The Founder of Christianity
By
The Rev CANON W.H.T.GAIRDNER
کینن ڈبلیو۔ایچ۔ ٹی ۔گیرڈنر صاحب
Published in 1937
مسیحیت کابانی
باب اوّل
” یہ مسئلہ (یعنی سیدنا مسیح کی تصلیب اور اس کی موت ) مسیحی مذہب میں کچھ اہمیت نہیں رکھتا اوریہ مذہب درحقیقت اسلام اور یہودیت کی مانند فقط ایک ایسا مذہب ہے جس کا مقصد محض عقیدہ وحدانیت اخلاق اور اصولِ اخلاق کی تعلیم وتلقین کرنا ہے۔
(مندرجہ بالا عبارت قاہرہ کے ایک رسالہ سے مقتبس ہے)
(۱)قبل ازیں کہ ہم آگے بڑھیں یہ کہنا ضرور ہے کہ کوئی مسیحی عبارت مافوق کی صداقت سے انکار نہیں کرتا کیونکہ مسیحی مذہب واقعی ایک ایسا مذہب ہے ” جو عقیدہ وحدانیت ، اخلاق اور اصول ِ اخلاق کی تعلیم وتلقین کرتاہے” فرق صرف اتنا ہے کہ یہ عبارت مسیحی مذہب کے جملہ عقائد کا ذکر نہیں کرتی یا یہ الفاظ دیگر اس عبارت میں سے وہ الفاظ مخذوف ہیں جو اہل نصاریٰ کے دیگر عقائد کا اظہار کرتے ہیں۔ مخالفین کا یہ دعویٰ کہ یہ عبارت مسیحیت کے تمام عقائد کو کافی اورکامل طورپر ظاہر کرتی ہے غلط ہے۔لاریب سیدنا عیسیٰ اوراس کا مذہب ایک خدایِ واحد کااعلان کرتے ہیں۔ لاریب وہ ایک نئی شریعت اور ایک نئے اصول اخلاق کو پیش کرتے ہیں۔ گویہ ہر دواسلام اوریہودیت کی شریعت سے بالکل مختلف ہیں ۔ واقعی مسیحیت نے ایسے اعلیٰ شخصی اوراجتماعی اخلاق کی تعلیم دی ہے جو حالانکہ اس روئے زمین پر مستحکم وبرقرار ہے توبھی فلک الافلاک کی بلندیوں تک پرواز کرتاہے ۔ لیکن یہ سیدنا مسیح کی تمام ترخدمت اوربشارت نہیں جو اس نے اپنے حین حیات میں بنی آدم کو دی۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ تعلیم نہایت عجیب وغریب ہے لیکن یہ بذاتِ خود وہ کار عظیم نہیں جس کے انجام دینے کے لئے سیدنا مسیح آئے بلکہ وہ اس کا بیشتر اوراہم تر حصہ بھی نہیں ۔اگرایسا ہوتا تو ممکن ہے کہ انبیائے عہدعتیق کے بعدا ور کوئی نبی نہ آتا یا اگر ” عقیدہ وحدانیت ،اخلاق اور اصول ِ اخلاق کی تعلیم کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے کسی کی آمد کی ضرورت بھی ہوتی تو وہ سیدنا مسیح نہ ہوتے۔ درحقیقت مسیح کی آمد کااصل مقصد یہ تھا کہ اس دنیا میں بنی نوع انسان کے لئے زندگی کا ایک ایسا خزانہ بہم پہنچائے جس کے ذریعہ سے ہر زمانہ بلکہ ابدیت کی سحر کے طلوع ہونے تک اخلاق اوراصولِ اخلاق نتیجتہً رونما ہوں۔ یہ کہنا غیر ضروری سا معلوم ہوتاہے کہ مسیح کی تعلیم سے بہتر گراں مایہ تر اورعجیب تر اورکوئی شے ہوسکتی ہے لیکن اس کا ذکرکرنا لازم ہے ۔کیونکہ جو کام مسیح نے انجام دیا وہ واقعی تمام دیگر اُمور سے برتر۔ اعلیٰ تر اوراہم تر ہے اس لئے کہ اس کے ذریعہ سے روحِ انسانی اس واحد خدا کے عین مرکز تک پہنچنے اوراخلاق اور اصول اخلاق کے جس کا بہتر نام پاکیزگی ہے ثمر پیدا کرنے کے قابل ہوجاتی ہے۔
