سچے مذہب کی دریافت کرنے کا طریقہ

Eastern View of Jerusalem

How to Discover the True Religion

By

Once Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan November 13, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۱۳ نومبر ۱۸۸۴ ء

ہندوستان میں اکثر اشخاص موجود ہیں جنہوں نے مغربی علوم میں کسی قدر مہارت پیدا کی اور مغربی خیالات کا ذائقہ حاصل کیا اور مغربی تہذیب سے چندے  واقفیت پیدا کی اس لئے مفتحیناً ان دیرینہ مذہبی خیالات کے قائل نہیں جن میں انہوں نے پرورش پائی اکثر ان میں سے ہندو ہیں بھلا وہ کیونکر یقین کریں کہ زمین ایک بیل کے سینگوں پر قائم ہے اور کہ کھیر دہی گھی وغیرہ کے سات سمندر ہیں اور بعض ان میں سے محمدی ہیں ۔وہ ان بات کے قائل نہیں کہ پہاڑ زمین کے لئے میخیں ہیں اور آفتاب غروب ہونے کے وقت دلدل میں ڈوب جاتا ہے کہ سات آسمان اور سات زمینیں ہیں کہ خدا گھوڑے وغیرہ کی قسم کھاتا ہے ۔جب وہ چھوٹے لڑکے تھے وہ ان باتوں کے قائل تھے مگر اب وہ لڑکے نہیں ۔ چونکہ انہوں نے اپنے آباؤاجداد کی نسبت بہتر دنیاوی تعلیم حاصل کی اس لئے وہ بہتر دینی تعلیم کے محتاج ہیں ۔لیکن اکثر ایسا وقوع میں آیا ہے کہ بجائے تحقیق کے وہ مذہبی روک ٹوک کو قطعی دور کر دیتے ہیں یا یوں کہیں کہ وہ اس بات کے قائل تو ہیں کہ ایک خدا ہے ۔مگر الہٰامی کتابوں کے منکر ہیں اور ایسی زندگی بسر کرتے ہیں کہ گویا خدا اور شیطان بہشت اور روح کوئی چیز نہیں ۔اگر کوئی کہے کہ ہمارے مذہبی طریقوں میں سچائی نہیں اس لئے حق سب میں معدوم (ناپید )ہے ۔ یہ بات راست نہیں اگر وہ لوگ جو موتیوں یا سونے کی تلاش میں ایک دو جگہ تلاش کے بعد ناکامیاب ہوں اور نتیجہ نکالیں کہ موتی یا سونا دنیا میں معدوم ہے اور مایوس ہو کر بیٹھ رہیں تو یہ بالکل درست نہیں ہوگا ۔

خدانے ہم کو عقل کا جوہر عطا فرمایا ہے کہ ہم تفتیش کریں کہ حق کیا ہے اور راستی و ناراستی میں تمیز کر سکیں اور کہ حق کو حاصل کر کے اس کو نہ چھوڑیں اور جھوٹ کو ترک کریں ۔

