مذہبی آزادی اور کانشنش کے حقوق

Eastern View of Jerusalem

The Rights of Religious Freedom

By

David Muhyiddin

ڈیوڈ محی الدین

Published in Nur-i-Afshan November 6, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۶ نومبر ۱۸۸۴ء

سول لبرٹی ایک جسم ہے اور رلیجیس لبرٹی اس میں روح ہے ۔ رلیجیس لبرٹی سے میری مراد اس حق سے ہے جس سے ہر ایک شخص مذہبی معاملات میں آزاد رائے قائم رکھ سکے ۔ اور اپنے کانشنش کے مطابق بغیر کسی دنیاوی قانون کی رکاوٹ کے اپنے خالق کی عبادت کر سکے ۔ رلیجیس لبرٹی میں کسی دنیاوی قانون کے مداخلت کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کو اس میں دخل دنیا چاہئے ۔اگر خدا بھی دخل ہو گا تو ہم اسے رلیجیس لبرٹی نہ کہیں گے سب سے کامل رلیجیس لبرٹی اس قوم میں ہوگی جس میں گورنمنٹ کی طرف سے ایسا کوئی قانون صادر نہ ہوا ہو جو ان کے کانشنش کے برخلاف انہیں کسی خاص قسم کی عبادت کرنے میں مجبور کرے ۔ آفریں ہے اس گورنمنٹ پر جو ہماری رلیجیس لبرٹی کو قائم رکھے اور ہماری کانشنش کے حقوق ہم سے نہ چھین لیں۔  زمانہ گزشتہ کی تواریخ کے دردانگیز صفحے اب تک چلا چلا کر بتا رہے ہیں کہ کس طرح انسان کا خون بہایا گیا ۔ کلہاڑی سے اسے پھاڑا ۔ آروں سے چیرا ، آگ کی بھٹیوں میں اسے جلایا ۔ناظرین شاید سوال کریں کہ کیوں ؟ میں آہ سرد سے یہ ہی جواب دیتا ہوں کہ اسی رلیجیس لبرٹی اور کانشنش کے حقوق کے لئے سخت سخت عذاب مستقل دلوں نے سہا ۔لیکن اپنے کانشنش کو آنچ نہ لگنے دی مر گئے، غرق ہو گئے ،جل گئے اپنی کانشنش کو نہ چھوڑا۔

