The Incarnation
By
Rev.P.C Uppal
پادری پی سی اوپل
Published in Nur-i-Afshan June 27, 1889
نور افشاں مطبوعہ ۲۷۔جون ۱۸۸۹ء
اوتار کسے کہتے ہیں ۔اس سوال کے کئی ایک جواب ہیں ۔عام ہند ولوگ توکہتے ہیں کہ پرمیشر(خداتعالیٰ) آدمی کاجنم اختیار کرلیتاہے ۔اوریہ جگ درجگ ہوتاآیاہے ۔اور وہ یہ بھی کہتے ہیں ۔کہ انسان کے جسم کے سوا پرمیشر جانوروں مثلاًکچھ (کچھوا)،مچھ(مگرمچھ) نرسنگھ کے جسموں میں بھی ظاہر ہوتا رہا ہے ۔مگر بہت ہندوایسے بھی ہیں جوکہتے ہیں کہ اوتار لوگ خاص پرمیشر نہیں ۔مگر بڑے اختیار اور قدرت والے اشخاص تھے ۔اوران او تاروں میں خدا کی قدرت درجہ بدرجہ تھی۔ کسی میں زیادہ اورکسی میں کم ۔اوربعض ہندوخصوصاً نوجوان آریہ لوگ کہتے ہیں کہ جب خداآدمی کاجسم اختیار کرے اورانسانوں میں بودوباش کرے اس کو اوتار کہتے ہیں ۔مگر ہم ہرگز نہیں مانتے کہ کبھی ایساہواہو۔اورخداکبھی ایسانہ کرتااورنہ اسے کبھی کیا۔اورنہ کبھی کرے گا۔خداکو ضرورت ہی نہیں کہ انسان کا جسم اختیار کرے ۔اوراگر ایساکرے تووہ خدا ہی نہیں ۔مذکور وبا لا بیانات ہندوؤں سے ہم نے سُنے اورنقل کئے ہیں ۔آریہ لوگوں کو ہم ہندوؤں میں شامل کرتے ہیں اگرہماری غلطی ہے توہم کو معذورکھیں ۔محمد ی صاحبان تواس مسئلہ کومانتے ہی نہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ واحد ہے اورمحمد اس کا رسول جو اس کے سوا ہم اورکچھ نہیں مانتے ۔عیسائی یوں جواب دیتے ہیں کہ جب خدا انسان کا جسم اختیار کرکے انسانوں میں بودوباش کرے اس کو اوتار یاخداِ مجسم کہتے ہیں ۔صرف اوتار کی تعریف میں ہم آریہ لوگوں سے اتفاق کرتے ہیں ۔
ہندوجن میں آریہ شامل ہیں اوربرہمواورمحمدی اورعیسائی سب اس بات پرمتفق ہیں کہ خدا قادرِمطلق ہے ۔یعنی سب کچھ کرسکتاہے ۔مگر کیایہ درست ہے کہ خدا سب کچھ کرسکتاہے ۔کیاخداگناہ کرسکتایااپنی صفتوں کو توڑسکتاہے ہرگز نہیں ۔پس قادرِمطلق کی تعریف یہہ ہے کہ خدا سب کچھ کرسکتا ہے۔مگر گناہ کرنایااپنی صفتوں کو توڑنایااس پر دھبہ لگانااس کے لئے ناممکن ہے ۔وہ سب کچھ کرسکتاہے مگر اپنی ذات کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا۔
پس قادرِمطلق کو مذکور بالا تعریف سے دوباتیں پایہ ثبوت کو پہنچتی ہیں ۔اوّل یہہ کہ اگر خدا خواہش کرے اوراس کی خواہش کے لئے کوئی اشد ضرورت ہو۔اوراس خواہش میں گناہ نہ ہواوراس کی کوئی صفت شکست نہ کھائے تووہ مجسم ہوسکتاہے ۔کون اس کو روکے گا۔