خدانے ہم کو عقل کا جوہر عطا فرمایا ہے کہ ہم تفتیش کریں کہ حق کیا ہے

دیکھو کان کن زمین کھودتا ہے اور بڑی خبرداری سے سونے چاندی کو میل سے علیحدہ کرتا ہے اور کس قدر محبت صبر اور ہنر کو کام میں لاتا ہے کوئی توقع کرے کہ جواہرات کنکروں کی طرح زمین پر بکھرے پائیں ۔لہٰذا کوئی یہ بھی امید نہ رکھے کہ حق کو صبر اور تجسس کے بغیر حاصل کر لے گا ۔ لارڈ بیکن ٖصاحب فرماتے ہیں کہ بلا توش نے بے پروائی  سے سوال کیا کہ حق کیا ہے اور جواب کی انتظاری نہ کی ۔اگر کوئی حق جوئی کا دعویٰ کرے اس کو مناسب ہے کہ اس کی ایسی تلاش کرے جیسے گنج پنہاں کے کرنے میں ایک قدیم بزرگ کا قول ہے۔ حکمت کہاں سے حاصل ہو گی اور فہمید کی جگہ کہاں ہے انسان اس کی قدر نہیں جانتا سمندر کہتا ہے کہ یہ مجھ میں آئیں اور گہراؤ کہ یہ میرے پاس موجود نہیں یہ سونے سے حاصل نہیں ہوتی اور چاندی سے یہ معاوضہ میں نہیں آتی خدا اس کے راہ اور جگہ کو جانتا ہے  (ایوب ۲۸: ۱۲ ۔ ۲۳ )۔قریب ۳۰۰۰ ہزار برس کے گزرے ایک بادشاہ کو قول ہے کہ حکمت سب سے اعلیٰ شے ہے اس لئے حکمت کو حاصل کرو کیونکہ حق جوئی کی کچھ قدر نہیں کرتے شائد وہ خیال کرتے ہیں کہ حق حاصل نہیں ہو سکتا اور جھوٹ سے حق کا تمیز ہونا مشکل و محال ہے یا شائد وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک طریق کو اختیار کرے اور اس پر قائم رہے ضرور بہشت میں داخل ہوگا مگر کیا ہو سکتا ہے کہ کوئی غلطی سے خوراک کے عوض زہر کھائے اور بدن میں طاقت کی توقع رکھے یا کوئی غلط راہ پر قدم مارے اور پھر منزل مقصود کو پہنچے۔ حق ہمارے پاؤں کے لئے چراغ اور ہماری راہ کے لئے روشنی ہے ۔مگر ناراستی اندھیرا اور تاریکی ہے ۔خدا حق ہے اور جب ہم حق میں چلتے ہیں تب ہی اس کے قریب میں رہتے ہیں اور اس کے نزدیک پہنچتے ہیں۔ حق ہم کو گناہ سے آزاد کر سکتا ہے اور دوزخ سے بچا سکتا ہے ۔ خدا حق ہے اور حق کو پیار کرنا اور ناراستی سے نفرت کرنا ہی بہت مناسب ہے کہ ہم حق کی شناخت پیدا کرنے کی سعی کریں اگر خدا ہے تو صاف نتیجہ اور بات ہے کہ میں اس کی شناخت حاصل کروں اور اگر کوئی طریق ایسا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی مستحق سزا سے رہائی پا سکتا ہوں تو بہت ضروری امر ہے کہ میں اس سے واقف ہو جاؤں میری روح جاودانی ہے اور میں اس کو دولت اور دوستوں و نیک نامی اور تمام چیزوں کی نسبت جن کو لوگ عزیز جانتے ہیں نہایت قیمتی سمجھتا ہوں ۔ آدمی کو کیا فائدہ اگر وہ تمام دنیا کو حاصل کرے اور اپنی روح کو کھو دے ۔ حق جوئی میں فقط سرگرمی ہی درکار نہیں بلکہ فروتنی بھی اکثر لوگ غرور سے پُر اور اپنے آپ کو دانا سمجھتے ہیں۔ خاص کر وہ لوگ جو اور وں کی نسبت کچھ زیادہ علم رکھتے ہیں زیادہ متکبر ہو جاتے ہیں ۔ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ جوان لوگ جنہوں نے کس قدر ملٹن اور بیکن اور سکس پر کو پڑھ لیا آپ کو اپنے معلموں سے زیادہ دانا تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ افسوس ہمارے استاد ایسی باتوں کے قابل ہیں جو چھوٹے بچوں کی لائق ہیں۔ شاید انہوں نے اپنے معلموں کے عقائد پر چند ظاہری اور پوچ اعتراضات کو پڑھ لیا ہے اور ان دلائل کو کبھی نہیں دیکھا جس سے استاد اپنے عقائد کی سچائی کے قابل ہوئے وہ شاگرد نوتعلیم یافتہ تو نہایت مشکل سوالات فوراً بلا غور حل کر سکتے ہیں مگر طرفین دلائل کا کچھ بھی لحاظ نہیں کرتے کاش کہ وہ لوگ ہیت دان سر آئزک نیوٹن کے نمونہ کی پیروی کرتے جس کا قول ہے کہ

میں فقط چھوٹا لڑکا ہوں اور علم کے سمندر اعظم کے کنارے پر سیپیاں چن رہا ہوں۔

 اور ایوب کا نمونہ بھی پیروی کے لائق ہے جس کا قول ہے کیا تو خدا کو تلاش سے پا سکتا ہے کیا تو قادرمطلق کو کامل طور پر دریافت کر سکتا ہے وہ تو آسمان جیسا بلند ہے اور پاتال جیسا عمیق ہے تو کیا کرے گا اور کیا سمجھے گا ۔

