جنابِ مسیح یا جنابِ محمد

Eastern View of Jerusalem

Jesus or Muhammad

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan June 05, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۵ جون ۱۸۸۴ء

حوالہ متن(استثنا ۱۸: ۱۵)

’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قائم کرئےگا تم اس کی طرف کان دھریو‘‘۔

اس کے علاوہ لکھا ہے ۔’’اور خداوند نے مجھے کہاکہ میں ان کے لیے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی قائم کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا وہ ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس سے مطالبہ کروں گا  لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات جو میں نے اس سے نہیں کہی میرے نام سے کہے یاجو اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے ‘‘(استثنا ۱۸: ۱۷۔۲۰)۔

یہ ایک مشہور نبوت توریت میں سے ہے جس کو بعض محمدی پڑھنے والے مقدس کلام کے اپنے نبی یعنی محمد صاحب کے حق میں گماں کرتے ہیں اس کا خیال ہے کہ  حضرت موسیٰ اس مقام میں بنی اسرائیل کوفرماتےہیں کہ خداوند تیرا خدا تیر ے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے یعنی بنی اسماعیل سے میری مانند ایک نبی قائم کرئےگا تم اس کی طرف کان دھریواور ان کی تقریر یہ ہے کہ پہلاالفاظ  ’’تیرے بھائیوں میں سے‘‘ جو کہ اس آیت میں ہے چار شخص کی نسبت منسوب ہوسکتا ہے ۔

اوّل۔ بنی اسماعیل کی نسبت کیونکہ حقیقت میں بنی اسماعیل بنی اسرائیل کے برادر تھے اور تورات کے دومقام میں بنی اسماعیل کو بنی اسرائیل کا برادر کہاگیا ہے (پیدائش ۱۶: ۱۲؛ ۲۵: ۱۸)۔

