انجیل کی قدرومنزلت

Eastern View of Jerusalem

The Dignity and value of the Gospel

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan June 26, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۲۶ جون ۱۸۸۴ ء

کتاب مقدس کا دوسرا حصہ عہد جدید ہے جس کی ابتدا میں چاروں اناجیل ہیں ان انجیلوں میں خداوند یسوع مسیح کی پیدائش اور موت کا بیان ہے۔ مسیح کا قول فعل تربیت تعلیم سب کچھ انہیں کتابوں سے دریافت ہوا اسی واسطے دین عیسوی کی بیخ وبنیاد (جڑ اور بنیاد )اور الہٰام ربانی کے مرکزومدار  نبی عہد عتیق کی سب نبوتیں اور مثالیں انہیں میں پوری ہوئیں اور عہد جدید کی تعلیمات کی اصل بنیاد اسی میں پائی گئی۔ پاک نوشتوں کے پہلے حصوں میں مسیح کا کلام ہمیں کان کے وسیلہ ملا اور یہاں اس کو آنکھ سے معائنہ کیا ۔دیگر حصص میں مسیح کا احوال آئینہ کا خیال ہے اور یہاں جلوہ جمال ۔اسی لئے دین عیسوی کے کل معلم اناجیل کی قدرومنزلت زیادہ کرتے رہے ہیں اور بدعتی و مخالفان دین وعیسوی بھی انہیں کتابوں کے مقدمات پر ہمیشہ حملے کرتے رہے۔ زمانہ حال میں جب بحث مباحثہ دین عیسوی کی نسبت کہیں در پیش ہوا تو خصوص انہیں کتابوں کی تحریر مواخذہ کرنا قرار دیا ان کتابوں کی سچائی اور معتبری کی تحقیقات ضروری اور شرط دینداری ہے ۔کیونکہ دین عیسوی  کی حقانیت کی دستآویز اور سند کامل بالخصوص یہی چار کتابیں ہیں اب دریافت کر و کہ یہ سند اصلی ہے یا جعلی ۔عیسوی دین کی جماعت کا یقین اسی پر ہے کہ پہلی اور چوتھی کتاب رسولوں کے ہاتھ سے مرتب ہوئی یعنی متی اور یوحنا کی اور دوسری اور تیسری اور دو شاگردوں سے یعنی مرقس اور لوقا کے اس بیان پر کچھ ان کے پاس سند ہے اور وہ کس طرح ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ ان چاروں ہی کی لکھی ہوئی ہیں اور  کسی دوسروں کی نہیں اس کا جواب مختصراً ہم یوں دے سکتے ہیں کہ

 اول: جعلی کتاب کی خصوصیات  سے یہ بالکل مبرا ہیں اور ان پر وہ کسی صورت سے لگائی نہیں جا سکتی محققین جعلی کتاب کے امارات اور نشان اس طرح پرنبلا گئے کہ پہلے تو جب وہ کتاب لوگوں میں انتشار پائے اور نظر میں آئے تو اس کی سچائی مشکوک ہے اور یہ شک دل میں گزرے کہ آیا یہ کتاب مصنف منسوب الیہ کی تصنیف اور تالیف سے ہے یا نہیں ۔

دوئم:  اس مصنف کے ہم زمان اور دوست جس کے نام پر وہ کتاب نکلی اس کی تصنیف سے انکاری ہوں ۔

سوئم : اس کتاب کے منسوبی مصنف کے بعد برسوں یہ کتاب مخفی رہی ہو اور مصنف کا نام و نشان نہ پایا جائے ۔

چہارم : اس کتاب کی عبارت مصنف کی دیگر تصنیفات سے ملتی ہوئی نہ ہو اور اگر اس کی کوئی اور تصنیف نہ ہو تو اس کی تعلیم اور لیاقت سے ملتی نہ ہو۔

پنجم : اس کتاب میں ایسے وقوعات کا مذکور ہوا ہو جو کہ اس کے مصنف کے زمانہ کے بعد وقوع میں آئے ہوں۔

ششم: اس کتاب میں ایسی رائے مصنف کی نسبت پائی جائے جو اس کی دیگر تصنیفات سے سراسر مخالف اور مبین ہو، اگر چہ یہ پچھلا نشان ہمیشہ پختہ اور استوار نہیں ہوا کرتا ۔کیونکہ کبھی یوں بھی ہوا کرتا ہے کہ مصنف چند مدت بعد اپنی اس رائے کو بدل لیا کرتا ہے اب ان خصوصیات مذکورہ سے ایک بھی ایسی نہیں کہ انجیل کی چار کتابوں میں سے کسی میں پائی جائے ۔

