سورہ بقرہ

Eastern View of Jerusalem

Sura Buqra Verse-66

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Feb 27, 1890

نورافشاں مطبوعہ۲۷فروری۱۸۹۰ء

قرآن سورہ بقرہ   کی ۶۶ آیت سے یوں معلوم ہوتا ہے ’’اور جب  کہا موسی نے اپنی قوم کو اللہ فرماتا ہے کہ تم کو ذبح  کر و ایک گائے ‘‘ اور بنی اسرائیل نے موسیٰ سے اُس گائے کی کیفیت استفسار(پوچھنا، دریافت کرنا) کی  تو بقول  قرآن موسی ٰ  نے کہا کہ وہ دیکھنے والوں کو خوش آتی ہے ۔ ’’بدن سے پوری ہو‘‘۔ ’’  اُس میں کچھ داغ نہیں ‘‘ وغیرہ ۔جو اس بیان کو مُفصل معلوم کرنا چاہے سورہ بقرہ ۶۶ سے ۷۰ آیت تک پڑھ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے  کہ یہ مصنف قرآن نے توریت کی نقل کی ہے اور حسب ِعادت کمی پیشی کر کے اپنے کومُلہم (جس کوالہام ہو)ثابت  کرنے کی  کوشش کی ہے۔ توریت میں گنتی  کی  کتاب کے ۱۹ باب میں یہ بیان یوں پہلے سے موجود تھا کہ’’ اورپھر خداوند نے موسیٰ اور ہارون سےکہا۔۔۔ کہ توبنی اسرائیل کو کہہ کہ وہ تیرے پاس ایک بے داغ اور بے عیب سرخ رنگ کی بچھیا  لائیں جس پر کبھی جو ا نہ رکھا گیا ہو۔اور  تم اسے لے کر الیعزر کاہن کو دینا کہ وہ اس لشکر گاہ کے باہر لےجائے اور کوئی اسے اسی کے سامنے ذبح کر دے ۔اور لیعزر کاہن انگلی پر اُس کا کچھ خون لے کراسے خیمہ اجتماع کے آگے کی طرف سات بار چھڑکے۔ پھر اُس کی آنکھوں کے سامنے وہ گائے جلادے ۔پھر کاہن وہاں دیوردار کی لکڑی اور زوفا اور سرخ کپڑا لے کر اُس آگ میں جس میں گائے جلتی ہوئی ڈال دے ۔تب کاہن اپنے کپڑے دھوئے  اور پانی سے غسل کرے۔ اُس کے بعد وہ لشکر گاہ کے اندر آئے۔ پھر بھی کاہن شام تک ناپاک رہے گا۔اور جو اُس گائے کو جلائےوہ بھی اپنے کپڑے پانی سے دھوئے اور پانی سے غسل کرے اور وہ بھی شامتک ناپاک رہے گا۔اورکوئی پاک شخص  اُس گائے کی راکھ کو بٹورے اور اسے لشکرگاہ کے باہر کسی پاک جگہ میں دھر دے۔ یہ بنی اسرائیل  کی جماعت کے لئے ناپاکی دور کرنے کے پانی کے لئے رکھی رہے کیونکہ یہ خطا کی قربانی ہے‘‘۔گنتی ۱۹ باب ۱ تا ۹آیات  تک یہ تمام احوال مسیح کی قربانی سے متعلق ہے ۔جو بے داغ او ر بے عیب ہو کر گنہگاروں کے عیوض (بدلے میں)ذبح کیا گیا۔لیکن یہ مطلب عمیق (گہرا مفہوم)مصنف ِقرآن کے خیال میں نہ آیا۔اور اُس کو نقل کرنے میں اُس کے خاص معنی و مطلب سے بے بہرہ :۔معلوم نہیں کہ اُس نے عمداً (سمجھ بوجھ کر)یا سہواً(غلطی سے) ایسا کیا ۔لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں  کہ اُس نے جانا کہ اگر توریت کے بیان  میں کچھ نئی بات اپنی طرف سے نہ ملا دے تو لوگ اُ س پر سرقہ کا گمان کریں گے  ۔توریت میں اُس  احوال کا علامتی مضمون پُر مطلب ہے ۔لیکن قرآن میں اُسکی  نقل خالی از مطلب ہے ۔

Leave a Comment