سب آدمی گنہگار ہیں

Eastern View of Jerusalem

We are all Sinner’s

By

Mansur

منصور

Published in Nur-i-Afshan September 18, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۱۸ ستمبر ۱۸۸۴ ء

یہ بات خوب ثابت ہے کہ ہم سب بنی آدم جو اس دنیا میں ہیں ضرور ضرور گنہگار اور عدالت خداوندی کے قرضدار ہیں ۔کوئی نہیں جو اس داغ سے بیداغ ہو اور صرف انسان ہو کر اس گناہ سے جو اس کی ذات میں ہے ہرگز بری نہیں ہو سکتا کیونکہ دنیا کی قدیم اور معتبر تواریخ اگر ہم ڈھونڈتے ہیں تو سوائے توریت کے جو موسیٰ نبی کی لکھی ہوئی ہے اور کوئی معلوم نہیں ہوتی اور اس سے پرانی اور کوئی تواریخ نہیں ملتی ۔ ہاں یونانی عالموں میں ہیروئس کی تواریخ قدیم ہے ۔ وہ حضرت ملاکی نبی کے زمانہ میں خداوند یسوع مسیح سے چار سو(۴۰۰) برس پیشتر تھا اور اس سے قدیم ہو میرس (ہومر)اور ہسٹید شاعروں کی تصانیف قرار دی گئ ہے۔ سو وہ بھی توریت سے قدیم نہیں کیونکہ ہومیرس   کو حضرت یسعیاہ نبی کا ہم عہد بتلاتے ہیں۔ جو سن عیسوی سے تخمیناً  ساڑھے سات  سو(۷۵۰) برس قبل گزرے اور ہسیڈ کو حضرت الیاس (ایلیاہ)کا ہم زمانہ ٹھہرایا ہے ۔وہ سن عیسوی سے قریباً نو سو(۹۰۰) برس پہلے ہوئے۔ غرض توریت دنیا کی تواریخ قدیم ہے اس میں یوں مندرج ہے کہ خدائے تعالیٰ نے زمین کی خاک سے آدم کو بنا کر اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا کہ جیتی جان ہوا اور ساری دنیا کی اس کو سرداری بخشی اور باغ کی نگہبانی اور باغبانی کے لئے سپرد کر کے حکم دیا کہ ہر ایک درخت کا پھل کھانا۔ لیکن نیک و بد کی شناخت کے درخت سے ہرگز نہ کھانا جب تو کھائے گا تو ضرور مر جائے گا مگر شیطان نے حوا سے جو آدم کی بیوی تھی کہا کہ خدا جانتا ہے کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی ۔سو حوا نے آپ بھی کھایا اور آدم کو بھی کھلایا۔ پس آدم اپنی اس عدول حکمی اور نافرمانبرداری کے سبب قربت الہٰی سے خارج کیا گیا اور اس کی اولاد بھی اس کے ساتھ اس میراث کی جو کہ اس کو شیطان کے ورغلانے سے حاصل ہوئی وارث ٹھہری اور اگر کوئی کہے کہ آدم کے گناہ میں کل آدم زاد کیونکر شامل ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک درخت کا بیج بوئیں اور اس کے تخم سے اور درخت پیدا ہوں تو کیا وہ سب ایک ہی تاثیر کے اور ایک ہی سے نہ ہوں گے ۔پس ہم سب جو ایک اسی آدم کی جو  اوپر ذکر ہو چکا پود (نسل، اولاد، خاندان )ہیں تو کیوں نہیں ہم اس کے گناہ میں شامل ہیں ۔بے شک اس کے ذاتی گناہ میں شریک ہیں اور کل بنی آدم گنہگار ہیں ۔لیکن اکثر محمدی اس بات کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ ہاں ہم تو گنہگار ہیں مگر ہمارے نبی گنہگار نہیں اس لئے وہ ہمارے خدا کے حضور قیامت کے دن شفیع ہوں گے اس دعوے کی  انکشاف حقیقت کے لئے ضرور ہے کہ کچھ مختصر حال محمد صاحب کا جو مسلمانوں کے نزدیک سب نبیوں کے سردار قرار دیئے گئے ہیں تحریر کیا جائے۔ کیونکہ جب نبیوں کا سردار بے گناہ نہ ٹھہرے گا اوروں کا خاطی(گنہگار)ماننا کچھ دشوار نہ ہو گا ۔

