مرتد کی توبہ قبول ہے

Eastern View of Jerusalem

Is Apostate Repentance Acceptable in Islam?

By

Mula Baksh Kanpuri

مولا بخش کانپوری

Published in Nur-i-Afshan August 11, 1887

نور افشاںمطبوعہ ۱۱۔اگست ۱۸۸۷ء

پادری  نیوٹن صاحب ۔ آپ کے اخبار نوافشاں نمبر ۲۸ جلد ۱۵مطبوعہ ۱۴ جولائی ۱۸۸۷؁ کے پہلے صفحہ میں ایک مضمون جس کا عنوان حنفی مسلمان ہے دیکھا چونکہ اس میں راقم مضمون دوسوالوں کا جواب طلب کرتا ہے اور آپ کے درج اخبار کرتے سے بھی یہی غرض معلوم ہوتی ہے ۔ لہٰذا میں اس کا جواب آپ کے پاس بھیجتا ہوں اگر چہ حق طلبی اس امر کو واجب کرتی ہے کہ جس طرح آپ نے اُن سوالوں کو مشتہر(مشہور کرنے والا) کیا ہے اس طرح اُن کے جوابوں کو بھی شائع کریں مگر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ میرے جواب کو طبع کریں  گے تو میں یہ دل سے آپ کو ممنون ہوگا ۔

وہوندا

(۱)قولہ حنفی مسلمانوں کے نزدیک اور اُن کی فقہ کی کتابوں کے رو سے جو شخص حضرت محمد کا انکار کرے وہ مرتد ہے ۔ اگر وہ پھر اپنے قصور سے اور اس گناہ کبیرہ سے توبہ کرے تو اس کی تو بہ منظور نہیں ہو سکتی ۔

اُس کی توبہ سے یہ سزا معاف نہیں ہوسکتی

 جواب۔ یہ محض غلط اور حنفیوں پر اتہام(الزام ) ہے حنفی ہرگز ایسا نہیں کہتے اُن کی فقہ کی کتابوں میں صاف لکھا ہے کل مسلم ارتد ختوتبہ مقبولہ ( تنویر الابصار ) یعنی جو مسلمان مرتد ہو جائے اُس کی توبہ مقبول ہے اور علامہ شامی لکھتے ہیں۔ ان مذہب الحنفیہ قبول التوبہ بلاحکایتہ جس قول آخر عنہم یعنی مذہب الحنفیہ کا بلا شبہ یہی ہے کہ مرتد کی تو بہ قبول ہوتی ہے جو اُس کے مخالف کوئی قول اُن سے منقول نہیں ہے ۔ اب میں راقم مضمون سے دریافت کرتا ہوں کہ کیا متقضائے دیانت یہی ہے کہ دوسرے مذہب پر تہمت لگائی جائے اور اصلی بات کی تحقیق نہ کی جائے ۔

(۲)شاید راقم مضمون نے کسی سے یہ سُن لیا ہوگا کہ اگر کوئی شخص کسی نبی کو گالی دے تو اس کی تو بہ قبول نہیں ہوتی اس پر یہ مضمون لکھ یا اُنہیں چاہیے تھا کہ پہلے تحقیق کر لیتے کہ اس کا مطلب کیا ہے اور یہ قو ل معتبر ہے یا نہیں۔ خیر اب ملا حظہ کریں  اول تو یہ قول ہے خلاف تحقیق صرف بعض کا مقولہ ہے ۔چنانچہ دُر مختار کی شرح میں علامہ شامی نے مفصل بیان کیا ہے ۔ اور علامہ حام نے جلبی سے نقل کیا ہے ۔قدتبتعناکتب الحنفیہ قلم بخدالقول لعدم قبول توبہ الساب عندھم سوئےمافیالبزازیتہوقدعلمتبطلانہ  انتہی ۔ یعنی ہم نے کتب حنفیہ میں بخوبی تلاش کیا مگر ہم نے یہ قول نہ پایا کہ نبی کے گالی دینے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی بجز(مگر) اُس قول کے جو بزازیہ(پارچہ فروش،کپڑے بیچنے) میں ہے اور اُس قول کا باطل ہونا تو دریافت کرف چکا ہے ۔بزازیہ ایک کتاب کا نام ہے علامہ حسام اُس کے قول کو رد کرکے لکھتے ہیں کہ میں نے یہ قول کسی حنفی کی کتاب میں نہیں پایا ۔بجز کتاب بزاز یہ کے اور بزازیہ کے قول کا بطلان ہم ظاہرکر چکے ہیں ۔ غرض یہ کہ یہ بات معلوم ہوئی کہ گالی دینے والےکی توبہ کاقبول نہ ہونا خلاف تحقیق بعض کا مقولہ ہے جس کو خود حنفیہ نے باطل ٹھہرایا ہے۔