مسیح کا احوال آئینہ کا خیال ہے اور یہاں جلوہ جمال

دوسرے مورخین کی مسلسل شہادت اور اجماع و اتفاق ان کا چنانچہ ایک بڑا مامور معتبر عیسائی کلیسیا کا مورخ یوسیبیس جس کا نام ہے اور چوتھی صدی کے اوائل میں مشہور ہوا اس نے علم و فضل کمال کو پہنچایا اور کتابیں تصنیف کیں اور بعد تحقیقات کے ایک تاریخ عیسائی کلیسیا کی لکھی جو ابھی تک موجود اور مشہور ہے ۔اس کتاب کے تیسرے حصہ کے  ۲۵ باب میں عہد جدید کی ہر ایک کتاب کا مفصل بیان کرتا ہے۔ اور ہر  ایک مصنف کا نام اور احوال بتاتا ہے۔ وہ عیسوی جماعت کی مروجہ کتابوں کو تین قسم میں تقسیم کرتا ہے پہلی قسم کی وہ کتابیں ہیں جو قدیم سے جماعت میں الٰہامی مانی گئیں اور ساری کلیسیا میں مروج ہیں اور جن کی نسبت کبھی کسی کو شک و شبہ پیدا نہیں ہوا  دوسری قسم کی وہ کتابیں ہیں جن کے مصنفوں میں کلام اور شک و شبہ کو دخل ہوا ۔ تیسری قسم کی وہ کتابیں ہیں جن کو عیسائی جماعت غیر معتبر بلکہ محض مخترع (ایجاد کرنے والا،بانی)ہمیشہ شمار کرتی رہی اور چاروں اناجیل  اسی پہلی قسم کی کتابیں ہیں کہ ان میں شک و شبہ کو دخل نہیں ۔اور خاص امرلائق غور اور قابل لحاظ یہ ہے کہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ یہ رائے نہ صرف میری تحقیقات کا نتیجہ ہے بلکہ قدیم سے تمام عیسوی جماعت کی متفق گواہی ان کتابوں کی معتبر اور ان کے مصنفوں کی نسبت اسی نمط (ڈھنگ ، مانند، روش ) پر پائی گئی اسی صدی (یعنی چہارم )میں سیک اور بڑے اور مورخ معتمد (اعتماد کرنے والا)کی گواہی کا مذکور ہونا مناسب ہے اس فاضل کا نام جیروم  ہے۔ یہ شہر انٹی اک کا خادم دین بنا اور شہر بشہر ملک یہودیہ کا سفر کرتا پھرا ہر ایک کتاب خانہ اور جماعت میں جتنے پرانے نسخے انجیل کے متداوّل (دست بہ دست پہنچی ہوئی چیز ،مروج)تھے ان کو غور سے دیکھا اور باہم مقابل کیا اور پیچھے عہد جدید کی کتابوں کی ایک فہرست مرتب کی جس کے اوائل میں ان چاروں اناجیل اور ان کے مصنفوں کا بیان ہوا۔ متی ، مرقس، لوقا، اور یوحنا علاوہ ان دو بڑے مشہور مورخوں کی شہادت کے اسی صدی میں اور( ۹) مصنفوں کی کتابوں میں اناجیل کی فہرست ملی جو مختلف ملکوں کے باشندے ہیں۔ یہ فہرست مرتبہ ان لوگوں کی بعینہ ویسی ہیں جیسی اب نئے عہد  کی کتابوں میں دیکھی گئیں ان فہرستوں اور یوسیبیس اور جیروم کی گواہی سے یہ ثابت ہے کہ اناجیل کی کتابیں عیسوی جماعت میں صدی مذکور میں موجود مروج تھیں اور ان کے مصنف متی ، مرقس ، لوقا ، اور یوحنا ہیں اور عیسائی کلیسیا میں قدیم سے یہ کتابیں بلاشک و ریب (شبہ ) مانی گئیں اور یقین عام کے لئے اس قدر شہادت کافی ہے کیونکہ یہ لوگ پہلی صدی سے نہایت نزدیک تھے اور بعد تحقیقات کاملہ کے اپنی گواہی سے مرقوم و مثبت کر گئے ان کی گواہی معتبر اور قول ان کا مستند ہے ۔لیکن اس نظرسے کہ عیسائیوں کے دل میں کو کچھ شک و شبہ رہا ہو رفع ہو جائے اور  یقین قوی ہو جائے اناجیل کی معتبر اور سچائی کی نسبت اور قوی شہادت کا بیان دیا جاتا ہے ۔تیسری  شہادت پرانے ترجموں کی پرانے ترجمے  انجیل کے بہت زمانوں میں ہوئے ۔لیکن ان سب میں سے صرف دوپرانے اور قدیم العہد ترجموں کا بیان کیا جاتا ہے اول سریانی زبان کا ترجمہ جو کہ عالموں کے درمیان پیشٹوکر کے مشہور ہوا۔ یہ ترجمہ دوسری صدی کے اوائل میں یورپ کے عیسائیوں کے واسطے بنایا گیا ۔ دوسرا ترجمہ لاطینی زبان کا ہے جو کہ عالموں کے فیمابین اٹالیا کر کے مشہور ہوا یہ دوسری صدی کے اواخر میں یورپ اور افریقہ کی عیسائی کلیسیا کے واسطے مرتب ہوا ۔یہ دونوں پرانے اور قدیمی نسخے اب تک موجود ہیں اور ان کے شروع میں متی ، مرقس ، لوقا، اور یوحنا کی اناجیل ہے ۔اس سے بخوبی ثابت ہوا کہ یہ چاروں اناجیل دوسری صدی میں انہیں چاروں مصنفوں کے نام پر پکاری گئیں اور جن کتابوں سے وہ ترجمہ کی گئی تھی ضرور عیسائی کلیسیا میں مروج تھیں اور انہیں مصنفوں کے نام سے مروج ہوئیں جن کے نام پر اب کہی جاتی ہیں ۔یہ گواہی اناجیل کے پرانے ترجموں کی نہایت کامل ہے کہ انجیل کا ہونا پہلی صدی کے اواخر یعنی رسولوں کے زمانہ تک ( کیونکہ یوحنا رسول نے پہلی صدی کے اواخر یا دوسری صدی کے اوائل میں  وفات پائی) ثابت کرتی ہے۔ چوتھی گواہی تیسری اور دوسری صدی کے عیسائی مصنفوں کی چوتھی صدی کے عیسائی مصنفوں کی شہادت ہم اوپر دے چکے ہیں اس واسطے ہم تیسری صدی سے شروع کرتے ہیں پہلا نامور اس صدی کا جو سب سے زیادہ مشہور ہوابزرگ اریجن نامی ہے اس کا مولد مصر ہے ۔علم میں کمال حاصل کیا اور بڑا نامی ہوا۔  ۱۸۵ ء سے   ۲۵۳ ء کے مابین مشہوررہا ۔ من شعور و تمیز سے آخر عمر تک بائبل کی تحقیقات میں مصروف رہا اور انجیل کے مختلف نسخوں کا مقابلہ کر کے اختلاف قرات کو بیان کیا اور عیسوی جماعت کو علم الہٰی سکھایا ۔یہ شخص طبیعت ازاد رکھتا تھا اور بلا تحقیقات دوسرے کی رائے پذیرانہیں کرتا تھا ۔اس نے نئے عہد نامہ کی کتابوں کی فہرست لکھی اور چاروں اناجیل متی ، مرقس ، لوقا، اور یوحنا کو نہ یہی کہ اقرار کیا کہ یہ صحیح کتابیں ہیں انہیں چاروں شاگردوں کی بلکہ ان کی تفسیر بھی لکھی۔ دوسری گواہی اس صدی میں بزرگ ٹرٹلین کی ہوئی یہ شخص شہر کارتھیج میں پیدا ہوا  اور  ۱۶۰ ء اور  ۲۲۰ ء کے درمیان مشہور لاطینی کلیسیا کا ایک امام ہوا ۔افریقہ کی جماعت کا نور بلیغ(حسب موقع گفتگو کرنے والا) فصیح، اس فاضل نے مارشین بدعتی کے رد میں ایک کتاب لکھی جس میں وہ نہایت قوت اور صفائی سے بیان کرتا ہے کہ متی ، مرقس، لوقا، اور یوحنا کی اناجیل بے شک و شبہ ابتدا سے چلی آتی ہیں اور ساری کلیسیا ان کی کتابوں کو ہمیشہ قبول کرتی آئی اور کہتا ہے کہ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔

تیسری شہادت فاضل کلیمنٹ کی ہے یہ شخص ٹرٹلین کا ہم زمان تھا اور اسکندریہ شہر میں جو علم الہٰی کا بڑا مشہور مدرسہ بنا اس کا معلم تھا۔ دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کے اوائل  ۲۱۳ ء میں اس نے وفات پائی۔ اس کی تصانیف میں سے چار کتابیں اب تک موجود ہیں ان میں سے ایک کتاب میں ان تینوں اناجیل متی، مرقس ، اور لوقا کا بیان کر کے کہتا ہے یوحنا نے آخر کو چوتھی انجیل تصنیف کی۔ روح سے ہدایت پا کر اور دوستوں کی منت کرنے سے اس انجیل میں مسیح کی روحانی باتوں کا بیان زیادہ ہے جیسا کہ پہلی اناجیل میں بیان ظاہری زندگی کا  یہ گواہی کلیمنٹ کی اناجیل کی قدامت اور سچائی کی نسبت نہایت بیش بہا ہے ۔کیونکہ یہ ایک چھوٹا آدمی نہیں تھا بلکہ علم الہٰی کا معلم تھا اور بعد تحقیقات کامل کے اس نے ان کی نسبت رائے نکالی چوتھی گواہی میورٹیری نسخوں کی۔ یہ نسخہ عہد جدید کی کتابوں کی نسبت ہے اور میلان کے کتاب خانہ میں سے ملا تھا اور میورٹیری نے سب سے پہلے ۱۷۴۰ ء میں اس کو چھپوایا اسی سبب سے اس کا نام میورٹیری پڑ گیا۔ یہ نسخہ ۱۷۰ ء میں لکھا گیا تھا ۔لاطینی زبان میں ہے اگرچہ یونانی الفاظ بکثرت اس میں مستعمل ہوئے اس میں کل عیسائی کلیسیا کی رائے انجیل کی نسبت درج اورقائم ہوئی ہے اور پہلی چار کتابیں یعنی متی، مرقس ، لوقا اور یوحنا کی اناجیل کی نسبت یہ لکھا ہے کہ یہ کتابیں کل عیسائی جماعت میں بلاشک و شبہ ابتدا سے مروج ہیں ۔ پانچویں گواہی بزرگ ایرینیس کی ہے۔ اس نے پالیکارب سے علم لیا جو کہ اسمارنا(سمرنا) کا خادم الدین تھا اور وہ خود ۱۷۷ ء میں شہر سنییس کا جو کہ فرانس میں ہے خادم دین بنا اس کی پانچ کتابیں اہل بدعت کے مقابلہ میں ابھی تک موجود ہیں ۔تیسری کتاب میں ان چاروں اناجیل اور ان کے مصنفوں کا احوال تفصیلاً بیان کیا اور کہا کہ یہ چاروں اناجیل بلاشک و شبہ متی، مرقس ، لوقا، یوحنا سے تصنیف ہوئیں اور سوائے ان چاروں اناجیل کے اور کوئی انجیل نہیں اور نہ ہو سکتی ہے ۔یہ الہٰی بندوبست ہے کہ صرف چار ہی اناجیل ہوں یہ گواہی ایرینیس کے غور کے قابل ہے کیونکہ یہ شخص یوحنا رسول کے صرف ۷۰ سال بعد ہوا اور پولیکارب کا شاگرد جو کہ خود یوحنا رسول کا شاگرد ہوا ۔جو کچھ اس نے سیکھا بے شک پولیکارب سے سیکھا تھا جس نے یوحنا رسول سے بلاواسطہ علم لیا ۔ چھٹی گواہی پاپیس کی ہے۔  یہ شخص شہر پیراپالیس کا خادم دین تھا اور یوحنا کا شاگرد بلاواسطہ اور اس نے شہرت پائی ۱۱۰ ء سے ۱۱۶ ء تک اس نے چاروں اناجیل اور ان کے مصنفوں کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ متی، مرقس ، لوقا اور یوحنا کی تصنیف ہیں ۔