دوسرا۔ بنی اسرائیل کی نسبت ۔

تیسرا۔ بنی عیسو کی نسبت ۔

چوتھا  ۔بنی قطورہ۔

اوّل۔ یہ الفاظ بنی عیسو اور بنی قطورہ کی نسبت استعمال نہیں ہوسکتے کیونکہ بنی عیسو اور بنی قطورہ برکت کے مالک نہیں ہوئے اور بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل ان دونوں میں سے الفاظ مذکوراس مقام میں بنی اسرائیل کے حق میں وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو اکٹھا کرکے اور ان کی طرف مخاطب ہوکر ان کو فرماتے ہیں کہ اے بنی اسرائیلیوخدا وند تیر ا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قائم کرے گا یہاں سے صاف معلوم ہوا کہ تیرے بھائی سے غیر اسرائیلی جو کہ وہاں موجود نہ تھے مراد ہے بنی اسرائیل سے مراد نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ خود وہاں موجود تھے اور غیراسرائیلی اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔سوائے بنی اسماعیل کے اس واسطے ہم پورے یقین کے ساتھ مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اس موضع میں ہمارے نبی محمدصاحب کی بشارت دے رہے ہیں جو کہ بنی اسماعیل سے پیدا ہوئے اور جن کے منُہ میں بذریعہ وحی اپنا کلام والا اور جس نے جو کچھ خدانے اسے فرمایا وہ بنی اسرائیل سے کہا یہ تقریر میری سمجھ میں محض غلط ہے میں منظور کرتا ہوں کہ الفاظ’’ تیرے بھائیوں میں سے ‘‘چارگرو ہ حق میں یعنی بنی اسماعیل ،بنی اسرائیل ،بنی عیسواور قطورہ وارد ہوسکتا ہے اور میں یہ بھی منظور کرتا ہوں کہ یہ بیان بنی عیسو اور بنی قطورہ کی نسبت نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ روحانی برکت اور نبوت کے وارث نہیں ہونے لیکن یہ بات سچ نہیں ہے کہ اس واسطے کہ حضرت موسیٰ کل بنی اسرائیل کو اکٹھا کرکے ان کی طرف مخاطب ہوکر ان کو کہہ رہے ہیں کہ تیرے بھائیوں سے خداوند خدا ایک نبی قائم کرے گا الفاظ’’ تیرے بھائیوں میں سے‘‘ بنی اسرائیل کے حق میں وارد نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ وہاں حاضرشد ہ تھے ضرور ہے کہ یہ کسی غیر اسرائیلیوں کے حق میں سمجھا جائے جو حاضرین میں داخل نہ ہوں برخلاف اس کے اگر ہم استثنا کی عبارت غور سے پڑھیں ہمیشہ بنی اسرائیل کے حق میں وارد ہوا تو ہم کو بخوبی معلوم ہوگا کہ الفاظ ’’تیرے بھائیوں  میں سے یا اپنے بھائیوں میں سے اس ‘‘اس کتا ب میں عین اسی موقع میں اسی کتا ب میں سارے بنی اسرائیل کو اکٹھا کرکے ان کی طرف مخاطب ہوکر حضرت موسیٰ یوں فرماتا ہے (استثنا۱۵: ۱۷)۔’’اگر تمہارے بیچ تمہارے بھائیوں میں سے تیری سرحد میں تیری اس سر زمین پر جسے خداوند تیرا خدا دیتا ہے کوئی مفلس ہو تو اس سے سخت دلی مت کیجیئے اور اپنے مفلس بھائی کی طرف سے اپنا ہاتھ مت کھینچ لینا ‘‘یہاں سے صاف  معلوم ہوا کہ تمہارے بھائیوں میں سے بنی اسرائیل مردا ہیں نہ کہ غیراسرائیلی۔(استثنا۱۷: ۱۲، ۱۵) جب تو اس زمین میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے داخل ہواور اس پر قابض ہوتو تو اس کو اپنا بادشاہ بنانا جسے خداوند تیرا خدا پسند فرمائے تو اپنے بھائیوں میں سے ایک کو اپنا بادشاہ بنانااور کسی اجنبی کو جو تیرا بھائی نہیں اپنا بادشاہ نہ کر سکے گا ۔ہمارے محمدی بھائی کی تقریر کے بموجب لازم آیا کہ الفاظ ’’اپنے بھائیوں میں سے‘‘ اس مقام میں غیر اسرائیلیوں سے مراد ہواور حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو فرمارہا ہے کہ جب تو کنعان کے ملک پر قابض ہوتو اپنے میں سے نہیں بلکہ بنی اسماعیل میں سے کسی کو بلاکر اپنے اوپر بادشاہ بنانا۔(استثنا ۲۴: ۱۴) تو اپنے غریب اور محتاج چاکر پر ظلم نہ کرنا خواہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہو خواہ مسافر ہوجو تیری زمین پر تیرے پھاٹکوں کے اندر رہتا ہو یہاں سے صاف ظاہر ہی کہ تیرے بھائیوں میں سے غیر اسرائیلی مراد نہیں بلکہ بنی اسرائیل مراد ہیں ۔علی ہذا القیاس اتنی نئی نظیر (مثل)کافی سمجھتا   ہوں  بے تعصب پڑھنے والوں کو اس سے واضح ہوگا کہ حضرت موسیٰ اس آیت میں غیر اسرائیلی نبی پر اشارہ نہیں کرتا بلکہ ایسے کسی پر جو بنی اسرائیل میں سے ہو۔استثنا کے محاورہ کے بموحید یہی نتیجہ نکلتا ہے اور دوسرا نتیجہ نہیں ۔

