رفیق مہاجرت

Eastern View of Jerusalem

I will send him to you

John 16:7-8

By

Kidarnath

کیدارناتھ

Published in Nur-i-Afshan Dec 19, 1889

نور افشاں مطبوعہ۲۲مئی ٫۱۸۹۰

’’لیکن میں تم سےسچ کہتا ہو ں کہ میرا جانا تمہار ے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گالیکن اگر جاؤں گاتو اُسے تمہارے پاس بھیج دُوں گا۔اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کےبارےمیں قصوروار ٹھہرائے گا‘‘ (یوحنا ۷:۱۶ ۔۸)۔ ان دونوں آیتوں پر لحاظ کرنے سے اگرچہ اور بھی موضوع نکلتے ہیں مگر سب سے عمدہ کلام الٰہی کے مطابق رفیق مہاجرت ہے کیونکہ ۲۔کرنتھیوں۱۴:۱۳ اس تسلّی دہندہ کی صفت رفاقت مرقوم ہے ۔اب دریافت کرنا چاہئے کہ لفظ تسلّی کے معنی لغت میں سکون قلب تحریر ہیں جس سے یہہ مراد ہو سکتی ہے کہ من جو چنچل ہے وہ قرار پائے۔یہی خاصیت پارہ کی ہو پس اگر ممکن ہو کہ حرارت پارہ کو ساکن کرتی ہے تو لازم ہے کہ روح پاک کی حرارت گنہگار انسان کے دل کو تسکین بخشے۔یاد رکھنا چاہئے کہ خداوند مسیح خدا ہو کر دِلوں کا خالق ہے اور پارہ بھی اُسی کی مخلوق ہے اور ضرور وہ دونوں کی اُن خاصیتوں سے بھی جو کہ اُن میں ہیں واقف ہو تب ہی اُس نے روح القدس کو تسلّی پائی یہاں تک کہ چھلّے انگوٹھی تصاویر وغیرہ کو تسلّی دہندہ قرار دے دیا بارہا دیکھا جا سکتا ہے کہ جب ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے اور جدائی کے صدمہ سے روتا ہے تب مندرجہ بالا اشیا کی حوالگی سے تسلّی پانے کا جھوٹا ڈھکوسلہ (دھوکہ)پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بات نہ صرف لوگوں ہی پر موقوف ہو بلکہ مذہبی پیشواؤں میں بھی اس تسلّی نے رواج پایا ہے۔

چنانچہ محمد صاحب نے بھی مرتے وقت صحابہ سے فرمایا کہ ’’انی تارک فیکم الثقلین ماان تمسکم بہمالن تضلوابعدی‘‘یعنی میں تم میں چھوڑنے والا ہوں دوچیز   یں گراں کہ جب تک تم اُن دونوں پر چنگل مارتے رہو گے میرے بعد ہر گز گمراہ نہ گے اُن دونوں میں بڑی چیزکتاب اﷲاور چھوٹی میرے قرابتی ۔لیکن عقل مند آدمی اگر ذرہ بھی ان چیزوں اور ان کی حاجتوں پر فکر کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ حقیقی نسلی ان میں کہاں ہے اور دنیا کے لوگوں اور خدا وند مسیح کے تسلّی دہندہ میں زمین وآسمان کا فرق ہے چونکہ محمدی بھائی چند متعصب علما کے بہکانے اور عثمان کے فرمانے سے اس سچی تسلّی دہندہ کو محمد صاحب مانتے ہیں جیسا کہ مباحثات فریقین (دونوں طرف کےلوگوں کی بحث)سے واضح ہے پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن کو حقیقی اور اصلی تسلّی دہندہ کی طرف متوجہ کر دیں۔ بھائی محمدیوں اگر بقول عثمان محمد صاحب تسلّی دہندہ تھے تو خود محمد صاحب نے قرآن اور قرابتیوں(رشتے داروں) کو تسلّی دہندہ کیوں مانا اس لئے آپ لوگوں کا یہ فہم بمنزلہ و ہم (اتنی سمجھ جس پرشک ہونے لگے)ہے اب قرآن اور قرابتیوں (رشتے داروں) کے حق میں خیا ل فرمائیے محمد صاحب کے خُسرّجنا ب عمر حسبنا کتاب اﷲمیں (بس ہے مجھ کو اﷲکی کتاب)قرابتیوں (رشتے داروں) سے محض انکار فرماتے ہیں اور محمد صاحب کے داماد حضرت علی کہتے ہیں ھَذا قُرآن صامت یہ قرآن گونگا ہے واناقرآنُ ناطق اور میں قرآن گویا ہوں ۔دیکھو عمر کے قول سے قرابتی ندارد ہوئے اور علی کے اقرا رسے قرآن کا تسلّی دہندہ نہ ہونا ثابت ہو ا اور محمد صاحب کے خیال سے خود محمد صاحب تسلّی دہندہ نہیں ہیں ۔پھر کیوں نہیں مسیحی تسلّی دہندہ کو قبول کرتے ہو۔ اب خیال کرو کہ خداوند مسیح نے کیوں تسلّی دہندہ ضروری سمجھا اِس لئے کہ بغیر اُس کے گنہگار انسان پاکیزگی کو حاصل نہیں کر سکتا اور جب تک پاک نہ ہو خدا کو نہیں دیکھ سکتا متی کی انجیل۸ :۵تیرھویں صدی کے امام ابو النصور صاحب اپنی کتاب نوید جاوید کے صفحہ ۴۹۶سطر ۱۲،۱۳،۱۴ میں فرماتے ہیں روح القدّس تیسرا ہے دوسرا نہیں ہو سکتا۔