دوسرے یہہ کہ ہندوؤں کے سب اورتار بالکل اوتار نہیں تھے ان کو بہادر جودھاحکیم اکیشروغیرہ کے لقب سے نامزدکرومگروہ ہرگزہر گزاوتار نہیں ہوسکتے سبب یہ ہے کہ برہمایشن نہیش جواعلٰی اوتار کہلاتے اورلعدہ رام کشن مچھ کچھ نرسنگ وغیرہ وغیرہ جواُن تینوں کے اوتار ہیں سب اورہرایک ان میں سے گناہوں اورخطاؤں میں مبتلا تھے ضرورنہیں کہ ان کے گناہوں اورخطاؤں کی فہرست یہاں پرلکھی جائے عیاں راچہ بیان اگرکوئی کہے جیسا بعض ہندوؤں کاعقیدہ ہے کہ اُوتار پرمیشر نہ تھے مگر پرمیشر نے ان کو کلان یعنی قدرت درجہ بدرجہ بخشی تھی تویہ اوربات ہے ۔ہماری تعریف کے بمو جب وہ اوتار نہ نکلے بہتوں کو خدانے قدرت دی ہے۔ مثلاً سمسون، جدعون افتاح، داؤد اورسارس اورسکندر نیپولین وغیرہ کو مگران میں سے ایک بھی اوتار نہ تھا۔کبھی کبھی بعض علم ہندوضد سے کہتے ہیں کہ ہمارے اوتاروں میں پرمیشرکی اپنی ستیایعنی قدرت درجہ بدرجہ موجود تھی ۔اس کا مطلب ہم نہیں سمجھتے کیاپرمیشر کی ستیایعنی قدرت تقسیم ہوئی کچھ درجے ان اوتاروں میں سمائی اورکچھ ذات ِالٰہی میں موجودر ہی۔ پس اُس میں قدرت مطلق نہ رہی یہہ محال مطلق ہے ۔کوئی عقل مند انسان اس کو نہ مانے گا۔حقیقت یہ ہے کہ جن اشخاص کوہندولوگ اوتارمانتے ہیں با لکل اوتار نہ تھے ۔مگر بہادر اورجنگ آور لوگ ہے ایسے توپرانے زمانے کے جہلا رنجیت سنگھ کو بھی اوتارمانتے ہیں ۔بات یہہ ہے کہ جیساخدا گناہ سے مبراہے ویساہی اگر وہ انسان کاجسم اختیار کرے اوراوتارہوجائے گناہ سے پھربھی مبرارہے گا۔یہہ شرط ضروری اورلازمی ہے ہندوؤں کے اوتاروں میں یہ شرط پائی نہیں جاتی اورنتیجتاًاُن میں سے کوئی بھی اوتارنہ تھا۔
اب ہم اوتار کی اشدضرورت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کیونکہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ دنیامیں فقط ایک ہے اورتارہوا ہے اوروہ بے گناہ یانسکلنک ٹھہرااوروہ خداوند عیسٰی مسیح تھاجوکنّیا کنواری مریم سے بغیر باپ کے خدا کی پاک روح سے پیدا ہوا۔ہندو محمدی اورعیسائی بلکہ دنیا کے تمام فرقے خداکوقدوس ،صادق القول ،رحیم ،عادل اورمحبت مانتے ہیں اورتمام مذاہب کی کتابوں میں مندرج بلکہ ہرایک شخص کے دل پر نقش ہے کہ خدا نےفرمایا ہے کہ گناہ گاردوزخ میں جائے گا۔اب انسان گناہگار ہے خداوند صادق القول اورعادل ہے ۔اگر وہ اِن صفات کو قائم رکھے اورگناہ گار کو دوزخ میں گر ادے تودوسری صفتیں یعنی رحم اورمحبت بالکل نہ ظاہر ہوتی اگر وہ رحم اورمحبت کو کام میں لائے ااورگناہگارکربخشے اوراُسے سرگ یعنی بہشت میں قبول کرے تویہ دووصف یعنی رحم اورمحبت توقائم رہے مگر قدوسی اورصدق اورعدل قطعی نظر نہیں آتے اوریہ ایک محال مطلق ہے کہ اس کی کوئی صفت شکست کھائے یاکمزورہوجائے ۔