ابو سہل مسیحی

Eastern View of Jerusalem

Abu Sehal

3rd Century Christian Scholar

By

Ihsam-u-Din

حسام الدین

Published in Nur-i-Afshan Dec 04, 1890

نور افشاں مطبوعہ ۴دسمبر ٫۱۸۹۰

  ابوسہل ایک نہایت مشہور مسیحی طبیب کا لڑکا تھا۔ہجری تیسری صدی کے وسط میں پیدا ہوا۔صاحب نامہ دنشوران ناصری لکھتے ہیں کہ اِس کا علم و عمل دونوں  برابر اور موثر تھے اور ان دونوں کے لحاظ سے وہ بہت مشہور اور معروف تھا ۔غالباًاُس کے والدین کی عمدہ تعلیم اور دلچسپ نمونہ کا نتیجہ ہو گا ۔وہ سچ بات کو ہاتھ سے جانے نہ دیتا تھا وہ اخلاقی اور دینی جذبہ میں آکر سچی بہادری کے ممبر(پلپٹ)پر کھڑا رہتا تھا اور اعلانیہ سچ بات کا وعظ کرتا تھا ۔وہ حکمت نظری میں یدّ طولیٰ رکھتا تھا ۔چھوٹی سی عمر میں اس کا نام مسلم فیلسوفون کی فہرست میں لکھا گیا تھا ۔زمانہ موجودہ میں یہ بات مشہور ہے کہ خوشنویسی سے فلاسفر کی ضد ہے ۔ہمارے فلا سفر ابو سہل مسیحی کے دماغ میں فلاسفی اور خوشنویسی کے دونوں مادّے مثل معجون مرکب (چیزوں کو ملا کر بنائی گئی دوائی کی طرح)کے ملے ہوئے تھے ۔گو ابو سہل کی تالیفات اور تصنیفات سے بہت سی کتابیں ہیں مگر مشہور کتابیں وہ ہیں جن کے نام ذیل میں درج ہیں ۔

۱۔کتاب مایہ[1]

۲۔کتاب مُنتخب العلاج 

۳۔کتاب خدا کی حکمت انسان کے پیدا کرنے میں 

۴۔علم طبعی میں 

۵۔کلیات طب

۶۔رسالہ دروبا 

۷۔خلاصہ کتا ب محسبطی

۸۔کتاب [2]در رویا 

ابو سہل جس مضمون پر کتاب لکھنا چاہتا تھا اُس مضمون کی بہت شوق اور محنت ۔ صبر اور اطمینان سے تلاش اور کھوج کرتا تھا ۔اور سچ بات کی تحقیقات کرنے میں کبھی تساہل (سستی)اور کمی نہ کرتا تھا اور اپنے مضمون کو آسان بناتا تھا اور اُس کو دلکش لفظوں اور آسان مثالوں میں ادا کرتا تھا۔ اس کے فقرات گویا اقلیدس کے مثلث مسادی الاضلاع (ایک جیسی پیمائش کے)ہوتے تھے ۔اور مثل ابو الفضل کے مبتدا (آغاز)اور خبر میں فاصلہ نہ رکھتا تھا اور بیچ میں جملہ معتر ضات (اعتراض کرنے والاجملہ)نہ لاتا تھا۔اُس نے جالینوس وغیرہ کی کتابوں پر بہت سی نکتہ چینیاں کی ہیں جن کو مسلم فیلسوفون نے شوق سے تسلیم کر لیا ہے۔اور تذکروں میں اُن کا بیان کیا ہو ۔جو کتابیں افلاطون اور جالینوس نے لکھی تھیں وہ اپنی طبیعت کے زور سے اور تیزئیے فہم کے سبب اُن کے مضمون کی تہ تک نہایت سرعت کے ساتھ پہنچ جاتا تھا اور فلاسفانہ اعتراضات اُن کی کتابوں پر کرتا تھا ۔