نبوت یادینی برکت بنی اسماعیل پر وعدہ نہیں ہے

دوئم ۔میرا یہ قیاس کے الفاظ ’’تیرے بھائیوں میں سے ‘‘یا ان کے بھائیوں میں سے کسی غیر اسرائیلی کے حق میں وارد نہیں ہے بلکہ ضرور کسی ایسے اشخاص سے مراد ہے جو بنی اسرائیل میں سے ہوں زیادہ صفائی سے معلوم ہوگا اگر ناظرین غور سے (اٹھارہ’’۱۸‘‘باب استثنا) کاتمام وکمال مطالعہ کریں خصوصاً نویں آیت سے آخیر تک ان کو معلوم ہوجائے گا جس نبوت کی نسبت بحث ہو رہی ہے یہ نبوت اس وقت میں کہی گئی تھی جب کہ موسیٰ کو خدا کی طرف سے پیغام آیا کہ تم یردن کے پار نہیں جاؤگے بلکہ اس کی پورب کی طرف مرجاؤگے اور بعد تمہاری موت کے یوشع بن نون(یشوع بن نون) بنی اسرائیل کا سردار ہوکر ان کو ملک موعود پر قابض کرے گا حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کی بہتری کے لیے فکر مند ہوکر ان کو اکٹھا کرکے ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ جب تو اس سرزمین میں جو خداوند تیرا خدا دیتا ہے داخل ہوتو تووہاں کی گروہوں کے کریہ کار مت سیکھیو تم میں کوئی ایسا نہ ہو کہ  اپنی بیٹی یا اپنے بیٹے کو آگ میں گزارے یاغیب کی بات بتائے یا برائی بھلائی کا شگونیہ یاجادوگربنے اور افسوں گر نہ ہو ان دیوؤں سے مسخر ہوتے ہیں سوال کرنے والا اور ساحر اور سیانہ نہ ہو کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں خداوند ان سے کراہیت کرتا ہے اور ایسی کراہیتوں کے باعث سے ان کو خداوند تیرا خدا تیرے آگے سے دور کرتا ہے تو خداوند اپنے خدا کے آگے کامل ہو کیونکہ وہ گروہیں جن کو تو اپنے آگے سے ہانکتا ہے غیب گوہوں اور شگونیوں کی طرف کان دھرتے ہیں پر تو جو ہے خدا وند تیرے خدا نے تجھ کو اجازت نہیں دی کہ ایسا کرے ’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قائم کرے گا ‘‘تم اس کی طرف کان دھریوانی اخرہ(آخر) اس پوری آیت کے پڑھنے سے ظاہر ہےکہ حضرت موسیٰ اس مقام میں اس سلسلہ انبیاء پر جو خدا بنی اسرائیل کے درمیان بعد اس کی موت کے قائم کرئے گا اشارہ کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ جب تم کنعان کے ملک میں جاؤ تب اس ملک کے نہ ان کے دیوؤں نہ ساحر اور سیانہ سے سوال کرو،بلکہ خدا کے نبیوں سے اپنی ہدائت اور تعلیم کے لیے پوچھو کیونکہ خداوند تمہارا خدا تمہارے لیے تمہارے درمیان سے تمہارے بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی قائم کرے گا تم اس کی طرف کان دھریو یہاں اس سلسلہ انبیاء سے مراد ہے جویشوع سے شروع کرکے خداوند یسوع مسیح میں جو سارے نبیوں کا نمونہ اور سر ہے ختم ہوا۔ اس واسطے پطرس رسول اور استفنس شہید خاص کر کے مسیح پر اشارہ کرکے کہتے ہیں یہ وہی نبی ہے جس کی بابت موسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لیے ایک نبی ظاہر کرے گا تم اس کی سننا۔بنی اسرائیل  موسیٰ کی موت کی خبر سن کر گھبرا گئے تھے حضرت موسیٰ ان کی تسلی کرتا ہے اور کہتا ہے تم مت گھبرانا میں تو مرچلا ہوں لیکن خداوند تمہارا خدا تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لیے ایک نبی قائم کرئے گا وہ تم کو ہدائت کرئے گا تم اس کی سننا ۔بنی اسرائیل پر خطرہ تھا کہ ملک کنعان میں اگر بت پرستوں کے دیواور غیب دانوں میں جاکراپنی چال چلن کی بابت صلاح اور ہدایت پوچھے حضرت موسیٰ ان کو اس مقام میں اس خطرہ سے متنبہ کررہا ہے اور فرماتا ہے کہ تم کبھی ایسا مت کریوتم بُت پرستوں کے دیوؤں اور غیب گویوں کے پاس مت جانا خداوند تمہارا خدا تمہارے بھائیوں میں تمہارے لیے میری مانند ایک نبی قائم کرے گا تم اس کی سننا ۔میں حیران ہوں کہ کس طرح سے اس باب کے باب کے پڑھنے والے اس نبوت کو محمد صاحب پر جو کہ دوہزار برس پیچھے اور ایک غیر ملک میں پیدا ہوا وارد کرتے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اگر اس نبوت کے فرمان پر غور کریں اور اس کا آگا پیچھا اچھی طرح دیکھ بھال لیں تو فوراً محمدصاحب کا خواب وخیال دل سے دور ہوجائے گا۔