یہ سب شہادتیں اناجیل اور ان کے مصنفوں کی جو زبان قلم پر آئیں اور سلسلہ وار یوحنا رسول تک پہنچائیں ان سے دو امر کا ثبوت کافی دیا گیا اول قدامت انجیل کی اور دوسرایہ کہ ان کی تصنیف رسولوں سے ہوئی ہے۔ اب یہاں چھ اور گواہ گزارے جاتے ہیں جن کی شہادت سے صرف قدامت ہی کا ثبوت کا مل ہے ۔ان شہادتوں میں اناجیل کا تذکرہ اور انتحاب جابجا سے پایا گیا لیکن یہ نہیں بتلایا کہ ان اناجیل کو کس نے تصنیف کیا پہلی شہادت جسٹن شہید سے ہے یہ شخص یونانی نسل سے ہے۔ سکم شہر ملک فلسطین میں جو کہ مسیح اور اس کے رسولوں کا قرار گاہ تھا تولد اس کا ہوا اور اسی جگہ اس نے تربیت پائی سن و سال اس کی تولد کا پہلی صدی کا اواخر ہے ۔یوحنا رسول کی وفات سے کچھ پہلے اس کی اصلی تصنیفات کل یونانی زبان میں پائی گئیں اور ابھی تک بھی موجود ہیں ۔ان میں مسیح کی زندگی کی خاص خاص وقوعات مفصل مذکور ہوئیں یہاں تک کہ اگر بالفرض اناجیل اربعہ کم ہوجائیں اور عالم شہود میں نہ رہیں توخاص بیانات ان کے جسٹن شہید کے بیانات سے جمع ہو سکتے ہیں اور وہ کہتا ہے کہ میرے یہ بیانات رسولوں کی مصنفات مسیح کی زندگی کی بابت سے لئے ہوئے ہیں جس نام سے ان دنوں اناجیل مروجہ کی شہرت رہی ۔دوسری شہادت ڈمس نامی  کی ہے جو ڈایگ نتیس کے نام پر کسی نے لکھا اور اس کے راقم کے نام کا کچھ پتہ نہیں لگا لیکن اس قدر دریافت ہوا کہ قیصر تریجن کے عہد میں کسی نے لکھایا دوسری صدی کے آغاز ۱۱۷ ء میں یہ خط ابھی تک موجود ہے اس میں پہلی اور چوتھی انجیل کا تذکرہ پایا گیا ہے ۔تیسری شہادت بزرگ پولیکارب کی ہے یہ شخص رسولوں کا ہم زمان اور سمرنہ شہر کا قسیس بنا اور ۸۰ ء میں دین مسیحی اس نے قبول کیا اور ۱۶۶ ء میں شہید ہوا یہ خود یوحنا رسول کا شاگرد تھا اور ممکن ہے کہ اور رسولوں اور مسیح کے شاگردوں کو بھی اس نے دیکھا ہو بعض علما دین کا خیال یہ ہے کہ بزرگ پولیکارب سمرنہ کی کلیسیا کے فرشتے کے نام سے (مکاشفہ ۲: ۸ )میں مذکور ہے ۔

