاک سے‘‘۔اور نِسا ۲۳رکوع ۱۷۱ آیت ‘‘مسیح جو ہے عیسیٰ مریم کا بیٹا رسول ہے اور اُس کا کلام جو ڈال دیا مریم کی طرف اور روح ہے اُس کے یہاں کی‘‘۔اور آل عمران رکوع ۵آیت۴۵’’جب کہا فرشتوں نے اے مریم اﷲتجھ کو بشارت دیتا ہے ایک اپنے کلمہ کی جس کا نام مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا مرتبے والا دُنیا میں اور آخرت میں اور نزدیک والوں میں۔’’پس پہلی آیت میں لکھا ہے کہ مسیح فقط رسول ہے باقی تین آیتوں میں ہے کہ عیسیٰ کو روح پاک سے زور ملا اور آخرت اور خدا کی نزدیکیوں میں ہے‘‘۔

’’اور کُچھ نہیں مسیح مریم کا بیٹا مگر رسول ہے‘‘

۲۔اِختلاف۔ سورہ بقرہ ۳۴رکوع ۲۵۶آیت ’’اور زور نہیں دین کی بات میں کُھل چُکی ہے ضلالت اوربے راہی ‘‘یہ آیت مخالف ہے سورہ توبہ ۱۰رکوع۷۳۔’’اے نبی لڑائی کر کافروں اور منافقوں سے اور تند خونی کر اُن پر‘‘۔اور توبہ ۱۶رکوع ۱۲۳آیت ۔’’اے ایمان والو لڑتے جاؤ اپنے نزدیک کے کافروں سے اور چاہئے اُن پر معلوم ہے تمہارے بیچ میں سختی‘‘ ۔اور سورہ تحریم ۲رکوع ۹ آیت۔’’اے نبی لڑکا فروں سے اور دغابازوں سے سختی کر اُن پر‘‘۔پہلی آیت میں دین کی بابت زور نہیں چاہئے باقی تین آیتوں میں دین کی بابت کافروں سے زور کرنا اور لڑنا اور اُن پر سختی کرنا لکھا ہے۔

۳۔اِختلاف ۔سورہ بقر ۱۴رکوع ۱۱۵آیت۔اور اﷲکی ہے مشرق و مغرب سوجس طرف تم منہ کرو وہاں ہی متوجہ ہے اﷲ۔’’برعکس اِس کے دیکھو بقرہ رکوع ۱۵۔۱۷آیت ۱۴۲۔۱۵۱تک جس کا خلاصہ یہ کہ جس جگہ تم ہو اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف کیا کرو‘‘۔اِس میں مخالفت صاف ظاہر ہے۔

۴۔اِختلاف ۔سورہ بقر۲۷رکوع ۲۱۷آیت۔’’تجھ سے پوچھتے ہیں حرام کے مہینے کو اُس میں لڑائی کرنی تو کہہ لڑائی اُس میں بڑا گناہ ہے‘‘۔اِس کے خلاف دیکھو سورہ توبہ رکوع ۵ آیت ۳۶۔’’بارہ مہینے میں اُن میں چار ہیں ادب کے یہی ہے سیدھا دین سو اُن میں ظُلم نہ کرواپنے اوپر اور لڑو مشرکوں سے ہر حال جیسے وہ لڑتے ہیں تم سے حال ‘‘ ۔اس میں مخالفت صاف ظاہر ہے پہلی آیت میں حرام کے مہینہ میں لڑائی ممنوع ہوئی اور دوسری آیت میں وہ روا ٹھہری ۔واضح ہے کہ رمضان اور رجب دونوں حرام کے مہینہ ہیں پر جنگ بدر ماہ رمضان کی ۱۲۔۱۷ تاریخ تک ہوئی ۔اور عبداﷲبن بخش کی لڑائی دوسری ہجری ماہ رجب میں ہوئی تھی۔پھر فاتح مکّہ بھی ماہِ رمضان میں ہوا تھا اور بہتیرے مردو عورت قتل ہوئے تھے۔۱۰رمضان کو مدینہ سے چلے تھے۔