تسلّی کے معنی لغت میں سکون قلب تحریر ہیں

لیکن انہوں نے بے سوچے ایسا دعویٰ کیا جو کلام الٰہی کے خلاف ہے دیکھو ۲۔کرنتھیوں ۱۴:۱۳میں باپ دوسرا ہے اور مکاشفات۴:۱۔۵میں یہی روح القدس دوسرا ہے پھر اس نزاع لفظی سے کیا فائدہ اور کیا یہ تسلّی مل سکتی ہے؟ پھر خداوند مسیح نے فرمایا کہ تسلّی دہندہ کے آنے کے لئے میرا جانا ضروری ہے اور یہ سچ ہے کیونکہ مسیح کا اس جہاں میں آنا اس لئے تھا کہ نجات تیار کرے جس میں اُس کا پیدا ہونا ،صلیب پر جان دینا ،زندہ ہونا اورآسمان پر صعود فرمانا شامل ہے کیونکہ احبار۱۶: ۱۵کے مطابق ضرور تھا کہ سردار کاہن خون لےکر پاکترین مکان میں پردہ کے اندر آئے۔ اِس طرح خداوند مسیح اپنا خون لےکر خدا باپ کے حضور میں آیا ۔اب کہ نجات تیار ہے ضرور ہوا کہ دوسرا تسلّی دہندہ روح القدّس جہان میں آکر تمام گنہگار وں کو یہ نعمت عظمیٰ پہنچا دے کیا یہ ہو سکتا تھا کہ جب تک خداوند ہمارا کاہن لہو لیکر پاکترین میں داخل نہ ہو اور ہنوز کفارہ کامل نہ ہوا ہو اور روح القدس اپنا کام شروع کرنے کو آ جاتا ممکن نہیں یہ محال مطلق ہے پس خداوند کا صعود ہمارا عین بہبود ہے۔پھر خداوند نے آپ ہی فرمایا تھا کہ ’’اور میں اگر زمین سے اونچے پر چڑھایا جاؤں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا ‘‘یوحنا(۳۲:۱۲)اور یہ کشش روح القدس پر موقوف تھی ’’کوئی بغیر روح القدس کے یسوع کو خداوند کہہ نہیں سکتا ‘‘۱۔کرنتھیوں۳:۱۲لفظ خداوند عبرانی میں یہوواہ ہے جس کے معنی ہیں ’’نجات دہندہ خدا‘‘اور وہ مسیح ہے ۔درحقیقت یہ دُنیا گنا ہ کا کنواں ہے جس میں انسان گر گیا تب خداوند مسیح بھی اُس کنوے میں آیا تاکہ گنہگار انسان کو پھر اوپر لانے کا انتظام کرے بعد وہ اُوپر آیا اب روح القدس کی ڈوری سے ہر ایک کو کھینچتا ہے۔

آٹھویں آیت میں لکھا ہے کہ وہ تسلی دہندہ دنیا کو گناہ اور راستی اور عدالت سے ملزم ٹھہرائے گا واقعی یہ بھی ضرور تھا کیونکہ جب تک انسان بھوکا نہیں کھانے کی ضرورت نہیں سمجھتا پیاسا نہیں پانی کے پانے کی پرواہ نہیں رکھتا تکلیف نہ دیکھے آرام کی قدر نہیں کرتا۔اسی طرح جب روح پاک انسان کو اُس کے گناہ سے واقف کرتا تب وہ مانتا ہے کہ میں گنہگار ہوں پھر راستی سے جو قوت مرضی ہے اُسے صاف بتاتا ہے کہ تیری وہ اصلی حالت کہ جب صرف راستی کا طالب تھا جاتی رہی اور اس برگشتگی کی حالت میں دل سراسر بطلان کا طالب ہے تب وہ گنہگار اقراری ہوتا ہے کہ فی الواقع میرا یہی حال ہو ۔پھر عدالت سے روح پاک انسان کو یوں ملزم قرار دیتا ہے کہ ہاں جب انسان گنہگار ہے اور سچائی کو کھو بیٹھا تب ضرور ہے کہ گناہ کی مزدوری موت مندرجہ پیدایش ۱۷:۲’’جس روز تونے اُس میں سے  کھایا تُو مرا‘‘۔اُس کو بجائے خلاف اُس کے انصاف قائم نہیں رہ سکتا ۔اُس وقت فوراََ گنہگارکے مُنہ سے یہ کلمہ نکلتا ہے کہ ’’اے صاحبو! میں کیا کروں کہ نجات پاؤں؟‘‘(اعمال ۳۰:۱۶)۔ ۱ُس وقت خداوند مسیح گنہگارکو روح القدس کے وسیلہ کھینچتا ہے۔پھر سارے دکھ درد سہنے بھائی بند کے چھوٹنے برادری کی لعن طعن حتیٰ کہ جان جانے تک میں تسلّی حاصل  ہوتی ہے جیسا کہ خداوند کے شاگردوں پطرس ،یعقوب ،ستفنس اورپولس وغیرہ کے حالات سے ہمارے دل کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔ کاش کہ ہمارے بھائی محمدی صاحبان بھی اس دوسرے تسلّی دہندہ کے زیر سایہ ہماری طرح خداوند کی مہاجرت میں اُس کے آنے تک اِس زندگی کے سفر کو بدل جمعی تما م طے کریں۔
 

Leave a Comment