اس بزرگ نہاد نے بہت خطوط وعظ و نصیحت میں عیسائیوں کو مرقوم کئے منجملہ ایک یہ فلپیوں کے نام کا ابھی موجود ہے ۔اس  خط نامہ میں  انجیلوں کی بے شمار آیات کا انتحاب ہوا ۔چوتھی گواہی اگنیشوس کی ہے۔ یہ شخص بھی رسولوں کا ہمعصر ہوا اور ۶۹ ء میں انطاکیہ کی کلیسیا کا قسیس بنا اور شاہ تریجن کے عہد ۱۰۷ ء میں شہادت پائی ۔اس کے مصنفات میں سے سات خطوط اب تک بھی موجود ہیں ان خطوط میں آیات پہلی تین اناجیل اور رسولوں کے خطوط کے اشارات بکثرت موجود ہیں ۔ان انتحابوں اور اقتباسوں کو بڑی مرتبہ شمار کرنا سزاوار ہے۔ اور نہایت عالی مقدار کیونکہ انجیلوں کی موجودگی قبل ۶۹ ء کے انہوں نے ثابت کر دی ۔یعنی بعد عروج مسیح کے ۲۵ برس کے اندر پانچویں برنباس کی شہادت ہے یہ شخص بلا شک و شبہ رسولوں کا ہمعصر ہوا پولس رسول کا رفیق اور انجیل کی منادی کرتے وقت ہمراہ رہا۔ اس کے خطوط یونانی زبان میں اب تک بھی موجود ہیں جو کہ ٹیشندرف صاحب نے کوہ سینا سے منگوائے اور چھپوائے ان خطوط میں اناجیل اور نئے عہد نامہ کے مراسلوں کا تذکرہ بخوبی پایا گیا ۔چھٹی گواہی کلیمنٹ نامی کا ہے یہ وہ کلیمنٹ نہیں  جس کا صدر میں مذکور ہوا ۔وہ کلیمنٹ سکندریہ کا باشندہ تھا اور تیسری صدی میں اس نے شہرت پائی اور یہ شخص روم کا قسیس اور رسولوں کا ہم زمان اور پولس کا رفیق راہ انجیل کی منادی کرنے کے وقت اس کا ذکر( فلپیوں کے خط کے ۴ باب کی تیسری آیت )میں اس طرح آیا کہ کلیمنٹ اور میرے باقی ہم خدمتوں سمیت جن کے نام زندگی کے دفتر میں ہیں مدد کردا اس کا ایک خط کرنتھیوں کے نام پر ابھی تک موجود ہے اس کی سن و سال تحریر کی بابت سب علما متفق الرائے ہیں کہ ضرور یہ سن ۹۰ ء کے پیشتر رقم پذیر ہوا۔ اس خط میں اناجیل میں سے چار آیات لفظ بہ لفظ پائی گئیں جو کہ قدامت اناجیل کی سند کافی اور وافی ہے یہ شہادتیں عیسائی مصنفوں کی ہیں جو یہاں تک گزریں اب آئندہ دین کے مخالفوں کی شہادت ادا کی جاتی ہے۔ اکثر مخالفت دشمنان دین کے جسمانی طور پر رہے ۔ یعنی وہ عیسائیوں کو انواع طرح کا دکھ زحمت پہنچاتے رہے ۔ کبھی ان کو آگ میں جلا دیا اور بعض اوقات درندوں سے پھڑوایا کبھی قتل کو پہنچایا ۔تھوڑے ان میں سے تحریری مخالفت میں سرگرم رہے ان میں سے تین آدمی مشہور معروف رہے اور بڑے درجے میں دینوی عزت شان و شوکت علمیت میں مشہور اگر کسی قسم کا نقص اناجیل بہ نسبت قدر و معتبری و سچائی کے ان کی نظر پڑتا تو اس کے منتشر کرنے سے وہ کبھی درگزر نہ کرتے۔