(۲۔)سیدناعیسیٰ مسیح نےاپنی خدمت کی پہلی منزل کے دوران میں یعنی اپنی صلیبی موت اور اذیت کے اظہار سے پیشتر واقعی “عقیدہ وحدانیت ، اخلاق اور اصولِ اخلاق ” کی تعلیم دی لیکن وہ عقیدہ وحدانت کیا تھا؟ ایک باپ (خدا)کا انکشاف جو خالق ومالک ہے ! اور وہ اصول اخلاق اور اخلاق کیا تھے؟ محبت کا روحانی ” نیا قانون” اورپہاڑی وعظ کے نئے روحانی تصورات ! ذرا غور کیجئے اوردیکھئے کہ اس موقع پر بھی سیدنا مسیح ایک اخلاقی فلسفی یا معلم الہیٰات یا معاشری مصلح یاناصح بلکہ نبی یا رسول کی مانند کلام نہیں کرتے۔ بلکہ و ہ ایسے شخص کی مانند کلام کرتے ہیں جس میں انجام کار ” خدا کی بادشاہی” کا آغاز وقیام ہونے کو ہے۔ خدا کی بادشاہی سے مراد ہے روحانی حکومت جو سراسر برق وآتش کا سازور رکھتی ہے اور جس میں داخل ہونا نئی پیدائش کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسی بادشاہی جو بوجہ اپنی ساخت وترکیب کے سیدنا عیسیٰ کے ساتھ منسوب ہے کیونکہ وہی اس کا سروسردار یا یہودی عبارت کے مطابق مسیح یا مسح کیا ہوا بادشاہ ہے۔
مذکورہ بالا بیان مسیحیت کی اس بےمعنی ، کمزور اورناکافی تعریف کی حدود سے تجاوز کرجاتاہے جس سے ہم نے اپنے مضمون کو شروع کیا تھا۔ بیان مافوق سیدنا عیسیٰ کو نبی ہی نہیں بلکہ سراسر ایک زبردست قدرت قرار دیتا ہے۔ یہ حقیقت سیدنا عیسیٰ مسیح کی ابتدائی تقاریر اورتعلیمات سے عجیب طور پر واضح ہوتی ہے۔ مثلاً ملاحظہ فرمائیے کہ پہاڑی وعظ میں وہ فوراً ایک نئے واضع شریعت یا مقنن اورایک نئی تحریک دہ قدرت (متی ۷: ۲۲ کے الفاظ” تیرے نام سے ” ) اور آخری منصف کی صورت میں نظر آتاہے ۔ یہ حقیقت ان علامات سے بھی جو مسیح نے عالم ِ قدرت پر اورنیز انواع واقسام کے امراض اور موت کی طاقتوں پر اپنا اختیار اور اقتدار ثابت کرنے کی غرض سے ظاہر کیں حیرت انگیز طریق پر آشکارا ہوتی ہے ۔ چاہئیے کہ ہمارے قارئین خدا کی بادشاہی کے اس پرُزور اورہلادینے والے تصور پر غور کریں جو فوق الفطرت ہونے کے باوجود اس فطری دنیا میں موجود ہے ۔ اور سیدنا عیسیٰ مسیح سے جو اس بادشاہی کا سروسردار ہے۔ فوق الفطری طورپر متعلق ہے اس وقت ان کومعلوم ہوجائیگا کہ وہ بیان مسیحی مذہب کی ماہیت اور سیدنا مسیح کے اصل مقصد کو پورے طورپر ظاہر کرنے میں کس قد ر قاصر ہے اور کہ اس کی ابتداہی غلط ہوئی یعنی اصل نکتہ محذوف ہے۔ اورابھی تو اس مسئلہ کا فقط آغاز ہی ہوا ہے۔ ہنوز بہت کچھ بیان کرنا باقی ہے ۔ لہذا ہم اپنے ناظرین کو مخلصانہ صلاح دیتے ہیں کہ اسی نکتہ سےشروع کریں اور اس کو مدنظر رکھتے ہوئے انجیل جلیل کے ابتدائی ابواب کا مطالعہ کریں اور اس معلم اورہادی کے ” شاگرد ” بن جائیں جس کا انکشاف ان ابواب کے ذریعہ سے ہوتاہے ۔ ان اشخاص کی رائے پر اکتفا نہ کریں جن کے خیالات وتصورات بمتعلق عقیدہ وحدانیت، اخلاق ِ واصول ِ اخلاق ” فقط ان ادنیٰ منازل تک محدود ہیں”جو عالم قدرت سے علاقہ رکھتی ہیں۔