اے تھکے ماندوں میرے پاس آؤ میں تم کو نجات دوں گا

اب سنیئے محمد صاحب کا حال دو قسم کی کتابوں میں مندرج ہے ایک قرآن جو خود محمد صاحب کی تصنیف ہے دوسرے حدیث جو نہ محمد صاحب کی تصنیف اور نہ ان کے کسی صحابی کی بلکہ اس کے مصنفوں نے تو محمد صاحب کا منہ بھی نہیں دیکھا قول اور فعل کا منضبط(مضبوط کیا گیا ) کرنا تو کام رکھتا ہے کیونکہ محمد صاحب کا انتقال ۱۱ ہجری میں ہوگیا اور پہلے امام مالک صاحب کی پیدائش ۹۳ ہجری کی ہے اور دوم امام شافعی ۱۵۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔تیسرے امام ابو محمد دارمی ۱۸۱ ہجری میں پیدا ہوئے ۔چوتھے امام احمد حنیل  ۱۶۴ ہجری میں پانچویں امام بخاری ۱۹۴ ہجری میں پیدا ہوئے ۔چھٹے امام مسلم بن حجاج ۲۰۴ ہجری میں ،ساتویں امام ترمذی ۲۰۹ ہجری میں، آٹھویں امام ابوداؤد ۲۰۲ ہجری میں، نویں امام نسائی ۲۱۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔ دسویں امام ابن ماجہ ۲۰۹ ہجری میں، گیارھویں امام ابی الحسن دارقطنی ۳۰۶ ہجری میں، بارھویں امام بیہقی ۳۸۲ میں پیدا ہوئے۔ تیرھویں امام ابی الحسن سن پیدائش یاد نہیں رہا مگر یہ معلوم ہے کہ ۵۴۰ ہجری میں انتقال کیا ۔چودھویں امام ابن جورنی یہ ۵۱۷ ہجری میں پیدا ہوئے ۔پندرھویں امام لوذی ۶۳۱ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۶۷۷ ہجری میں مر گئے ۔

پس جن کی پیدائش محمد صاحب سے سو برس سے چھ سو(۶۰۰) برس بعد تک ہوا ان کا قول نبی صاحب کے حق میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ اب ملاحظہ فرمایے کہ قرآن محمد صاحب کے بے گناہ ہونے کی بابت کیا کہتا ہے ۔

دیکھو قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں جو محمد صاحب کے گنہگار ہونے پر دال (دلیل ، علامت، نشان) ہیں اگر سب کو اس مختصر پرچہ میں درج کیا جائے تو سوائے نقصان اور کوئی فائدہ متصور نہیں اس لئے ہم صرف ایک (سورہ مومن کے چھ رکوع کی آیت) لکھتے ہیں۔ اگر اس امر میں کسی صاحب کو زیادہ تفتیش منظور ہو تو ایک رسالہ موم بہ نبی معصوم جو فی الحال مطبع نورافشاں لودیانہ میں چھپ کر شائع ہوا ہے لے کر دیکھے لیں ۔اس میں سب نبیوں کی بے گناہی کا مفصل حال درج ہے (سورہ مومن ۶ رکوع ) ترجمہ ’’ سو تو ٹھہرا رہ بے شک اللہ کا وعدہ ٹھیک ہے اور بخشوا اپنا گناہ اور پاکی بول اپنے رب کی خوبیاں شام کو اور صبح کو جو لوگ جھگڑتے ہیں اللہ کی باتوں میں بغیر سند کے جو پہنچی ہو ان کو اور کچھ نہیں ان کے جی میں غرور ہے کہ کبھی نہ پہنچے گی اس تک سو تو پناہ مانگ اللہ کی بے شک وہی ہے سنتا دیکھتا ‘‘انتہیٰ

 اگر محمد گنہگار نہ ہوتے تو معافی مانگنے کا حکم نہ ہوتا اب محمد صاحب کا گنہگار  ہونا تو اس آیت سے ثابت ہوا مگر یہ ہے کہ جب وہ شخص جس پر محمدیوں کی نجات کا مدار تھا محتاج شفاعت ہے تو اب کون شخص ملے جس کے ذریعہ سے نجات حاصل ہو۔ پس کوئی نہیں مگر خداوند یسوع مسیح جو پکار پکار کر کہتا ہے کہ’’ اے تھکے ماندوں میرے پاس آؤ میں تم کو نجات دوں گا ‘‘اور قرآن بھی اس کی معصومیت کا قائل ہے ۔

Leave a Comment