پہلا ان کا جولین بادشاہ ہے۔ جو کلیسیا کی تواریخ میں جولین مرتد کر کے تعبیر ہوا کیونکہ یہ شخص اول عیسائی تھا اور تخت نشینی کے بعد دین عیسوی سے منکر ہو کر مرتد ہو گیا ۔یہ شخص ۴۳۱ ء سے ۴۶۳ ء تک معروف رہا۔ دین عیسوی کی تحریب اور اشتعال میں طرح طرح کی تدبیریں اور تجویزیں کرتا رہا اور اس کے خلاف میں بہت کچھ لکھا یہاں تک کہ مسیح کی الوہیت سے بھی انکاری ہوا لیکن اناجیل کی معتبری اور سچائی کی نسبت دم نہیں مارا اور تصدیق کرتا رہا ۔ان کی خاص خاص واقعات کے برخلاف میں اعتراضات درپیش کئے اور اس کا صاف قرار کیا کہ یہ سب وارداتیں متی ، مرقس ، لوقا اور یوحنا کی اور رسولوں کے اعمال سے ماخوذ ہیں جو کہ دین عیسوی کی جڑ اور بنیاد اور قدیم الایام سے معتبر مانی گئیں وہ عیسائیوں کو یوں خطاب کر رہا ہے کہ یہ کتب درمیان تمہارے ہمیشہ سے بے شک و شبہ مقبول رہیں۔

دوئم گواہی اور فوری کی ہے یہ مرد تیسری صدی کے آغاز یعنی ۲۳۳ ء عیسوی میں متولد ہوا شہر شور میں جو کہ سوریہ کا ایک مشہور شہر تھا پیدا ہوا ۔یہ شخص مختلف زبانوں سے واقفیت اور اپنے عہد میں اول درجہ کا شمار کیا جاتا تھا ۔علمیت اور دینوی عزت میں دین مسیحی سے پرلے درجے کی مخالفت رکھتا تھا ۔عہد عتیق کی کتابوں خصوصاً دانی ایل نبی کی نبوت پر اعتراضات لایا لیکن انجیل کی سچائی اور قدامت کی بابت اس نے شک بھی ظاہر نہ کیا بلکہ اس کے معجزات کی راستی اور صحت کا مقر (اقرار کرنے والا، تسلیم کرنے والا)ہوا ۔

تیسرا مشہور دشمن دین عیسوی کا سلسوس ہوا  یہ نامور حکیم تھا جو کہ دوسری صدی کے اواخر میں مشہور ہوا ۔دین عیسوی کی مخالفت میں ایک کتاب بنا کر نام  اس کا سچا کلام رکھا اور اس میں نہ صرف انجیلوں کا تذکرہ ہی کیا بلکہ ان کی خاص خاص وقوعات کا بیان تفصیل سے لکھا مثلاً مسیح کا کنواری مریم کے شکم سے پیدا ہونا۔ مجوسیوں کا پورب سے اس کے دیکھنے کو آنا۔ ہیرودیس کا بیت الحم کے اطفال(طفل کی جمع ، بچے) کو قتل کروانا ۔مسیح کا یوحنا کے ہاتھ سے بپتسمہ پانا ۔پہاڑ پر سے وعظ سنانا اور کرامات معجزے دکھلانا اور تمام وہ باتیں جو اس کی مصلوبیت کے ساتھ متعلق ہیں وہ اپنی اسی کتاب میں انجیلوں کی سچائی  اور معتبر کا پورا اقراری ہے ۔اگر اس میں اس کو کسی قسم کا شبہ گزرتا یا کسی محل میں نقص نظرا ٓپڑا ہوتا تو اس کے تذکرہ سے درگزر نہ کرتا عوام کو دکھلاتا واضح ہو کہ یہ رسولوں کے زمانہ سے بہت نزدیک ہوا اور اس کے اور ان کے زمانہ میں چنداں فرق نہ تھا اور اس کو موقعہ تحقیقات کا نہایت خوب ملا یہ چاروں اناجیل کو نام بنام لکھ کر مصدق ہوا اس کی شہادت سے یہ بات بخوبی ثابت ہوئی کہ انجیل دوسری صدی سے پہلے موجود تھی۔ یہ سلسلہ بیرونی دلائل کا انجیل کی سچائی اور معتبر کے حق میں واثق اور لائق اعتبار ہے ۔ہر ایک ایماندار اور محقق دین اور طالب یقین کو اس میں پوری تسلی ہے  یہ کسی صورت سے ٹوٹنے والا نہیں اس میں پہلی اور دوسری اور تیسری صدی کے علما کی شہادت کامل ہے جو کہ سلسلہ وار رسولوں کے عہد تک انجیلوں کا وجود اور ان کا خداوند یسوع مسیح کے حواریوں ہی سے مرتب اور مرقوم ہونا ثابت کرتا ہے کہ ( مرقس اور لوقا بھی حواری کہلائے ) علاوہ بریں عیسوی دین کے جو بڑے دشمن ہوئے اور انہیں جو کہ بڑی علمیت اور بڑی فضلیت رکھتے تھے تین صدی کے اندر یعنی جولین مرتد اور فوری اور سلسوس ان تینوں مشہور مخالفت دین کی گواہی اس امر میں نہایت واثق اور راسخ ہے کہ اس سے بڑھ کر گواہی ہونی ممکن نہیں ۔