(۳) اب یہ بھی دریافت کرلینا چاہئے کہ تو بہ قبول نہ ہونے سے ان بعض کا کیا مطلب ہے اُن کی غرض یہ ہے کہ جو کوئی کسی نبی کو گالی دے اُس کی سزا یہ ہے کہ مار ڈالا جائے اب اگر چہ و ہ تو بہ کرے مگر یہ سزا اُسے ضرور[1] دی جائے گی ۔اُس کی توبہ سے یہ سزا معاف نہیں ہوسکتی اُس کا حاصل یہ ہوا کہ دنیاوی سزا کے بارے میں اُس کی توبہ کو کچھ اثر نہیں ہے ۔باقی رہا یہ امر کو تو بہ کرنے سے وہ مسلمان نہ ہوگا یا اللہ کے یہاں اُس کی بخشش نہ ہوگی یہ مطلب اُس قائل کا ہر گز یہ نہیں ہوتا ۔

 (۴) اس پاک مذہب اسلام میں ہر وقت ہر شخص کے لئے تو بہ کا دروازہ کھُلا ہے یہ وہ سچا مذہب ہے جس میں اُس ارحم الرحمین کی صاف یہ بشارت ہے ۔ اے میرے بندو جنہوں نے زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوبے شک اللہ تمام گناہ بخشتا ہے بلا شبہ وہ بڑ ابخشنے والا ہےمہربان ہے (سورہ زمرع۲) جب و ہ جو رحیم و کریم اپنے کلام پاک میں تمام گناہ بخشنے کی بشارت دیتا ہے تو جس وقت مرتد اور انبیا کا گالی دینے والا اپنے گناہ سے توبہ کرے تو وہ کیوں کر اس بشارت سے محروم رہ سکتا ہے ۔

(۵) خیال کرنے کا مُقام ہے کہ بانی اسلام نے ان لوگوں کو بھی صاف مسلمان ہونے کی بشارت دی جنہوں نے اس ذات عالی صفات حضرت خاتم النبین محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آ پ  کےکمالات صور یٰ اور معنی اور معجزات باہر ا کا معائنہ کیا اور پھر بھی بُرا کہنے کے علاوہ برسوں زبان سے ہاتھ سے اور جس طرح ہو سکا تکلیف دی اور کوئی دقیقہ ایذارسائی میں اُٹھا نہیں رکھا۔ اُن کی نسبت سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے ۔ اگر وہ توبہ کریں اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دنیے کا اقرار کریں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ اب فرمائیے کہ جب ایسے بُرا کہنے اور ایذادینے والو ں کی تو بہ قبول ہو سکتی تھی اور وہ مسلمانوں کے بھائی ہو سکتے تھے ۔ اگر اس زمانہ میں کوئی ایسا فعل کر کے تو بہ کرے تو کیوں قبول نہ ہو گی۔ بے شک قبول ہوگی بشرطیکہ دلی تو بہ ہو ۔ العزض قرآن مجید اور فقہ کی کتابوں سے بخوبی ثابت ہے کہ مرتد کی توبہ قبول ہوتی ہے ۔

(۶)قولہ ۔ اب حنفی صاحبان میرے ان سوالوں کا جواب مہربانی سے عنایت فرمائیں ۔

 (۱) کیا اگر عیسائی حضرت محمد کو بُرا کہیں تو وہ مرتد نہیں ۔

 (۲) اگر وہ مرتد ہے تو پھر کس طرح محمد ی ہو سکتا ہے ۔

جواب پہلے سوال کا

عیسائی تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ کہ ابتداسے عیسائی ہیں ۔ دوسرے وہ کہ مذہب اسلام کے سوا کوئی اور مذہب چھوڑ کے عیسائی ہوگئے ہیں۔اُن دونوں قسم کے عیسائی مسلمانوں کے نزدیک مرتد نہیں کہلاتے تیسرے وہ جو مذہب اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہوگئے ہیں یہ لوگ بے شک مرتد ہیں ۔ چنانچہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مرتد وہ ہے جو دین اسلام سے پھر نے والا ہو (تنویر ) یعنی پہلے وہ مسلمان ہوا اور پھر دوسرا دین اختیار کر لے غرض یہ کہ کل عیسائی مرتد نہیں کہلا تے البتہ جو اسلام چھوڑ کر عیسائی ہوئے ہیں وہ مرتد ہیں ۔

جواب دوسرے سوال کا

وہ مرتد جس وقت تثلیث پر ستی سے نائب ہوئے اور اُس علام العیوب کے رو بر و اپنے کئے پر پچھتا ئے اورحضرت محمد مصطفے ﷺ کو سچا رسول جانے اور اُس وقت محمدی ہو جائے گا اور حیات ابدی پائے گا الغرض ان سوالوں سے راقم مضمون کا دلی مدعاحاصل نہیں ہوتا مرتد اور غیر مرتد سب کے سب ہروقت دین اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں اور بلاشبہ اُن کی تو بہ قبول ہوتی ہے ۔