تیسرے نمبرکی کتاب پر بہت سے مسلم فلاسفروں کی رائیں تذکروں اور رجال کی کتابوں میں دکھائی دیتی ہیں مورخ خرزجی لکھتا ہے کہ ہم نے اُس حکیم کی کتاب کو دیکھا ہے جو اُس کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تھی۔مسیحیوں کے نامدار (نامور)حکیم نے اپنی کتاب میں پرور دگار کی اُس حکمت کا جو اُس نے انسان کو پیدا کرنے میں ظاہر کی ہے ۔بیان کیا ہے ۔الحق اِس کے فصیح لفظ اور موثرمعنی اس کتاب سے عیاں ہو رہے ہیں ۔اِس کتاب کا رتبہ فصاحت اور اچھوتے خیالات کے سبب زمانہ موجودہ (خرزجی کا زمانہ)کی تمام کتابوں سے بہت بلند اور اُونچا ہے۔بلکہ اُس کو چند باتوں کے سِوا حکیم جالینوس کی کتابوں پر فوقیت ہو ۔

مہذب الدین عبدالرحیم بن علی جوبڑا مشہور مسلم حکیم تھا اس کے عندیہ (رائے)میں بھی ابو سہل مسیحی فصا حت کلام اور جو دت بیان میں بے نظیر تھا۔

مورخ خزرجی لکھتا ہے کہ خود عالی دماغ مصنف کو اپنی کتاب پر فخر تھا۔ابو سہل اپنی کتاب کی نسبت لکھتا ہے کہ گو اس عنوان پر بہت سے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں ۔۔۔مگر میں نے اپنی کتاب میں نرالا اور اچھوتا ڈھنگ اختیار کیا ہے ۔ہر متنفس کو اختیار ہے کہ اِ س کتاب کو پرکھے اور اپنی رائے لکھے۔ہم نے اس کتاب کی بنیاد نہایت تہذیب کے ساتھ ڈالی ہے۔ہم نے اِس کتاب کی بول چال اور عبارت کو عام فہم اور آسان بنایا ہے اور ترتیب خیالات اور معنی میں بڑی کوشش کی ہے ۔ہم نے مختصر الفاظ میں مفصلاًدقیق نکتوں کو بیان کیا ہے ۔جو باتیں دقیق تھیں اور فلاسفر وں کو دکھائی نہ دی تھیں ہم نے نہایت جفاکشی سے اُن کو باہر نکالا ہے اور اپنی کتاب کے صفحات پر چمکایاہے ۔

ہمارا دل چاہتا ہے کہ اِس جگہ پر ہمارے زمانے کے مسلمہ اخباراورمسلمہ تعلیم یافتوں کی رایوں کو بھی یاد کریں جو مسیحیوں کی نسبت ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مسیحی خشک دماغ اور بھدّ ے خیالات کے تھے صرف اہلِ اسلام کی علمی شعاعوں نے اُن کے دماغوں کو روشن کیااور علما ءاور فضلا کی صف میں اُن کو بٹھایا۔گو اُنہوں نے کسی اور ارادہ اور کسی پہلو سے پہلو سے لکھا ہے مگر صاحب نامہ دانشوران ناصری لکھتا ہے کہ شیخ الرئیس بو علی سینا ابو سہل مسیحی کا شاگرد تھا ۔گو شیخ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں اور امرا اور اپنے احباب کے نام ختم کی ہیں مگر اس باوفا شاگرد نے اپنے اُستاد ابو سہل کے نا م لکھے ہیں اور بطور تحفہ کے اس کو نذر کئے ہیں۔