مناسب ہے کہ ہم حق کی تلاش مصمم ارادہ  سے کریں کہ ہم اس کی ہدایت پر قدم ماریں ہندوستان میں بہت تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو اپنے مذہبی رسوم کے قائل نہیں ہیں اور معقول سچائی سے بے پرواہ رہتے ہیں۔ مثلاً بہت ہیں جو بت پرستی کو بُرا جانتے ہیں تاہم بتوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہیں۔ بہت ہیں جو ذات پات کو بیہودہ رسم جانتے پر اس کے تمام دعوؤں پر عمل کرتے ہیں ۔وہ مانتے ہیں کہ فقط ایک ہی برحق خدا ہے پر اس کے لائق عزت نہیں  کرتے والدین کی رضامندی کے لئے یا ذات میں قائم رہنے کے واسطے وہ ایسے کام کرتے ہیں جو راست نہیں ہیں ۔پس وہ حق پر نہیں چلتے ہندوستان میں تعلیم یافتہ لوگ بے علم لوگوں کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ پر اور ملکوں میں اس قسم کی ہدایت قبول نہیں کی جاتی اگر کوئی سچائی سے واقف ہونا چاہے مناسب ہے کہ اس پر عمل کرے ایسے کرنے سے حق کی محبت اور سرگرمی بڑھتی ہے اور جب ہم اس سچائی کا  شوق سے تعاقب کرتے ہیں ہم حاصل کرتے ہیں اگر کسی کے پاس کچھ ہو اور وہ اس پر عمل کرتے تو اس کی بڑھتی (ترقی)ہو گی بہت مناسب ہے کہ ہماری جستجو دعا کے ساتھ شروع کی جائے خدا تما م سچائی کا چشمہ اور تمام نوروں کا عطا کرنے والا ہے۔ اس کا نام ہی نور وں کا باپ ۔ اس نے دل کو پیدا کیا اور وہی اس کو منور کر سکتا ہے وہ جس نے آنکھ کو بنایا اندھوں کو بینائی دے سکتا ہے ۔کہتے ہیں کہ جب امریکہ  کےتیراں (۱۳)صوبہ جات انگلستان سے علیحدہ ہو گئے اور اس ملک کے دانا و مدبر اشخاص جمع ہوئے کہ نئی قوم کی حکومت و ہدایت کے لئے قوانین تیار کریں بہت دنوں تک انہوں نے محنت و سعی کی پر کچھ حاصل نہ ہوا ۔آخر کار ایک نہایت دانا شخص بنام ڈاکٹر فرنیکلن صاحب نے کہا

صاحبوں بہت دنوں تک کوشش کرتے رہے ہو کہ حکومت  و ہدایت کے لئے  قوانین ایجاد کریں پر کچھ حاصل نہیں ہوا تم میں مباحثے ہوئے اور طرفین سے مختلف خیالات ظاہر ہو چکے ہیں۔ مگر سب بے ثمر ۔ کیا ہی تعجب کی بات ہے  اتنی پریشانی و مشکل کے وقت ہم تو نوروں کے بانی کی طرف توجہ کرنے کا فکر ہی نہیں کیا جو مفت عطا فرمایا اور ملامت نہیں کرتا کہ وہ ہماری اس ضرورت کے وقت ہدایت فرمائے اور اس بزرگ صاحب نے تحریک کی کہ آئندہ کو روز مرہ خدا سے ہدایت اور روشنی کی التجا کی جائے۔

 پس اس وقت سے یہ کام خوب امن کے ساتھ ترقی پاتا گیا اور مجموعہ قوانین تیار ہوگئے پس نہایت ضروری امر ہے کہ ہم خدا سے التجا کریں کہ وہ ہم کو وہ نور اور ہدایت بخشے جو اس گناہ اور تاریکی سے معمور دنیا میں ہم کو نہایت ضرور ہیں ۔ علاوہ بریں جو کوئی  موتیوں کی تلاش میں ہوتا ہے اس کو یہ توقع نہیں ہوتی کہ کسی تازہ شریں پانی کی نہرمیں موتی پائے گا بلکہ سمندر میں اور سمندر کی طرف ان کی تلاش میں جاتا ہے اور جو کوئی زمین کے عمدہ حاصلات مثلاً انگور، انار، آم، گندم وغیرہ کی خواہش رکھتا ہے اس کو یہ امید نہیں ہوتی کہ ایسی چیزیں کسی جنگل میں پائے ۔بلکہ کسی عمدہ زرخیز ملک میں ۔ بس سچے مذہب کی تلاش کے وقت یاد رکھنا چاہیے کہ ہم توقع نہیں رکھ سکتے کہ ہم اس کو جاہل، بے تہذیب  اوروحشیوں میں پائیں گے بلکہ مہذب شائستہ اور نیک لوگوں میں ۔ لہٰذا بہت مناسب ہے کہ اس ملک کے تعلیم یافتہ باشندہ مسیحی مذہب کے دعوؤں کا نہایت اطمینان اور صبر اور دعا کے ساتھ امتحان کریں ۔ دنیا کی نہایت مہذب قومیں بائبل کے سواکسی اور کی معتقد (پیرو)نہیں ہیں اور اس کے سوا اور کوئی کتاب نہیں جو الٰہام کا دعویٰ کرے اور قبولیت کے قابل ہو جن قوموں نے بائبل کو قبول کیا ہے انہوں نے اس کے ذریعہ سے نہایت بھاری برکتیں حاصل کیں ہیں اس ہی سے ان کو نہایت پاکیزہ اخلاق کا درجہ حاصل ہے اور اس کے ذریعہ سے خدا کی ہستی اور اس کی صفات سے اعلیٰ خیالات ان کو نصیب ہیں اور ان کو بہشت کا راہ معلوم ہو گیا ہے ۔ جس پر وہ قدم مار سکتے ہیں اس لئے آپ  لوگوں سے التماس ہے کہ اس بات پر غور کریں کہ انجیل خدا کی طرف سے اور مسیح آدم زاد کی نجات دہندہ ہے کہ نہیں؟۔

Leave a Comment