۵۔اِختلاف ۔سورہ بقررکوع ۳۱آیت۲۴۰’’اور جو لوگ تم میں مر جائیں اور چھوڑ جائیں ۔عورتیں وصیت کر دیں اپنی عورتوں کے واسطے خرچ دینا ایک برس تک نہ نکال دیتا‘‘۔اس کے مخا لف وہی سورہ بقرہرکوع ۳۰ آیت ۲۳۴ ۔’’اور جو لوگ مر جائیں تم میں اور چھوڑجائیں عورتیں دے اَنتظار کروائیں اپنے تئیں چار مہینہ اور دس ‘‘پہلی آیت میں محمد صاحب نے مدّت بیوگی کی ایک برس رکھی جب دیکھا کہ یہ تو محمدیوں پر بڑا بوجھ ہوا تو دوسری آیت سُنائی کہ عورت چار مہینہ دس دن تک انتظار کر لے بعد میں اُس پھر نکاح کر سکتی ہے۔واضح ہو کہ ۲۴۰ویں آیت پہلے نازل ہوئی اور ۲۳۴اُس کے بعد نازل ہوئی آیتوں کی ترتیب میں بھی قرآن میں بڑا گڑ بڑ ہے۔

۶۔اِختلاف ۔سورہ احزاب رکوع ۷آیت۵۲۔’’حلال نہیں عورتیں اُس پیچھے اور نہ یہ کہ اِن کے بدلے اور کرے عورتیں اُس پیچھے اور نہ یہ کہ اِن کے بدلے اور کرے عورتیں اگر خوش لگے تجھ کو اُن کی صورت مگرمال ہو تیرے ہاتھ کا‘‘۔اِس کے مخالف احزاب رکوع ۶آیت ۴۹۔ ’’اے نبی ہم نے حلال رکھی تجھ کو تیری عورتیں جن کے مہر تو دے چُکا اور مال ہو تیرے ہاتھ کا جو پاتھ لگا دے تجھ کو اﷲاور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے وطن چھوڑا تیرے ساتھ اور کوئی عورت اگربخشے اپنی جان نبی کو چاہے نبی کہ اُس کو نکاح میں لے یہ نرمی ہے تجھ ہی کو سوائے مسلمانوں کے‘‘۔واضح ہے کہ بیضادی اور دیگر علما اِسلام کہتے ہیں کہ ۴۹ویں ۵۲ویں آیت کے بعد نازل ہوئی ہے اگرچہ ترتیب میں پہلے لکھی ہے۔ پس پہلے آیت میں موجودہ عورتوں اور لونڈیوں کے سوا اور عورتیں اگرچہ اُن کی صورتیں محمد صاحب کو پسند بھی آئیں تو بھی نکاح میں لانے کی ممانت ہو۔اور دوسری آیت میں موجودہ عورتیں اورلونڈیوں کے سوا ماموں اور چچا اور پھوپھیوں اور خالاؤں کی بیٹیاں بھی بلکہ وہ عورت بھی اپنا نفس نبی کو بخش دے نکاح کے لئے جائز ٹھہری ۔اِس میں اِختلاف صاف ظاہر ہے۔

مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا مرتبے والا دُنیا میں اور آخرت میں

