شہادت دینِ عیسوی

Eastern View of Jerusalem

Evidence of the Christianity

By

Once Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan December 04, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۴ دسمبر ۱۸۸۴ ء

اگر کوئی شخص تم سے سوال کرے کہ کیا تم اس بات پر یقین کرتے ہو کہ رنجیت سنگھ پنجاب کا راجہ تھا کہ وہ افغانوں سے لڑا اور ان پر فتح یاب ہوا وغیرہ تم جواب دو کے کہ بے شک کیونکہ اس زمانہ کے بعض لوگ اب تک جیتے ہیں جن کو خوب یاد ہے کہ کس طرح وہ پشاور سے فتح یاب ہو کر واپس آیا ۔اگر وہ تم سے پوچھے کہ کیا تم کو یقین ہے کہ اکبر اور جہانگیر اور اورنگ زیب وغیرہ دہلی کے بادشاہ گزرے ہیں ۔تم جواب دو گے بے شک کیونکہ اگرچہ میں نے اس زمانہ کے لوگوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا ۔تاہم اس زمانہ کی کتابیں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے ان کا سارا حال صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے لڑائیاں کیں اور ان کے قوانین کیا کیا تھے اور کس طرح وہ ملک پر حکومت کرتے تھے اور ہندوستان کے مختلف صوبو ں کے کون کون حاکم تھے وغیرہ۔ نیز عمارتیں اور مینار اور اس کے اب تک ملتے ہیں جو ان کے زمانہ میں ساخت ہوئے اور ان پر ان کا نام پایا جاتا ہے ۔جب ایسی ایسی شہادتیں کسی شخص کے پاس موجود ہوں تو سوائے سخت جاہل کے کوئی شک نہیں کرے گا کہ ضرور چند صدی گزری ہیں کہ اشخاص موجود تھے اور اس بڑے ملک پر حکمران تھے اسی طرح اور ایسی شہادتوں کے باعث تم مانتے ہو کہ سکندر اعظم بہت سے برس گزرے کہ اس دنیا میں تھا اور لڑائیاں لڑی تم ان باتوں کو شہادتوں سے مانتے ہو۔

اب چار باتیں ہیں جن سے وہ شہادت جو تم رنجیت سنگھ اور سکندراعظم وغیرہ کے حق میں رکھتے ہو کامل اعتبار کے لائق ہے اور جس حال میں یہ چاروں موجود نہ ہوں تو تم اس شہادت کو قبول نہیں کرتے ۔ (۱ )گواہوں کی تعداد کافی ہو ۔(۲)گواہوں نے جس بات کی گواہی دیتے ہیں اس کو دیکھااور سنا ہو۔(۳) وہ قابل اور معتبر اشخاص ہوں یعنی ہم کافی دلیل سے قائل ہو جائیں کہ نہ انہوں نے دھوکا کھایا اور نہ وہ اوروں کو فریب دیتے ہیں ۔(۴) اس زمانہ کی یادگاریاں موجود ہوں مثلاً عمارتیں سکے اور مینار وغیرہ۔  جب کسی شہادت میں یہ چار شرطیں موجود ہوں تو اس کا بیان اعتبار کے قابل سمجھا جاتا ہے ۔ اب انجیل میں ہم بیانات دیکھتے ہیں کہ یسوع مسیح جس کو پیدا ہو کے ۱۸۰۰ برس سے زیادہ ہوئے ہیں پاک زندگی بسر کرتا اور لوگوں کو تعلیم دیتا ایسے معجزے کرتا تھا جو فیاضی سے پُر اور نصیحت و تعلیم سے معمور تھے کہ وہ پنطس پیلاطس کے حکم سے صلیب پر ماراگیا کہ یوسف آرمتیا کے رہنے والے نے اس کو دفن کیا ۔ وہ تیسرے دن جی اٹھا اور کہ اپنے شاگردوں کو بار بار نظر آنے کے بعد اپنے شاگردوں کے گروہ کے درمیان میں سے جن کو وہ زتیون کے پہاڑ پر لے گیا تھا آسمان پر چڑھ گیا اور میں اس بات کا دعویٰ کرتا ہوں کہ جیسا سکندر اعظم  اور اکبروغیرہ کے حالات کو ہم شہادت سے قبول کرتے ہیں ان مذکورہ بالا بیانات میں وہ چاروں شرائط کامل اور پورے طور سے موجود ہیں ۔

اس زمانہ کی یادگاریاں موجود ہوں مثلاً عمارتیں سکے اور مینار وغیرہ

(۱ ) ہمارے پاس کتابیں موجود ہیں جن کو آٹھ شخصوں نے قلم بند کیا جو اس وقت جیتے تھے ۔متی، مرقس، لوقا، یوحنا، پولس ، پطرس، یہوداہ ، اور یعقوب۔