خدا کی ابویت اوراس کی بادشاہی کو بیان کرنے کے لئے ایک پیراگراف یا ایک مختصر سا باب کافی نہیں بلکہ اس کے لئے ایک ضیغم کتاب کی ضرورت ہے۔
(۳۔) ہم نے اس حقیقت پر بخوبی غور کرلیا ہے کہ تصلیب وموت کا واقعہ تمام واقعات کے بعد وقوع میں آتاہے (ایسا ہونالازمی تھا) اورکہ کس طرح بتدریج اس اہم واقعہ تک رسائی ہوتی ہے ۔ہم نے یہ بھی روشن کردیا ہےکہ ان حقیقتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسیح کی صلیب اور موت کچھ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس معاملہ کے اس طور سے پیش کرنے سے ہی اس بحث کی غیر معقولیت ظاہر ہوجاتی ہے۔ یہ گویا ایسی بات ہے کہ کسی عمدہ ڈرامہ کا آخری منظر ہو۔ جس کے دیکھتے ہی حاضرین ورطہ حیرت میں پڑجائیں ۔ مگر اس منظر کی اہمیت کا محض اس بنا پر انکار کردیا جائے کہ اس کی تائید پس پردہ ہوئی ہے ممکن نہیں کہ کوئی بشر کسی اعلیٰ تصنیف یا کسی عمدہ نقل کے متعلق ایسی فضول رائے پیش کرے۔ سیدنا عیسیٰ مسیح کی زندگی بھی فنون لطیفہ کی بہترین مثال ہے لیکن مزید براں وہ ایک بزرگترین حقیقت بھی ہے جو اس سے پیشتر دنیا کے معائنہ میں نہیں آئی۔ہمارا خیال ہے کہ وہ لوگ جو بیان مندرجہ بالا کی مانند اپنی سطحی آراء کا اظہار کرنے کے عادی ہیں اس بات کو سن کر ذرا تامل کرینگے پس اس مقام پر ہم یہی کوشش کرینگے کہ اپنے ناظرین پر یہ ظاہر کریں کہ حالانکہ ان ابتدائی اعمال اور مناظرمیں یہ افسوسناک واقعہ گویا پس ِپردہ تھابلکہ اس کی تیاری بھی مثل ایک معما تھی توبھی متعدد کنایات واشارات موجود ہیں جو اس انتہائی منزل کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں۔ ہم کو یادرکھنا چاہیے کہ اسی حقیقت کاانکار کیا جاتا اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ انتہائی منز ل محض ایک واقعہ کا اختتام ہے اور بذات ِ خودکچھ اہمیت نہیں رکھتی۔ اس وقت ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ابتدائی منازل میں اس کی جانب پنہاں اشارے ایسے معافی رکھتے ہیں جو اس بات کے خلاف شہادت دیتے ہیں۔
