الہٰامی کلام

Eastern View of Jerusalem

The Revelation

By

Butta Singh

بوٹا سنگھ

Published in Nur-i-Afshan Dec 19, 1889

نور افشاں مطبوعہ ۱۹دسمبر٫۱۸۸۹

دنیامیں ہزاروں مضمونوں ، سینکڑوں زبانوں سوا ایک کے بے شمار باطل دینوں۔ مختلف علموں اور متفرق ہنروں کی بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ہم اُن کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں  ۔ اول کتابیں جن کے بیانات و تعلیمات صرف مضمونوں ہی کی عقل و ذہن و طبیعت سے لکھے گئے ہیں پر چونکہ انسانی عقل محدود اور اُن باتوں کے بیان کرنے میں جو بعید العقل(ناقابل سمجھ) ہیں قاصر ہے۔ اس لئے انسانی  تصنیفات کی عمدہ کی عمدہ کتاب خواہ وہ اخلاقی ہی تعلیم کویں نہ ہو یا اُن کی نسبت دعویٰ الٰہامی ہونے کی ہی کیوں نہ ہونقص یا سبالعہ یا صر یحاًغلطیوں سے خالی نہیں ہے۔ اور سببب اسی کمی کے انسان اپنے حقیقی رہبر اور نجات دہندہ خالق و مالک سے ایک الٰہامی خبر پانے کی ضرورت رکھتاہے ۔تاکہ وہ خدا کی حقیقت کو جانے اور پانے والے فرائض سے بخوبی واقف ہو۔ البتہ خلقت کے کام اور انتظام اور عقل کی ذاتی روشنی سے انسان کو کسی قدر یہ خبر ملتی ہے کہ ایک خدا ہے جو کہ بے حد دانا، قادر اور نیک ہوکے پانی مخلوقات سے عبادت و تعریف پانے کے لائق ہے۔ لیکن حقیقت تو  یہ ہےکہ کہ ان چیزوں سے وہ محبت جو خدا نے مسیح کے ذریعہ گناہگاروں پر ظاہر کی آشکار نہیں ہوتی ۔ اور اُن سے خدا کی عبادت کر کے کا کامل طریقہ معلوم نہیں ہوسکتا۔ اور نہ اُن سے انسان کو ایسی رہنمائی ملتی جس سے وہ خدا بزرگی کرنے اور اس سے محبت رکھنے کی آگاہی پائے (دیکھو۱۔کرنتھیوں ۱: ۲ )۔۱س لئے کہ جب حکمتِ الہٰی سے یوں ہوا کہ جب دنیا نے اپنی حکمت سے خدا کو نہ پہچاناتو خدا کی یہ مرضی ہوئی کہ منادی کی بیوقوفی سے ( جو بے دینوں جت سامنے ہی ایمان لانے والوں کو بچادے۔

دوسری قسم کی وہ کتابیں ہیں جن کا مجموعہ کتاب مقدس کہلاتا ہے جس میں توریت ، زبور، صحیفہ ٔانبیا  اورانجیل مقدس مندرج ہیں ۔ اور یہ وہی قانون ہے جسے خدا نے انسان کو بخشا اور جو انسان کے ایمان واعمال کا ایک بے خطا قانون ہے ۔ یہ الٰہامی کہلاتا ہے اس لیے کہ اُس کی تعلیم وبیان خدا کے حکم وہدایت سے   لکھے گئے اور اُس منصفوں کو اس امر میں یقین کا مل رہا کہ ہم اپنی طرف سے نہیں  ۔بلکہ خدا  کا وسیلہ ہوکے اُس کی مرضی کو آشکار ہ کرتے ہیں ۔ اورخدا ن ے بھی اُن  کو اُ ن کی خاص ذات وطبیعت       کے  مطابق اور اُن کی شخصی صفتوں کے موافق آزادانہ طور پر استعمال کیا اور نہ کسی طرح بے ہوشی اور یا بے عقلی میں اُنہیں ڈالا ۔ اس طرح پر یہ کتاب یعنی بائبل دنیا بھر میں بسبب اپنے الٰہامی ہونے کے اور کتابوں سے اعلی ٰ وافضل خیال کی جاتی ہے اور اُس کے مضامین بلکہ الفا ظ تک بھی الٰہامی مانے جاتے ہیں۔ دیکھو ۲ ۔ پطرس ۲۱:۱ کیونکہ نبوت کی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوتی بلکہ خداکے مقدس لوگ روح القدس   کی تحریک سےبولتے تھے  اور داؤد نے  کہا کہ خدا کی   روح  مجھ میں بولی اور اُس کا سخن میری زبان میں تھا ۔ لہذا صاف معلوم ہوتا جوکہ ہد ائیتیں اور پیشین گو یاں روح القدس کے ذریعہ عطاہوئیں اور یہ کتاب لکھی گئی پس یہ الٰہامی ہے ۔