اب ہم انجیل کی سچائی اور قدامت کے اندر ونی دلائل کی پیش گوئیوں کی طرف متوجہ ہوئے کیونکہ یہ امرا  ہم المہات اور مدار  علیہ ہی صرف بیرونی دلائل پر اس میں اکتفا مناسب نہیں ۔گو وہ دلائل قطعی اور کافی ہی ہوں اندرونی دلائل وہ ہیں جو اس کے اندر سے حاصل ہوں اور کسی بیرونی شہادت سے جو کسی آدمی  زاد یا کسی کتاب سے گزرتی ہو متعلق نہ ہو یہ دلائل ذاتی اس قسم کے ہیں کہ صرف عالم لوگ جو کہ اس کے مضامین اور زبان سے واقفیت رکھتے ہیں اس کی ماہیت کو  پہچانتے ہیں۔ لیکن جب کہ یہ اس دلائل کو ایک دفعہ پہچان لیا اور نظر میں کیا تو یہ ایسا ہی یقین پیدا کرے گا جیسا کہ بیرونی دلائل بلکہ اس سےزائد۔

اول انجیل کی زبان پر نظر کرنے چاہئے کہ یہ سب یونانی زبان میں مرقوم ہوئیں عبرانی الفاظ سے معمور جس طرح مسلمانوں کی فارسی کتابیں لغات عربی سے لبریز وہ یونانی کسی قدر سپٹواجنٹ کے ساتھ ملتی ہوئی ہے۔ لیکن ایسی یونانی جو کہ مسیح کے فوت سے سو (۱۰۰)برس پیچھے ویسی لکھنی ممکن نہ تھی۔ یہ ایک ایسی یونانی ہے جو صرف یہودی مصنف لکھ سکتے تھے۔ دوسری صدی کے آغاز میں تصنیف ہوئے نسخے ابھی تک موجود ہیں۔ ان کی یونانی انجیلوں کی یونانی کے ساتھ بالکل میل نہیں کھاتی اور مناسبت نہیں رکھتی اس بات سے صراحتاً (کھلم کھلا، واضح )ثابت ہوا کہ دوسری صدی کے پیشتر یہ کتابیں مرتب ہوئیں۔

دوسرا ان کتابوں کی عبارت پر غور کرو کہ تینوں اناجیل ( یعنی متی ، مرقس ، یوحنا ) کی عبارت بعینہ ایسی ہے جیسا ان پڑھ تربیت نایافتہ ماہی گیر ماج ستان آدمیوں کی قلم سے صادر ہو ۔ تیسری انجیل یعنی لوقا کی انجیل میں اگرچہ عبرانی محاورہ جابجا برتا گیا لیکن زیادہ حصہ اس کا خالص یونانی میں مرقوم ہوا جیسا ایک دانشمند حکیم یہودی لوقا جیسا مرقوم کرے ۔