ان ابتدائی منازل میں اشاروں اورکنایوں کی دووجوہ ہیں۔ اول۔ یہ کہ ہنوز وقت نہ آیا تھا کہ اس سے زیادہ اورکچھ ظاہر کیا جائے ۔ واقعات کے اس سلسلہ کا جواس آخری اہم واقعہ کی جانب راہنمائی کرتا تھا ہنوز صاف اور صریح نقشہ نہ کھینچا گیا تھا۔ نہ خدا اورنہ مسیح اور نہ ہی قدرت کا یہ خاصہ ہے کہ ارتقا کو جبراًترقی دے۔ جیسے کہ راقم الحروف نے ایک مرتبہ اپنےزمانہ میں طفیلی میں چاہا کہ شگوفہ کو جبراً کھول کر گل خوشرنگ بنادے لیکن کامیاب نہ ہوا۔ضرور تھا کہ اس المناک واقعہ کا خونیں گل سرخ خودبخود قدرتی طورپر واہوجائے جیساکہ اس زمانہ اورمکان کی قید سے محدود کائنات میں تمام اشیا کو ترقی کرنا ہے ۔ اس اثنا میں وہ شگوفہ گل کی صورت میں نمودار ہوگیا۔ لیکن چونکہ سیدنا مسیح انجام سے واقف تھا لہذا وہ اپنے شاگردوں کو ایماؤں اوراشاروں کے ذریعہ سے مطلع کرتا رہا [1]۔ اور ہم پڑھتے ہیں کہ اس کے زندہ ہونے کے بعد اس کے شاگردوں کو “یاد آیا” کہ اس نے یہ کہا تھا اس سے انہوں نے اس واقعہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا۔ جس کے متعلق ان کے استاد نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ پر ُ معنی طورپر کنایتہً ذکر کیا تھا۔
دوم یہ وجہ تھی کہ مسیح کے شاگرد اس دل شکن۔ حیرت انگیز ۔ خبر کا صدمہ برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔یعنی عوام کے ہاتھوں مسیح کی خوفناک اورمجرمانہ موت، ایسی اندوہ ناک خبر کا اعلان کرنا روحانی طور پر نا ممکن تھا تاقتیکہ اس کے ساتھ ان کی واقفیت دیرینہ نہ ہوجاتی اوراس پر ان کا یقین مستحکم اورموثق نہ ہوجاتا۔ لہذاہم دیکھتے ہیں کہ استاد نے کامل ایک سال بلکہ غالباً دوسال اس مختصری جماعت کے ساتھ صرف کئے تاکہ ان کو بادشاہی کا نیا پیغام دے اوراس کے اخلاق اور اصول اخلاق کو ان کے ذہن نشین کردے اورعقیدہ وحدانیت اور خدا کی ابویت کا نیا سبق ان کو بخوبی سکھادے۔ علاوہ ازیں ان کو یہ بھی تعلیم دے کہ وہ اس پر تکیہ کریں۔ اس کے اقتدار کو بخوبی جان لیں(متی ۷: ۲۰) اوراس طرح اس پر کامل توکل اوراعتماد رکھیں یا بہ عبارت دیگر اس پر ایمان لے آئیں۔ اس عرصہ کے اختتام پر وہ ان کا امتحان لیتاہے تاکہ معلوم کرلے کہ آیا وہ اس اہم سبق کی ابتدائی باتوں سے بھی واقف ہوئے یانہیں۔ اس نے ان سے کہا تم کیا سمجھتے ہو کہ میں کون ہوں؟ زمانہ نہایت نازک اورتاریک تھا جوہردلعزیزی مسیح کو اپنی خدمت کے آغاز میں حاصل تھی وہ اب رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جارہی تھی۔قوم کے معلموں سے بزرگوں نے اس کی مخالفت کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا تھا۔ علماء یہ فتویٰ دے چکے تھے کہ وہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا اوراس کے قتل کے درپے تھے۔ عوام الناس کی ہمت کو خود سیدنا مسیح نے پست کردیا تھا بلکہ اس کے شاگردوں میں سے بعض نے اس سے تعلق قطع کردیا تھا(یوحنا ۶: ۶۶)لہذا مذکورہ بالا تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پطرس کا جواب جو اس نے ذیل کے الفاظ میں یعنی ” تو مسیح” ہے دیا۔ خود اس کے اوراس کے رفیقوں کے کامل ایمان اور شخصی اعتماد اوریقین کازبردست ثبوت تھا۔ الفاظ ” تومسیح ہے” سے اس کی مراد یہ تھی کہ تو خدا کا مسح کیا ہوا بادشاہ ہے یا زمین وآسمان پر خدا کی بادشاہی کا سرور سردار تو ہے(متی ۱۶: ۱۶) پطرس کا یہ جواب ایسا اعلیٰ تھا کہ مسیح نے فرمایا کہ” یہ بات میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے”۔ اب ذرا غور فرمائیے اوردیکھئے کہ کیا ہوتاہے ۔ فکر وتردد کا زمانہ گذرچکا ہے۔ جماعت امتحان میں کامیاب ہوچکی ہے اورتمام دنیا کے خلاف ان کا ایمان ان کےاستاد پر قائم اور برقرار رہا ہے لہذا اب وہ اس قابل ہیں کہ اس اہم ترین راز سے مطلع کئے جائیں یعنی المناک اورعمیق اسراء سے واقف ہوجائیں جو قبل ازیں ان کو پریشان اور سراسیمہ کردیتے تھے یا ان کو سکتہ کے عالم میں ڈال دیتے تھے۔ اسی لئے کلام الله میں مرقوم ہے کہ پطرس کے اس پر ُجوش اقراء اورمسیح کےدلکش جواب کے بعد سے ” سیدنا عیسیٰ اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اسے ضرور ہے کہ یروشیلم کو جائے اوربزرگوں اورسردار کاہنوں او رفقیہوں کی طرف سے بہت دکھ اٹھائے اور قتل کیا جائے اورتیسرے دن جی اٹھے”۔
ہمارے خیال میں مندرجہ بالا الفاظ کا بغور مطالعہ کرنے اورعبارت کے سیاق وسباق سے دوباتیں بخوبی ظاہر ہوتی ہیں۔ اول یہ واضح ہوتاہے کہ سیدنا مسیح نے اپنی موت اوراپنے زندہ ہونے کی کامل تعلیم کو کیوں کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کیا۔ حالانکہ بہت مدت پیشتر کئی مرتبہ ان کے متعلق اشارے دے گئے تھے بلکہ کنایتہً ان کی پیشینگوئی بھی کی تھی۔ دوم۔ یہ کہ یہ تعلیم سیدنا مسیح کے پیغام کا مرکز اوراصل جوہر تھی ۔ وہ ایک راز تھا جو اس قدر حیرت انگیز، ایسا دردناک اورانسانی عقل وادراک کے دائرہ سے ایسا بالا تھا کہ وہ فقط ایسے اشخاص پر ظاہر کیا جاسکتا تھا جن کے گوش ہوش اس عجیب وغریب راز کی سماعت کے لئے پیشتر سے تیار کئے گئے تھے۔ وہ ایک ایسا گوہر بیش بہا تھاکہ اس کا مالک اس کو ایسے اشخاص کو عاریتاً بھی نہ دے سکتا تھا جو اس کی قدروقیمت سے ناواقف اوربے پرواہ تھے تو پھر غضب نہیں تواورکیا ہے کہ اس اعلیٰ انکشاف کے متعلق کہا جائے کہ “یہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا”۔ ہماری دلی آرزو یہ ہے کہ اس ملک کے وہ لوگ جو یہی رائے رکھتے ہیں بلکہ اس حقیقت سے منکر ہیں انجیل جلیل کی ان حقیقتوں کے روشن کئے جانے سے یہ جان لیں کہ اس خداوند کا تصور کس قدر وسیع تھا جوایسی دردناک موت مرا اور جو اس موت کے وقوع میں آنے سے پیشتر اس کے اعلیٰ معانی سے بخوبی آگاہ تھا اورا س کی تعلیم پہلے سے دیتا رہا۔