سول لبرٹی ایک جسم ہے اور رلیجیس لبرٹی اس میں روح ہے ۔

مغرور نبوکد نضر کا یہ حکم کہ جو شخص میرے بنائی ہوئی سونے کی مورت کے سامنے نہ جھکے گا یا سجدہ نہیں کرے گا ایک جلتی ہوئی آگ کی بھٹی میں پھینکا جائے گا ۔ مشرقی قوموں میں ایک پرانی اور عام سزا ان لوگوں کے لئے ہوا کرتی تھی جو ان کے بتوں کی پرستش نہ کرتے تھے قربانی کے طور پرشعلوں کے پہاڑآسمان پر پہنچے ہیں۔اور خون کے دریا ان پر برسے ہیں اس وقت سے لے کر جب اینٹی آکس نے پاسٹان کو فتح کیا اور یروشلیم کو برباد کیا ہیرودیس کے بیت الحم میں بچوں کے قتل کروانے تک اور ہمارے خداوند کے آسمان پر چڑھنے سے لے کر ططس سے یروشلیم کے برباد ہونے تک اور یروشلیم کی بربادی سے لے کر شاہ کانسٹنٹائن کے رومن امپائر کے تخت پر جلوس فرمانے تک یہ پیشن گوئی پورےپورے طور سے ٹھیک ہوتی آئی ہے۔”کہ  آسمان میں جنگ ہوئی اور میکائیل اور اس کے فرشتے اژدہا سے لڑے اور اژدہا اور اس کے فرشتے لڑے “۔اگر میں اس ظلم اور تعصب اور عذاب کو بیان کروں جو مختلف زمانوں میں مسیحیوں کو اپنی کانشنش کے برقرار رکھنے میں برداشت کرنا پڑا تو میرا مضمون بہت لمبا ہو جائے گا ۔ لیکن چونکہ یہ ایک ضروری امر ہے اس لئے میں ایک مختصر طور پر بیان کروں گا اور پھر اپنے اصلی مضمون کی طرف رجوع کروں گا۔ سب سے پہلے حملہ مسیحی دین پر جب کہ یہ اپنی آغاز میں ہی تھا یہودیوں نے کیا ۔ ازروئے قوم اہل یہود اپنی روحانی ضرورت اور تعصب کے لئے ممیز ( پہچانے جاتے )تھے اور دیگر اقوام کو بہ نظر حقارت دیکھا کرتے تھے جس کے سبب ان میں حسد و بغض پیدا ہوگئے تھے ۔ جب ہمارا خداوند مجسم ہوا اس وقت جوڈی ازم (مذہب یہود) اپنے زوال کے پچھلے درجہ تک پہنچ گیا تھا ۔گو اس میں الوہیت کی شکل تھی لیکن طاقت نہ تھی اور رفتہ رفتہ ایک پوری بت پرستی بن گیا تھا۔ لیکن اس نے اپنی رہتی سہتی طاقت کو جمع کیا کہ خدا کے بیٹے اور اس کی مقدس کتاب کی اپنے سارے زور سے مخالفت کرے ۔ گو اس وقت یہودیوں کے کئی فرقے ہو گئے تھے لیکن کرسچانٹی (مسیحیت )کی ترقی سے ڈر کر اور اس کی طاقت سے رشک میں آکر اور اپنے خالص اقتدار کے گھٹنے کے خوف سے یہودی کاہنوں اور حاکموں نے کوئی موقعہ نہ چھوڑا جس میں انہوں نے عیسائیوں کو طرح طرح کی اذیت یا برا سلوک نہ کیا ہو۔ بلکہ ہلاک کرنے سے بھی نہ چوکے ۔ فریسی ظاہردار اور ریاکار تھے ۔ صدوقی بت پرست تھے ۔فرقہ اسینی متعصب اور افلاطون کی تعلیم کے پیروکار تھے ۔ لیکن ہیرودیس اور پنطس پیلاطس کی مانند یہ تمام مختلف فرقے مسیحی دین کی جڑ اکھیڑنے میں ایک ہوگئے اور اپنے اختلاف کو بھول گئے گو ان یہودیوں میں سے کئی ایک نے پیتیکست کے دن اپنے مذہب کو نامکمل پا کر اور ایک کامل رہبر کی ضرورت دیکھ کر مسیح کو قبول کیا ۔لیکن قوم کی قو م مسیحی دین کے برخلاف اس کی طفلگی (بچپن )کے ایام میں سخت دشمنی کی تلوار لئے ہوئے تھی اور موقعہ ڈھونڈتے تھے کہ کب اس کا گلا کاٹ ڈالے ۔ انہوں نے ہمارے خداوند کا تعاقب اس کی چرنی سے لے کر مصر تک اور مصر سے ناصرت تک اور ناصرت سے صلیب تک کیا ۔آخر کار اسے صلیب دے کر اپنے دلوں کو ٹھنڈا کرنے کے بعد انہوں نے اپنا غضب اور غصہ اس کے شاگردوں کی طرف رجوع کیا ۔ مقدس سٹیفن(ستفنس) اور جیمس ( یعقوب ) زبدی کا بیٹا جو یروشلیم کے گرجے میں بزرگ تھا ان کے ہاتھوں میں پہلا شکار تھا ۔ ان کا یہ ظلم فلسطین تک ہی محدود نہی رہا بلکہ انہوں نے بے چارے مسیحیوں کو جہاں کہیں رومی صوبہ جات میں پایا فنا کیا۔  یروشلیم کے اعلیٰ حکام سے لے کر محصول لینے والے تک مسیحیوں کو اذیت دینے پر آمادہ تھا۔

ابرہام کے خدا نے اس یہودی قوم کو اوروں سے الگ کیا کہ ان میں بت پرستی نہ پھیل جائے اس نے انہیں خود سکھایا کہ اوروں سے جدا رہیں۔ ان سے کچھ لین دین نہ رکھیں اور یہ فرقہ شروع ہی سے متعصب چلا آیا اور جہاں کہیں اسے عروج ہوا وہاں ہی اس نے رلیجیس لبرٹی کا گلا کاٹنا شروع کیا جب مارڈیکائی زوکسترلانگی نیس کے عہد میں وزیراعظم ہوا تو اس ملک کے بہت سے لوگ یہودی بن گئے ۔ کیونکہ یہودیوں کا خوف  ان پر چھا گیا ۔ خیر ان لوگوں کے ہاتھ سے مسیحیوں نے بھی بہت سی مصیبتیں سہی ۔ اور اس زمانہ میں رلیجیس لبرٹی نہ تھے ۔کیونکہ اگر کوئی شخص مسیح کو قبول کرتا اسے شہر بدر کیا جاتا تھا ۔اس کا مال ضبط ہو جاتا اور اسے زندگی کی تمام آسائش کی چیزوں سے محروم کیا جاتا اور اسے گورنمنٹ کے قانون کی حفاظت سے باہر کیا جاتا تھا اور جو کوئی اسے مار ڈالتا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس نے خدا کا کام کیا ہے ۔