۱۔رسالہ مسبوطی درالحان موسیقی بنام ابو سہل 

۲۔رسالہ اور علم درآیہ جہت ابو سہل 

ابو ریحان بیروتی بڑا فیلسوف اور سیّاخ مصنف اور موجد علم تھا ۔اُس نے محمود غزنوی کے زمانہ میں ہندوستان کا سفر کیا اور ایک کتاب لکھی جس کا نام کتاب الہند ہے۔پروفیسر شیشو جو جرمن کا ایک مشہور عالم ہے جس کی مساعی سے یہ کتاب لندن میں چھپی ہے اور حال ہی میں ممبئی میں فروخت کو آئی ہے۔ابو ریحان ان پانچوں فلاسفروں کی صحبت میں رہتا تھا اور اُن کی صحبت سے لطف اور فائدہ اُٹھاتا تھا۔نامہ دانشوران ناصری مطبوعہ ایران میں لکھا ہے کہ ’’ابو ریحان کامل ہفت سال باعزہ جاہ باشیخ الرئیس ابو علی سینا۔ابو علی مشکویہ ۔ابو سہل مسیحی ۔ابو نصر عراقی ۔ابو الخیر بن الخمار۔

اس حکیم نے ایک کتاب اور اُس کا نام کتاب طہارت رکھا ۔حکیم نصیر الدین طوسی نے عربی سے ترجمہ کیا اور چند ابواب اس میں پڑھا دئیے اور اس کا نام اخلاق ناصری رکھا ۔منہ

در سِلک ند مادخاصان خوار زم شاہ منظوم بود‘‘

ابو العباس مامون بادشا خوار زم ان پانچوں فیلسوفوں کو فلاسفی کے اسٹیج پر کھڑا رکھتا تھا اور علمی تماشا دیکھتا تھا ۔گو محمود غزنوی بتوں کو توڑنے اور کافروں کو مسلمان بنانے میں مصروف رہتا تھا مگر فیلسوفوں اور عالموں اور شاعروں کو بھی علمی جھنڈی کے نیچے کھڑا رکھنے کو جمع کرتا تھا۔الفنسٹن صاحب سابق گوہری لکھتے ہیں کہ گو محموود کی تلوار اسلام برستا تھا مگر محمود کا دل اسلامی شور سے خالی تھا اس کے تمام جہاد صرف پولیٹیکل حکمت کا نتیجہ تھے۔گو محمود اور ابو العباس علم میں بہت نیچے تھے مگر دونوں میں ہر علم کے ماہر اور اُستاد کو انتخاب کرنے کا ملکہ عمدہ تھا۔

محمود خوار زم کے فلاسفروں کی نمائش گاہ کو غزنی میں لایا چاہتا تھا مگر تین فیلسوفوں کو خوارزم کی قدرو منزلت اور خوبی نے روک رکھا ۔ ابو سہل اور اِس کے شاگرد بو علی سینا نے خوارزم کو خیر باد کہا اور غزنی کو روانہ ہوئے وہ ہر مُلک میں اپنی چترائی (چالاکی)کا تماشہ دکھایا چاہتے تھے اِس لئے خانہ بدوش مسافروں کی مانند سفر کرتے تھے۔

ابو سہل کے زمانہ میں اسلامی آفتاب نصف النہار (دوپہر کا وقت)پر تھا۔فلاسفی کی دلکشی بحثوں چو طرف اسلامی علما کی آواز گونج رہی تھی۔ بو علی سینا کی فیلسوفی سر کے لئے علما کے کفر کے فتوؤں کا تاج بنایا گیا تھاْ ۔اگر ہم یاد میں غلطی نہیں کرتے تو ابو سہل کے لئے کفر کے فتوؤں کا وار ایک دو دفعہ چل گیا تھا۔

دونوں خوارزم سے روانہ ہو گئے اور پندرہ میل جا کر راستہ بھول گئے اور ایک ایسے بیابان میں جا پڑے جس میں پانی نہ تھا ۔ابو سہل تشنگی کے سبب چالیس برس کی عمر میں جان بحق تسلیم ہوا۔مسیحی فیلسوف کو اِس کے نامدار (نامور)شاگرد نے تشنہ لب بیابان میں مدفون اور نہایت رنج اور ملال کے ساتھ یا بیور سے ہوتا نیشا پور چلا گیا۔


 


[1] اس نادر کتاب پرامین الدولہ نے ایک مطول حاشیہ لکھا ہے۔منہ

[2] ابوالعباس مامون خوارزم شاہ کے نام تمام کیا اور اس کو بطور تحفہ کے نزر کیا۔ منہ

Leave a Comment