انسان کو نجات کی کامل راہ ظاہر کرنے کے واسطے دیا گیا

جناب ِ مسیح نے اپنے شاگردوں سے یوں وعدہ کیا کہ تسلی دینے والا جو روح القدس ہےجسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھا دے گا۔اور سب باتیں جو کچھ میں کہیں تمہیں یاد دلادے گا۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ وعدہ ہوا کہ روح القدس مسیح کے احوال و احکام کے صحیح لکھنے میں ان کو مدد دے گا ۔اورہم کیا دیکھتے ہیں  کہ عین وقت پر روح القدس نے اُ نہیں صاحب الٰہام کیا۔ چنانچہ وہ بھی اپنے ملہم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ دیکھو متی ۳:۳ خدا نے اُن کو یعنی خبروں کو   اپنی روح کے وسیلہ ہم پر ظاہر کیا اور ۱۔کرنتھیوں۸:۱۲یہ چیزیں ہمیں انسا ن کی حکمت کی سکھائی ہوئی باتوں سے نہیں بلکہ روح القدس کی سکھائی ہوئی باتوں سے غرض روحانی چیزوں کو ر و حانی باتوں سے ملا کر بیان کرتے ہیں ۔

جاننا چاہئے کہ خدا کے کلام کے مطابق الٰہام سے بعض لوگوں پر روح القدس کی و ہ تاثیر مراد ہے۔ جس کے سبب سے وہ خدا کی مرضی لوگوں پر ظاہر کرنے کے وقت ہر طرح کی غلطی سے محفوط رہے ۔ پر الٰہام انسان کو اس غرض سے نہیں ہوا کہ  اُس سے علم وہنر حاصل یا  الٰہامی کتاب میں تحریر کی لطافت اور فصاحت(خوبصورتی اور خوش کلامی) کا نمونہ ہو ۔ جیسا کہ بعض اشخاص کی دانست میں یہ باتیں الٰہامی ہوں گویا اثبات ہیں بلکہ انسان کو نجات کی کامل راہ ظاہر کرنے کے واسطے دیا گیا ۔ بائبل کے الٰہام تواریخ وتعلیم سے صرف یہ غرض ہی کہ نجات کا بندوبست انسا ن پر کھل جائےاور بنی آدم کو  رہائی پانے کے ایک حقیقی طریقہ معلوم ہو  اوریہ اُس کے الٰہامی ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ اس کی تعلیم اخلاقی یا ہنر یاکسی علم کے خلاف نہیں نہ اس میں ایسی کوئی تعلیم ہی جو جھوٹ ہو یا انسان کی نیکی یابہتری کے برعکس ہو ۔ یا خلقت اور عقل کے خلاف ہو۔جیساکہ روئے زمین کی کل الٰہامی دعویٰ کی ہوئی کتابوں کا حال ہے بلکہ وہ ہرایک حقیقی بات کو قوت دیتی ہے اور اُس میں اکثر وہ بھاری حقیقتیں ظاہر کی جانی ہیں جن کو عقل کی  روشنی سے انسان ہر گز دریافت نہیں کرسکتا ۔