(۷)راقم مضمون نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں دو مثالیں پیش کی تھیں اُن میں سے ایک کی غلطی تو دوسرے ہے پر  نورافشاں میں تسلیم کر لے گی چنانچہ اخبار مذکور کے( نمبر ۶۹مطبوعہ ۲۱ جولائی ) کے صفحہ ۲کا لم اول ہے ۔ ’’حنفی مسلمان کے عنوان سے جو مضمون گذشتہ ہفتہ شائع ہوا س میں ایک سخت غلطی ہو گئی ۔ لکھا گیا کہ مولوی نظیر حسین نے تو بہ قبول نہیں کی اس کے بر خلاف یوں پڑھنا چاہئے مولوی نظیر حسین نے کہا تھا کہ اُ س کی تو بہ قبول ہو سکتی ہے پر ہند وستان کے باقی علما کہتے تھے کہ حنفی کے نزدیک مرتد کی تو بہ قبول نہیں ہو سکتی ‘‘ ۔ اگر چہ اس میں اخیر کا جملہ سراسر غلط ہے ۔ مگرا یک مثال کی غلطی تو پادر ی صاحب نے خود تسلیم کر لی اب رہی دوسری مثال اُس کو بھی اسی پر قیاس کر نا چاہئے کیونکہ راقم مضمون نے کسی کتاب کا حوالہ نہیں دیا ۔علاوہ اس کے اُس کا مضمون خود اُس کی غلطی کا شاہدہے ۔ کیونکہ مذہب اسلام میں ہر گز ہر گزیہ بات نہیں ہے کہ جو رو کے گناہ میں خاوند پکڑ ا جائے اور بعد  تو بہ بھی اُس کی بخشش نہ ہو قرآن مجید میں صاف ارشاد ہو ا ہے کہ ہر ایک دوسرے کا بوجھ اُٹھائے گا (انعام آیت ۱۲۴) اور متعد د مقامات پر آیا ہے جس نے تو بہ کی اور ایمان لایا اُس  کے حال پراللہ مہربانی کرتا ہے اور اُسے بخش دیتا ہے (دیکھو مریم ع ۴ ۔طہ ع ۱۳۔فرقان ع۴ وغیرہ ) یہاں تک مسائل کے سوالوں کا جواب تو ختم ہو لیا ۔ اب میں بھی کچھ دریافت کیا چاہتا ہوں اُس کا جواب عنایت ہو۔

 (۸) حضر ت پولوس نامہ (عبرانیوں ۱۰: ۲۶۔۲۷ ) میں فرماتے ہیں ۔ ’’اگر بعد اُس کہ ہم نے سچائی کی پہچن کی ہے جان بوجھ کے گناہ کریں تو پھر گناہ ہو نے کے لئے  کوئی قربانی باقی نہیں مگر عدالت کا ایک ہولناک انتظار اور آتشی غضب جو مخالفوں کو کھا لے گا باقی  ہے‘‘ ۔ اوسی مضمون نامہ مذکور کے (عبرانیوں ۶: ۴۔۶) میں ہے جہاں صاف ظاہر ہو گیا کہ بعد بپتسمہ پانے کے جو کوئی مرتد ہو جائے یا اور کوئی گناہ کرے اُس کی نجات غیر ممکن ہے اگر چہ و ہ کیسی ہی تو بہ کیو ں نہ  کر ے اب دریافت کیا جاتا ہےکہ۔

(۱) کیا بعد بپتسمہ پانے کے عیسائی کل گناہوں سے معصوم ہو جا تے ہیں اور پھر کوئی گناہ اُن  سے سرزد نہیں ہوتا ۔(۲)اگر معصوم نہیں ہوتے تو ان کی نجات کی کوئی سبیل معلوم نہیں ہوتی فقط


[1]۔ اس کو اس طرح خیال کرنا چاہئے جیسے بھائیوں کی قدیم کلیسیا میں بعد بپتسمہ پانے  کے جو کوئی گناہ کرتا تھا وہ ہمیشہ کے لئے کلیسیا سے نکال دیا جاتا تھا چنانچہ بشپ گلبرٹ اُنتالیس(۳۹) آرٹیکل کے سولہویں آرٹیکل میں لکھتے  ہیں ’’ قدیم کلیسیا میں  وہ لوگ جو بعد بپتسمہ پانے کے گناہ کرتے تھے چرچ کے سلسلہ سے خارج کئے جاتے تھے اور گو خد ا کے رحم کی جانب سے وہ باکل مایوس نہ کئے جاتے ہوں مگر تاہم چرچ کے امن سے ہمیشہ کے لئے دور کر دیئے جاتے تھے ۔ پس جس طرح ان کلیسیا نے خارج کرنے کی سز ا قطعی ٹھہرا دی تھی اسی طرح بعض فقہ نے بھی اسے مار ڈالنا اُس کی سزا تجویز کی تھی اس کےعلاوہ سمجھانے کے لئے میں ایک دوسری نظیر پیش کرتا ہوں یہ کہ جس وقت کلکٹر صاحب کے روبرو مثلاً چوری کا جرم ثابت ہوجانے دومجرم اگرچہ کیا ہی توبہ کا اظہار کرے مگر سزاقانونی اس کے لیے مقرر ہے وہ ضرور دی جائے گی کلکٹر صاحب اس کی توبہ کو ہرگز نہ دیکھیں گے اور یہی متقضائے انصاف ہے ۔مولابخش حنفی

Leave a Comment