خدا کامل ہے ناقص نہیں ۔اچھاکیوں کر یہہ صفتیں گناہگارکی نسبت کامل اوربے نقص قائم رہ سکتی ہیں ۔ ہرگزنہیں البتہ اگر خدا جو قادرمطلق ہے کوئی تجویز کرے توممکن ہے کہ اس کی صفتیں پوری اورکامل اوربے نقص قائم رہ سکیں ۔خدا نے اپنے کلام میں اظہار کیاہے ۔کہ خد انے جہان کو ایسا پیار کیاکہ اپنا اکلوتابیٹا بخشاکہ انسان کاجسم اختیار کرے یعنی اوتار ہو وہ مگر بے گناہ ہوا اس لئے وہ آدمی کے تخم سے نہیں ۔بلکہ کنواری کینا مریم سے پیدا ہواکہ فرشتہ جبرائیل نے مریم کو خوشخبری دی تھی کہ روح القدس تجھ پرنازل ہوگی اورخدا تعالیٰ کی قدرت کاسایہ تجھ پرہوگااس سبب سے وہ قدوس بھی جوپیداہوگا خدا کابیٹا کہلائے گا۔ہمارے بھائی محمدی لفظ بیٹاسنتے ہے ناراض ہوجاتے ہیں مگر یادرکھنا چاہیے کہ عیسائی لوگ عیسیٰ کو انسان کی طرح خدا کابیٹا نہیں قراردیتے اگرکوئی ایسا کہے کہ خداوند عیسیٰ مسیح انسان کی طرح خدا کابیٹاہے ۔وہ کلام کے برخلاف کہتااورکافر ہے ۔ہم فخر کے ساتھ اقرارکرتے ہے کہ ہم وحدت فی تثلیث اورتثلیث فی الوحدت کے متعقد(پیرو) ہیں کہ الوہیت واحد مگر اقانیم ثلاثہ ہیں اوراس بات کو ہم ایک مثال یعنی تشبیہ سے واضح کریں گے ۔ہماری تشبیہ شائد عین مناسبت نہ رکھتی ہوتاہم فائدہ مندہوگی اوروہ یہہ ہے ۔ہرایک جغرافیہ دان جانتاہے کہ سورج زمین سے ۹۵۰۰۰۰۰میل فاصلہ پرہے پرروشنی اورگرمی سورج سے نکل کر ہم تک پہنچتی ہے توبھی سورج ان دونوں سے ذرہ بھی خالی یاناقص نہیں ہوتااوراِن دونوں سے ہم سورج کو پہچان لیتے اورچلتے پھرتے زندہ رہتے اوریہہ دونوں دُنیا کی ہرشے یعنی انسان حیوان اورنبات کی زندگی ہیں اگریہ نہ ہوتیں توکوئی چیز زندہ نہ رہ سکتی اگرروشنی کو سورج کابیٹااورگرمی کو اس کی روح کہیں بے جانہ ہوگا۔روشنی کو سورج اور گرمی کو بھی سورج کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔مگر تین سورج نہیں سورج توایک ہی ہے ۔روشنی کب سے ہے جب سے سورج گرمی کس وقت سے ہے جس وقت سے سورج ہے۔باپ سورج بیٹا روشنی اور روح القدس گرمی ہے۔ مسیح نے خود بھی فرمایاکہ جہان کو نور میں ہوں روح القدس باپ اوربیٹے کی روح اورمقدسوں کی زندگی ہے ۔جس طرح روشنی اورگرمی سے ہم سورج کو پہچان لیتے ہیں اسی طرح بیٹے اورروح القدس کے ذریعہ سے ہم باپ کو جان جاتے ہیں ۔چنانچہ کلام میں لکھابھی ہے ۔کہ خدانوروں کے اُس دائرہ میں رہتاہے کہ جہاں تک کسی کی رسائی نہیں اُس کو نہ کسی نے دیکھااورنہ کوئی دیکھ سکتاہے ۔پھریہ کہ باپ کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔اکلوتابیٹا جوباپ کی گود میں ہے اس نے اس کو ظاہر کردیا۔