اگر ہم یہودیوں سے مسلمانوں کی طرف پھریں تو وہی غم کی تصویر ہمارے سامنے کھینچ جاتی ہے ۔ ایک خوفناک طوفان کی مانند عربی پیغمبر کے مذہب نے ایشیا ، افریقہ اور یورپ کا ایک بڑا حصہ برباد کر دیا ۔ یہ ایک ایسے وقت ہوا جب مسیحی دین اپنی خرابی اور بدی کے بھنور میں غوطے کھارہا تھا اور ان باتوں نے ایک دیر اور مستقل دل کو اٹھا یا اور زمانے نے ایسے شخص کے لئے تمام چیزیں مہیا کر دیں۔ مسیحیوں کی آپس کی مخالفت اور عداوت نے اسلام کی ترقی کے لئے ایک عمدہ موقعہ پیدا کر دیا ۔ شاہ چسٹینین نے پہلے ہی سے اپنے ظلم کا ہاتھ لمبا کر دیا تھا۔ اس نے فلسطین کے تمام سامری لوگ مروادئے تھے ان لوگوں کی اولاد اور آنے والی نسل مسیحیوں سے نفرت کر کے اور رومن بادشاہوں کے سخت قانون کے باعث جو ان کے لئے شائع ہوا نیا مذہب (اسلام) فوراً اختیار کر لیا ۔ مسیحیوں میں آپس میں پھوٹ پڑ گئی تھی ۔ جدا جدا فرقے بنتے جاتے تھے۔ سلطنت روم اور فارس زوال پر تھیں۔محمد میں اتنی عقل تھی کہ ان موقعوں سے فائدہ اٹھالے یہ لکھنا ضروری نہ ہو گا کہ محمد نے تلوار کے زور سے قوموں کو مسلمان کیا ۔یہ طریقہ اس کے سسٹم (نظام) کے بڑے ستونوں میں سے ایک تھا اور بہشت انعام تھا ان لوگوں کے برباد کرنے کے لئے جو اس کے پیرو بنے ۔ یہ اس کا گولڈن رول تھا کہ ’’ تلوار بہشت اور دوزخ کی کنجی ہے”۔ اس کویہودیوں سے بڑی نفرت تھی اور جتنے یہودی عرب میں اس کے ہاتھ آئے ان کو مار ڈالا اور ان کی ملکیت ضبط کر لی۔  وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ لوگ اس کے پیرو ہوں۔ مرتے وقت وہ اپنی نفرت ان کی طرف یوں ظاہر کرتا ہے کہ” خدا کی لعنت ہو ان یہودیوں پر کیوں انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کے مندر بنائے ہیں”۔ وہ اپنے دشمنوں کو وہ باتیں کہا کرتا تھا کہ یا سچے خدا اور اس کے رسول کو مانو اور خراج دو نہیں تو ہلاک کئے جاؤ گے ۔ اسی اصول سے اس نے دنیا کا بہت سا حصہ فتح کیا ۔ اس کے پہلے فتوحات میں عرب ، ایران ، اور سیریا (شام)شامل ہیں۔اور رفتہ رفتہ اس کے جانشینوں نے مصر اور افریقہ دریائے نیل سے لے کر بحیرہ اوقیانوس تک فتح کیا ۔ جب سیرین لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے رومن امپائر پر حملہ کیا اور برباد کر ڈالی اور تمام مشرقی گرجوں کا ایک کھنڈر بنا دیا ۔ ان سے بس نہ کر کے وہ سپین اور فرانس میں گھسے اور ترکوں کو اپنے ساتھ ملا کر یورپ کا ایک بڑا ذرخیز حصہ فتح کر لیا اور ہلال کا جھنڈا قسطنطنیہ کے دیواروں پر پھرنے لگا ۔ ہم زیادہ ان کی تواریخ کا پیچھا نہیں کرتے مطلب یہ ہے کہ جیسا محمد نے اور اس کے جانشینوں نے رلیجیس لبرٹی اور کانشنش کا خون کیا ہے ویسا کوئی ہی کرے گا ۔ جہاں کہیں وہ گیا یا اس کے پیرو گئے دو باتیں لے کر گئے اسلام اور خراج یا موت ۔ اگر ہم بت پرستوں کی طرف دیکھیں تو معلوم کرتے ہیں کہ انہوں نے بھی اپنے دل کا ارمان خوب ہی نکالا ہے اور خداوند یسوع مسیح اور اس کی مقدس کتاب کی مخالفت کچھ کم نہیں کی۔ رومن امپائر اپنے بت پرست بادشاہوں کے عہد میں مسیحی خون سے خوب سیر ہوئے پہلی صدی کے اختتام میں کتاب ِمقدس اس بڑی سلطنت میں پھیلنی شروع ہوئی لیکن اس کی کامیابی نے اس کے سوتے ہوئے دشمنوں کو جگایا اور ان کے غصہ کو بھڑکایا ۔ وسپی شین کے یہودی ریاستوں کے تباہ کرنے کے بعد مسیحیوں کے برخلاف تکلیف اور عذاب کا سلسلہ ۳۶ ء سے نیرو کے عہد سے شروع ہو کر شاہ ایوکلشین کے عہد تک پھیلتا ہے۔ جو تین سو سال کا عرصہ ہے ۔ یہ زمانہ ایسے خوفناک مصیبتوں سے بھرا پڑا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس زمانہ میں مسیحی دین کو نفرت سے دیکھتے تھے اور لفظ “کرسچن”ایک حقارت کے لئے ضرب المثل بن گیا تھا ۔ شاو نیرو کے عہد میں مسیحی انسان کے دشمن سمجھے جاتے تھے ۔گو مسیحی لوگ تنگ حالی میں اور عاجزی سے کنارہ کرتے تھے تو بھی بت پرستوں کے لعن طعن اٹھانی پڑتی تھی اور ان کے غضب کی برداشت کرتے تھے ۔لیکن تو بھی انہیں جنگلی درندوں سے پھڑوا کر یہ لوگ تماشہ دیکھا کرتے اور رات کو شہر روم کی سڑکوں پر ان کے جسموں کو تیل سے آراستہ کر کے روشنی کی جاتی تھی ۔اس کے بعد ڈومیشن (دومطیان)کے عہد تکالیف پھر نئی  کی گئیں ۔ ٹریجن کے عہد میں مسیحی ہونا بڑاگناہ قرار دیا گیا اور اس کے عہدمیں اور اسی کے حکم سے اگنیشین انطاکیہ کا بشپ قید کر کے روم میں لایا گیا اورایم فی تھیئٹر میں پھنکوایا گیا ۔ ٹریجن کے بعد مرکس انتھونی گو ایک ہر دل عزیز شاہزادہ تھا اور اہل روم نے ان کی وفات کے بعد اسے دیوتوں میں بھی شامل کیا ۔لیکن مسیحیت کا جانی دشمن تھا ۔ جسٹن اور پولیکارب اور لایئسن اور وانیا کے شہیدوں کا خون اسی کے عہد میں بہایا گیا اس کے بعد سو یرس نے افریقہ اور مصر میں خون کی ندیاں بہا ڈالیں اور کئی ایک مسیحی عورتوں نے فیلی سی ٹس اور پریچو کے مانند مختلف قسم کے عذاب برداشت کئے کیونکر چمڑے اتارے گئے اور کتنوں کو کوڑے مارے گئے اور درندوں کے سامنے پھینکی گئیں۔ پر ان پُر حوصلہ عورتوں نے مسیح کاا نکار نہ کیا اور نہ اپنا کانشنش خراب ہونے دیا بلکہ یہ عذاب اور مصیبت گوارا کرنی پسند کی اور اپنے روتے ہوئے دوستوں کو یہ کہہ کر مریں ۔ ’’ ایمان میں مضبوط ہو ، ایک دوسرے سے محبت رکھو، اور ہمارے مصائب سے اپنے دلوں پر ذرا ملال نہ لاؤ۔

Leave a Comment