کتاب مقدس میں کئی اورالفاظ بھی ملتے ہیں  مثلا ً کشف (کھولنا)یا مکا شفہ (ظاہر کرنا)۔ مگر الٰہام میں اور ان میں تفاوت (فرق)ہے کیونکہ کشف کی غرض صرف خدا کا کسی کو کسی امر کی خبر دینا ہے ۔ پر الٰہام کی غرض خدا کا کسی شخص کو جو تقریر ی یاتحریری طورپر کسی طرح خبر دے رہا ہے غلطی سے محفوظ رکھنا ہے ۔ پس یہ ہی  وجہ ہے جو انسانی طبیعت کی تضیفا ت میں  نہیں  پائی جاتی کہ جیسا کہ کسی کا حال چال تھا ٹھیک ویسا ہی تحر یر میں آیا ۔ ملہم شخص کو روح القدس نے کسی امر میں کمی بیشی کا موقع نہ دیا ۔ مثلاً ابرام۔ نوح ۔ لوط۔دینہ ۔روبن۔داؤد ۔آمون ۔پطرس وغیر ہ وغیر ہ کے عیوب و نقص وگناہ کا صاف صاف ذکر ہے (جن پر معترض اکثر جو ش وخروش کے ساتھ اعتراض کرتے ہیں)اور کس کے لیے ؟ صرف اس لیے کہ صاف ظاہر ہوکہ کوئی جو بشر ہی معصوم یاگنا  ہ سے پا ک نہیں اور نہ بنی آدم کی نجات کے لیے رہبر ہادی ہو سکتا ہے  اور تاکہ ظاہر ہو کہ بنی آدم کی صرف دوتقسیم ہوسکتی ہیں۔(۱) گناہ گار بنی آدم جو دنیا کے سر دار شیطان کے پیر وہو کر دوزخ کی راہ پر ہیں کیونکہ الٰہامی کتاب کے عیسیٰ نجات دہند ہ سے غافل یا ضد اور مخالف وبد ہ دانستہ کرتے ہیں ۔(۲)گناہ ردیندار  بنی آدم جنہوں نے الٰہامی کتاب کے  ذریعہ نجات کی راہ  پاکر نجات دہند ہ مسیح کا دامن پکڑ ااور اُس کی راست بازی کا جامہ پہنا ہے ۔ وہ اگرچہ کمنرور تھاتاہم خدا کے پیارے ہیں لیکن اُن میں سے کوئی ایک دوسرے کا شافی کسی  صورت سے نہیں ۔اُن شافی باپ اور اُس نہ صرف اُن کا عمانوایل خد اوند ہے ۔ مذکو رہ بالا الٰہام کی تعریف کے موجب کرہ زمین کی کسی الٰہامی کتاب کا آسمان سے ایک جلد میں نازل ہونے کا خیال یا آیت بہ آیت اُتر نے کا دعوی ٰ تسلیم کرنے کے لائق نہیں ٹھہر تاہے ۔

شائد کوئی سوال کرے کہ اس زمانہ الٰہام کیوں نہیں  ہوتا ہے ؟ جو اب اس کا یہ ہوگا کہ جس مقصود وکے واسطے الٰہامی کتاب بھیجی جاتی ہےیعنی کامل طریقہ لوگوں کی نجات کا بتلانا سودہ مطلب عہد جدید کی آخری کتان مکاشفات پر پورا ہوا ۔ تاہم اگر خدا کوئی نوشتہ بنی آدم پر بھیجنا منظور ہوتو وہ بھیجے گا۔ جاننا چاہتے کہ موسیٰ سےپہلے کوئی الٰہامی کتاب آدم زاد کی طبیعت اور دینی و روحانی تعلیم کے لیے موجود نہ تھی تو بھی ہمیں جیسا کہ پیدایش کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ  بزرگوں کو خدا ملہم کرتھا ۔ اس طرح کا الٰہام تقریر ی الٰہام کہلاتا ہے جس کے وسیلے سے وہ ایک خدا خالق ومالک اور سب چیزیں کے سنبھالنے والے پر ایمان رکھتے تھے اور دعا ۔قربانی۔نذر۔دیکی ۔ختنہ وغیرہ سے خدا کی خدمت اور بندگی کرتےتھے اور جانتے تھے کہ وہ حاضر وناظر ۔مہربان ۔ عادل سچا اور زندہ خدا ہے اور گناہ سے نفرت کرتا اور نا تائب کو سزادیتا ہے ۔

Leave a Comment