اورکہ روح القدس باپ اور بیٹے کی بابت ہم پرظاہر کرتی اورہمیں ساری سچائی کی خبریں دیتی ہے ۔کلام سے ظاہر ہے کہ خدا کی صفتوں کو قائم رکھنے کے لئے بیٹے نے انسان کاپاک جسم اختیار کیا۔اورخداکی شریعت کو انسان کی عوض کامل طور سے پوراکیا۔اورخدا کی عدالت اورصدق کے بمو جب گناہگاروں کاضامن ہوکر شریعت کی نسبت گناہ کاثمرہ اپنے اوپر اُٹھایاموت تک بلکہ صلیبی موت تک فرمانبر دار رہااوراس بات کے ثبوت میں کہ خدا کی شریعت پوری ہوئی ۔اوراس کاعدل اورصدق قائم رہا۔خدا نے اس اوتار کو تیسرے دن زندہ کیااورآسمان پرزندہ چڑھ گیاجہاں سے وہ روح القدس بھیجتاہے کہ ان کے دلوں میں بودوباش کرے جواس اوتار کے کفارہ پر ایمان اوربھروسہ رکھتے ہیں کہ رفتہ رفتہ ان کو خد ا کی قدوسی کے لائق بنائے۔ پس اس خدا کے اوتار کے کفارہ سے خدا کی عدالت اورصدق اور قدوسی خوب رونق پاتی اورقائم رہتی ہیں اوررحمت اورمحبت بے روک انسان تک پرپہنچتی ہیں ۔ہم نےکہاتھاکہ اگر خداچاہے اوراُس کی خواہش میں گناہ نہ ہوتواوتار کا ہونا ممکن ہے۔ہم نے یہ بھی کہاتھاکہ اشدضرورت بھی ہے اورہم نے ظاہر کیاہے کہ اوتار کے ہونے کے بغیر خداکی صفتیں پوراظہور نہیں پاتیں ۔ہم نے یہہ بھی ثابت کیاہےکہ بیٹے نے جوازل سے باپ کے ساتھ بلکہ خود خداتھا۔پا ک انسانیت کواختیار کیااورانسانوں کے درمیان ۳۳ برس رہا۔بے گناہ زندگی بسرکرگیا۔جوچاہے اس کی زندگی کامفصل حال انجیل شریف میں پڑھ سکتاہے ۔اب ہم صرف یہ کہہ کر ختم کریں گے کہ اے عزیز پڑھنے والے اگرتواِس اوتار کو نہ مانے تویادرکھ کہ اس تجویز کے سوا جو خود خدانے ایجاد کی ہے نہ تو اورنہ کوئی انسان گناہگارکی نسبت خداکی قدوسی عد ل صدق اورمحبت کو قائم رکھ سکتا ہے ۔جب خودخدانہ کر سکاتوانسان یافرشتگان کیاہیں۔ اس تجویز رحمت اورمحبت کم بخت گناہگاروں تک پہنچتی ہیں جوکوئی اِس کو قبول نہ کرے وہ گویااپنی اُمید کادروازہ بندکرنااورعدالت میں کھڑاہوتاہے اورداؤدنبی فرماتاہے کہ ’’اے خدااگر توعدالت کرے توکون تیرے حضور ٹھہرسکے گا۔خدا نے جوہوسکتاتھاکیا۔اب توفُقظ تجویز کو راست اوربرحق سمجھ کے قبول کر اور اورنسکلنک خدا مجسم اوتار خداوند عیسٰی مسیح پرایمان لاتو ضرور دوزخ سے رہائی پائے گاورنہ تیراگناہ تیرا گناہ تیرے سرپر ہے ۔اوریادرکھ کہ گناہ کی مزدوری موت ہے اورہمیشہ کی زندگی ہیں اس اوتار کے وسیلہ خدا کی بخشش ہے کیونکہ اِس اوتارنے ہمیشہ کی زندگی کو اپنا خون دے کے خرید لیاہے اگرتو اس سے نہ لے تو اورکوئی وسیلہ نہیں ہے ۔اس پر بھروسہ رکھ اورضرور تیری نجات ہوگی ۔