تیسرا اندرونی شہادت اناجیل کی قدامت کی انہیں کے ان بیانات اور اشارات سے پائی گئی جو اس ملک کے مکانات اور لوگوں کے پولیٹکل حالات اور دینی اور دینوی رسومات وغیرہ سے متعلق ہیں ہر چہار اناجیل اسی قسم کے اشارات اور بیانات سے لبریز و  مالا مال ہیں اور کبھی ان بیانوں میں کسی قسم کا نقص و تفاوت (فاصلہ ، دوری ، فرق، جدائی)پایا نہیں گیا یاد رہے کہ مسیح کے فوت کے ۲۶ برس بعد یہودیوں کا ملک  برباد ہوا اور ان کی ہیکل بالکل مسمار ہو گئی اور یہود ی قوم تمام دنیا میں بکھر گئی اور ان کی ریت و رسم دینی اور دینوی بالکل بدل گئی۔ اگر کوئی آدمی ان وارداتوں کے سو(۱۰۰) برس بعد کتاب مرتب کرتا تو ان حالات کے بیانات میں کچھ نہ کچھ تفاوت ضرور پایا جاتا ۔لیکن انجیلوں میں کس طرح کا تفاوت نہیں پایا گیا بلکہ ہر ایک جزوبات اور ادنیٰ معاملات میں پوری موافقت پائی گئی جو سیفیس مورخ کی کتاب مسیح کے وقت کے حالات کے بیان میں ابھی تک موجود ہے اس کے بیانات اور اناجیل کے بیانات میں بالکل موافقت ہے ۔ فریسی اور صدوقیوں کی درمیانی ضدوکد اور سامری اور یہودیوں کی باہمی نفرت اور محصولیوں پر نظر حقارت اور ہیرودیس کے خاندان کے مختلف آدمیوں کا بیان اور یوحنا بپتسمہ دینے والے کی وفات کا قصہ وغیرہ احوال اس کا سب انجیلوں میں اسی طرح پایا گیا ہے جیسا کہ جو سیفیس مورخ کی کتاب میں ہے اور ممکن نہیں کہ مسیح کے سو (۱۰۰)برس گزرنے کے بعد کوئی ویسی کتاب راقم کرے کہ ان امورات سے کسی ایک میں بھی اختلاف و نقص نہ پایا جائے کیونکہ یہودیوں کا ملک اس عرصہ میں زیر و زبر ہو گیا اور اختلافات سے بھر گیا تھا اگر اس ملک کے گزشتہ حالات پر نظر کرو تو اس بات کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ دیکھو ۴۲۵ برس پہلے اس ملک پنجاب کا کیا احوال تھا اور ان دنوں کی ریت و رسم اور پھر لباس ، تربیت تعلیم دینی اور دینوی معلاملات میں کس قدر تفاوت تھا کہ گویا دفتر سے الٹ پلٹ ہوگیا اور اب آئندہ پچاس (۵۰)برس گزرے پیچھے قیاس کرو کہ کتنا اختلاف پیدا ہوگا یہاں تک کہ ممکن نہیں کہ کوئی ناخواندہ آدمی جیسے تین مصنف تینوں اناجیل کے تھے (جیسا کہ ان کی تصانیف سے ظاہر ہے )کوئی قصہ سکھوں کی علمداری کا مرقوم کرے اور ان کی ریت و رسم کے اشارات میں کہیں غلطی دیکھائے ، اناجیل کے قصص وغیرہ پر نظر کرنے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان کو مسیح کے ہم زمان آدمی نے جو یہودیوں کے ملک اور ریت و رسم سے بخوبی واقف تھا لکھا ہے ۔ چوتھی شہادت انجیل کی سچائی اور قدامت کی خود اس کے قصے اور مضامین سے عیاں ہو رہی ہے انجیل کا مضمون خداوند یسوع مسیح ہی اور اس کی زندگی کا حال اس کا چال چلن اس کے معجزے اور کرامات اور اس کی تعلیم اور گفتگو دینی اور دینوی مسئلہ پر بیان کرتی ہے کل قصہ مسیح کا ایسا عجیب و غریب ہے کہ اس کا نظیر دنیا میں کسی کی تواریخ میں نہیں ملتا وہ ایسا عجوبہ قصہ ہے کہ بے معانیہ اور بلا مشاہدہ کسی کے قیاس اور خیال میں نہیں آسکتا آدمی زاد صرف ایسا قصہ اپنے خیال سے بنا سکتا ہے کہ جو اس کی طبیعت کے ساتھ کچھ موافقت رکھتا ہو یا اس کا نظیر کہیں دیکھا سنا ہو لیکن مسیح کا قصہ جیسا کہ بیان ہوا انسان کے خیال سے باہر ہے اس کا چال چلن جیسا کہ انجیل میں مسطور ہوا ہے بے نقص و بلا عیب کہ آج کل کے لوگ بھی باوجود انیس سو(۱۹۰۰) برس کی ترقی کے اس کو آزما کر کسی قسم کی خرابی نہ نکال سکیں گے ۔مسیح کی زندگی کی حالت اور تعلیم اس کے ہم زمانوں سے پاکیزگی اور دانائی میں نہایت بڑھ کر ہے ۔ممکن نہیں کہ کوئی مصنف دوسری صدی کا اس کو اپنے خیال سے بنالائے اور غالب بھی ہے کہ تمام قصص ایسے لوگوں سے بیان ہوئے جنہوں نے مسیح کو خود آنکھ سے دیکھا اور اس کی تعلیم سے یہ اندرونی دلیل انجیل کی سچائی اور قدامت کی ویسی ہی کامل ہے ۔جیسے کہ بیرونی دلیل جس کا صدر میں مذکور ہوا اور دونوں مل کر ایک ایسا نسخہ دلائل کا بن جاتا ہے کہ دنیا میں کسی اور پرانی کتاب کی نسبت نہیں مل سکتا اگر کوئی آدمی اس کو منظور نہ کرے تو اس پر فرض اور لازم ہے کہ کل پرانے نسخوں اور کتابوں کی نسبت منشکی رہے ۔ فقط

Leave a Comment