سوئم۔ مجھ کو خدا کے کلام سے خاص کر تو ریت پر غور کرنے سے صاف معلوم دیتا ہے کہ نبوت یادینی برکت بنی اسماعیل پر وعدہ نہیں ہے اس لیے بنی اسماعیل کے درمیان کسی نبی کی تلاش کرنا لاحاصل ہے یہ بات یوں ثابت ہوتی ہے (پیدائش  ۱۷: ۱۔۸) جب ابرام نناویں (۹۹) برس کا ہوا تب خداوند ابرام کو نظر آیا اور اس سے کہا کہ ’’میں خدائے قادر ہوں تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد کرتا ہوں کہ میں تجھے نہایت بڑھا ؤں گا تب ابرام منہ کے بل گرااور خدااس سے ہم کلام ہوکر بولا کہ دیکھ میں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ تو بہت قوموں کاباپ ہوگا اور تیرا نام پھر ابی رام (ابرام ) نہ رہے گا بلکہ تیرانام ابی رہام (ابرہام )ہوا کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرایا اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کی پشت درپشت کے لیے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہوکرتا ہوں میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کے لیے مالک ہواور میں ان کا خدا ہوں گا ‘‘پھر دیکھو( پیدائش ۱۷: ۱۵۔۲۰) اور خدانے ابرہام سے کہا کہ تو اپنی جو رو کو سری(ساری)مت کہہ بلکہ اس کانام ’’سارہ ‘‘ہے  میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا میں اسے برکت دوں گا کہ وو قوموں  کی ماں ہوگی اور ملکوں کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے ۔تب ابرہام منہ کے بل گرا اور ہنس کے دل میں کہا کہ کیا سو(۱۰۰) برس کے مرد کو بیٹا پیدا ہوگا اور کیا سارہ جو نوئے (۹۰) برس کی ہے جنےگی (پیدا کرنا) اور ابرہا م نے خدا سے کہا کہ کاش اسمعیل تیرے حضور جیتا رہے تب خدانے کہا کہ بے شک تیری جوروسارہ تیرے لیے ایک بیٹا جنے گی   تو اس کانام اضحاق رکھنا اور میں اس سے اور بعد اس کے اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے کروں گا اور اسمعیل کے حق میں میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قو م بناؤں گا لیکن میں اضحاق سے جس کو سارہ دوسرے سال جنے گی اپنا عہد کروں گا پھر (پیدائش ۲۱: ۱۲۔۱۳) ’’خدا نے ابرہام سے کہا کہ وہ بات جو سار ہ نے اس لڑکے اور تیری لونڈی کی بابت کہی تیری بڑی نظر میں بُری نہ معلوم ہوسب کچھ جو سارہ نے تجھے کہامان کیونکہ تیری نسل اضحاق سے کہلائے گی اور اس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا کیونکہ وہ تیری نسل ہے ۔خدا نے کہا کہ اے ہاجرہ اُٹھ اور لڑکے کو اُٹھا کراپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا‘‘ ۔

ان آیتوں کو بغور پڑھنے سے یہ اموربخوبی دریافت ہوجائیں گے ۔

اوّل۔ یہ کہ جب ابرہام  نناویں (۹۹) برس کا تھا خدانے اس کے ساتھ عہد باندھا جو ہمیشہ کا عہد ہو اور جس کا ایک جزو یہ تھا کہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہوں گا اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ اس کے  مالک ہو   اور میں ان کا خداہوں گا ۔

دوسرا ۔کہ ابرہام کے دو بیٹے پیدا ہوئے ایک اسمعیل ہاجرہ لونڈی سے اور دوسرا اضحاق اس کی بی بی سارہ سے ۔

تیسرا۔ عہد خدانے جوابرہام کے ساتھ کیا تھا اضحاق اور اس کی نسل میں قائم کیا اس واسطے پولُس رسول رومیوں کے خط میں یوں لکھتا ہے ’’وہ اسرائیلی ہیں اور لے پالک ہونے کا حق اور جلال اور عہود اور شریعت اور عبادت اور وعدے ان ہی کے ہیں ۔اور قوم کے بزرگ ان ہی کے ہیں اور جسم کے رو سے مسیح بھی ان ہی میں سے ہوا جو سب کے اوپر اور ابدتک خدایِ محمود ہے ،آمین(رومیوں ۹: ۴۔۵) ۔یعنی وہ ہمیشہ کا عہد کہ میں تیرااور بعد تیرے تیری نسل کے ساتھ پشت درپشت کرتا ہوں کہ میں ان کا خداہوں گا اور وہ میرے لوگ ہوں گے یہ عہد ابراہیمی خدانے اضحاق کی نسل میں قائم کیا اور فرمایا کہ اس میں اسماعیل شریک نہیں ہوگا ۔

چوتھا ۔اسماعیل کو بھی خدانے برکت دی اور وعدہ کیا کہ اسے بھی میں بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا خدا نے اسماعیل کے حق میں صرف دنیا وی برکت کا وعدہ کیا اور فرمایا کہ دینی برکتیں خاص اضحاق کی نسل کے لیے ہیں اس لیے میری نظر میں کسی قسم کی دینی برکتوں کی یعنی خدا کا کلام یا نبوت کی تلاش بنی اسمعیل کے درمیان کرنا لاحاصل ہے خدا نے اپنے کلام میں صاف فرمادیا کہ یہ نعمتیں ان کو نہ ملیں گی ۔میں امید کرتا ہوں کہ میرے محمدی بھائی جن کو سچے دین کی تلاش ہے ان باتوں کو جو کہ میں ان کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں غور سے مطالعہ کریں گے ۔

Leave a Comment