۷۔اِختلاف۔ سورہ انبیا رکوع ۷آیت ۱۰۷۔’’اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہر کر جہاں کے لوگوں پر‘‘اور سورہ فرقان رکوع۵ آیت ۵۸۔’’اور تجھ کو ہم نے بھیجا یہی خوشی اور ڈرسُنانے کو‘‘۔اِن کے خلاف دیکھو سورہ توبہ رکوع ۱۰ آیت ۷۴۔’’اے نبی لڑائی کر کافروں اورمنافقوں سے تند خوئی کر اُن پر اور ٹھکانا دوزخ اور بُری جگہ پہنچنے کی‘‘۔اور سورہ تحریم ۹ آیت’’ اے نبی لڑ کافروں اور دغا بازوں سے اور سختی کر اُن کر اور اُن کا گھر دوزخ ہے‘‘۔ پہلی آیت میں مہروخوشی سُنانے کو بھیجادوسری آیات میں ظلم وتعدی کا حکم ہے (جب تک حضرت مکّہ میں تھے مِہر کی آیت سُناتے رہے جب مدینہ میں آئے تلوار کی آیت سُنائی)مذکورہ بالا آیات میں اِختلافات ایسے صاف و ظاہر ہیں کہ تفسیر کی حاجت نہیں اورضدی آدمی بھی اِن کا منکر ہو گا میں نے تھوڑے اختلاف یہاں دکھلائے ہیں جو کوئی زیادہ کا خواستگار ہے تو قرآن کو اور جناب پادری عماد الدین صاحب فاضل کی کتابیں خصوصاََتواریخ محمدی اور ہدایت المسلمین کو پڑھے تو سینکڑوں اختلاف پائے گا۔

غرض کہ اختلافات کثیرہ اسباب پر مبنی ہیں کہ قرآن خدا کا کلام نہیں ہے اور بموجب گواہی قرآن کے بھی قرآن کلامِ الٰہی نہیں ہے(کام وہ کیجئے کہ دشمن بھی رضامندرہے)اِس ثبوت میں دیکھو اول سورہ نسا رکوع ۱۱آیت ۸۲۔’’کیا غور نہیں کرتے قرآن میں اور یہ ہو کسی اور کا سوائے اﷲکے تو پاتے اُس میں بہت اختلاف‘‘۔

دوم۔اِن اختلافات کثیرہ سے بانی قرآن ہمہ دان نہیں ثابت ہوتااُس کی لاعلمی ظاہر ہے اُس کو تغیرو تبدل لازم آتا ہے آج کا حکم اور،اور کل کچھ اور حکم سُناتا ہے۔پر خدا ہمہ دان ہے۔

باقی قرآن ہمہ دان نہیں۔

پس قرآن خدا نہیں ۔یعنی قرآن کلامِ خدا نہیں۔کلامِ مقّدس بائبل کے اِختلاف نکالنے میں تو مولوی رحمت اﷲنے بڑے بڑے زورمار ے پر باوجودسخت محنت و تجسس کے ایک اختلاف بھی دِکھا نہ سکے سِوااور چار ایسوں کے جیسے یہ ہے کہ ایک حواری لکھتا ہے کہ ایک اندھا چنگا ہوا اور دوسرالکھتا ہے کہ دو اندھے چنگے ہوئے۔پر جب میزان الحق اور ہدایت المسلمین وغیرہ کتب میں فاضلانِ نامدارکی طرف سے جواب کافی دئیے گئے اور اُن کے معنی سمجھائے گئے تو اُن سے کچھ نہ بن پڑابلکہ اپنی غلطی کے قائل ہو کر عالمِ سکوت میں پناہ لی۔خداوندیسوع مسیح فرماتا ہے کہ ’’اے ریاکار پہلے کانٹری کو اپنی آنکھ سے نکال تب اُس تنکے کو اپنے بھائی کی آنکھ سے اچھی طرح دیکھ کے نکال سکے گا۔

اے محمدی بھائیومیں تمہارا خیر خواہ ہو کر بمنّت کہتا ہو ں کہ خواب غفلت سے بیدار ہو کب تک ایسی بے فکری میں بیٹھے رہو گے کب تک ایسی کتاب پر تکیہ کرو گے ذرا تو اپنی جان پر رحم کرو اور حق کی تلاش کروتوبہ کرو اور کلامِ مقّدس انجیل پر ایمان لاؤ تب تُم حیات ابدی کے وارث ہو گے۔

Leave a Comment