(۲) ان میں سے اکثر گواہوں نے خداوند یسوع مسیح کے عجیب و غریب معجزات کو دیکھا ان سبھوں نے اس کے قیامت کے بعد اس کو بار بار دیکھا اور اس کی تعلیم اور تسلی آمیز باتوں کو سنا اور انہوں نے اس کو اوپر جاتے دیکھا ۔انہوں نے فریب نہیں کھایا کیونکہ یہ حقیقتیں اس قسم کی نہیں کہ ان میں غلطی کا امکان ہو۔ وہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے مسیح کو مُردوں کو زندہ کرتے ،کوڑھیوں کو پاک صاف کرتے ،اندھوں کو بینائی بخشتے اور بہروں کو سننے کی طاقت دیتے، طوفان کے زور کو بند کرتے ،ہزاروں کو چند روٹیوں سے سیر کرتے ،ایک دم میں اور فقط چھونے یا  ایک لفظ سے بیماروں لنگڑوں اور لنجوں کو شفا دیتے دیکھا ان باتوں میں شک کا امکان نہیں ۔

(۳) اور ان گواہوں کے معتبر ہونے کی کافی و وافی دلیل موجود ہے ان کے نوشتے جو ہمارے پاس موجود ہیں اور جن کو سب مسیحی الہٰامی مانتے ہیں ایسی پاک تعلیموں اور اخلاقی نصیحتوں سے لبریز ہیں ۔جن کے ماننے اور عمل سے لوگ فروتن اور صابر مزاج فیاض دل سب پر بلکہ نہایت حقیر اور کم درجہ کے لوگوں پر بھی مہربان ہوجاتے ہیں یہ گواہ اپنا جلال اور عزت ہرگز طلب نہیں کرتے بلکہ خداوند مسیح کے جلال اور عزت کے خواہاں ہیں وہ اپنی نادانیوں اور غلطیوں اور گناہوں کا بھی صاف صاف اور دیانتداری سے ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک نئے قانون کو قبول کیا تھا اور ایک نئی قسم کی زندگی میں دخل پایا تھا ۔جن سے ان کی اپنی قوم کے لوگ ان سے نفرت رکھتے تھے لوگوں نے ان کو عبادت خانوں سے خارج کر دیا اور طرح طرح کی مصیبت میں ڈالا تاہم وہ گاؤں گاؤں اور شہر بہ شہر اور ملک بہ ملک چلے گئے اور مسیح کی زندگی اور موت  اور جی اٹھنے کی حقیقت کی منادی کرتے پھرے اور یہ بات وہ مسیح کے حکم کے مطابق کرتے تھے ۔اگر اس نے ان کو پیشتر ہی مطلع کر دیا تھا کہ تم میرے واسطے حقیر جانے اور ستائے جاؤ گے اور اگرچہ بعضوں نے ان میں سے کوڑے کھائے قید میں ڈالے گئے اور پتھراؤ کئے گئے صلیب پر کھینچے گئے اور تلوار سے مارے گئے تاہم وہ اس بشارت کے کام کو استقلال سے کرتے رہے انہوں نے ہر قسم کی بدسلوکی کو منظور کیا پر مسیح کا انکار نہ کیا ۔ سکندر اور اکبر کے حق میں جو گواہی ہے اس سے کہیں زیادہ اور زودتراس گواہی کو قبول کرنا لازم ہے ۔

(۴) مسیح کے مُردوں میں سے قیامت کی یادداشت کے لئے ہم خداوند کے دن یعنی اتوار کو جو رسولوں نے عبادت کے پاک کاموں کے واسطے علیحدہ کیا مانتے ہیں اور صلیب پر اس کا بدن چھیدا جانے اور لہو بہائے جانے سے تھوڑا ہی پہلے اس نے روٹی لی اور اسے توڑا اور اپنے شاگردوں کو دی اور فرمایا لو کھاؤ یہ میرا بدن ہے جو تمہارے واسطے توڑا جاتا ہے اور پیالہ کو لے کر اس نے کہا یہ میرا لہو ہے جو تمہارے واسطے بہایا جاتااور ان کو فرمایا کہ جب تم یہ روٹی کھاتے اور انگور کا پیالہ پیتے ہو تو تم خداوند کی موت کو جتاتے رہتے ہو۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ رسم سب مسیحی ملکوں  میں مانی جاتی ہے اور یہ مسیح کی موت کی یادگاری ہے ۔ پس ظاہر ہے کہ یسوع مسیح کے معجزات اور موت اور جی اٹھنے کی معتبر شہادت کی چاروں شرطیں ہمارے پاس موجود ہیں اور میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی عقلمند شخص ان شرطوں سے کسی باطل بیان کا امتحان کرے گا تو اس کو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ وہ بیان صاف جھوٹا ہے ۔ ایسی حالت میں لازم و واجب ٹھہرتا ہے کہ ہم سب خداوند یسوع مسیح کو قبول کریں کہ وہ ہی فقط خدا اور انسان کے درمیان وسیلہ اور وہ ہی گنہگاروں کا نجات دہندہ ہے ۔ یہ دیانت کی بات اور تمام قبولت کے لائق ہے کہ یسوع مسیح گنہگاروں کے بچانے کے لئے دنیا میں آیا۔

Leave a Comment