ہم کیا ہیں؟

Eastern View of Jerusalem

What are we?

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan August 16, 1895

نور افشاں مطبوعہ۱۶ٍاگست ۱۸۹۵ ء

 ہم نے کبھی  اپنی حالت  پر غور نہ کیا  کہ ’’ ورنہ ہم ضرور  اپنی خود  ہی تعریف  کر لیتے۔حالانکہ    خالق ِاکبر  نے ہم کو اشرف  المخلوقات کا رتبہ  عطا کیا۔ اگر ہم اپنی  اُن  آزمایشی   حالتوں  پر جو ہم کو اس پر زال دہر(مدت العمر)کی گود میں  واقع ہوتی ہیں ۔ نظر تعمق (گہرائی کی نظر) سے دیکھیں  تو فی الوقع  ہم اُن  پاک فرشتوں  سے جو ’’  رب الافواج  ‘‘   کے گرد قُدوس  ’’ قُدوس  ‘‘ پکارتے  ہیں قابلِ ترجیح  ہیں۔ اگر وہ بھی مثل ہمارے  اس پُر خطر  میدانِ  آزمائش   میں آنکلتے  تو یقیناً ہم  سے فوقیت(برتری۔سبقت)  نہ لے جاتے ۔مگر  یہ ترجیح  انہی  کو ہوسکتی  ہے۔ جو اس دُنیا  ناپائیدار  کی بے ثباتی  پر قانع(قناعت کرنے والے)  ہیں۔ اور بہر  نوع (انسان)اپنے دامن کو لوتِ عصیاں (گناہ)سے بچا  سکتے ہیں۔

’’ ہم  کیا ہیں ‘‘ اس سوال  کو اگر ہم قائم  کر کے معتقدان  نیچر(اعتقاد رکھنے والے) یا ہمہ اوست(صوفيوں کا قول ہے کہ خُدا کے سوا کسی شے کا وجود نہيں۔جو کہتے ہيں سب کچھ خُدا ہے) والوں  سے یا اُن  فلاسفروں  (دانش وروں۔علمِ فلسفہ کے جاننے والے)سے جن کی دماغی  قوت پر محض  فلاسفی  ہی مسلط  (قابض)ہے پوچھیں  تو وہ ہم کو  سید ھی  رفتار  سے ٹھوکر  دے کر  بہکا دیں۔ مگر ہم تو مختصر  حالت  ِموجود ہ  پر عرض  کرتے ہیں  نہ کہ اُس  قضیہ (بحث۔تکرار) کہ جو متخاصمین  (باہم مخالف۔فريقين)میں ایک عرصہ  سے قائم  ہے چکائے بیٹھے  ہیں۔

ہم صرف اس پر اکتفا (اتفاق) کرتے ہیں کہ ہم  خُدا  عزوجل(خُدائے تعالیٰ کی صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے)  کے جلال  ظاہر کرنے والے  ہیں ہم اس کی صنعت  ہیں۔ ہم اسی کے  مظہرِِ(بيان کرنے والے۔گواہ۔ظاہر ہونے کی جگہ) قدرت ہیں۔ اور  ہماری  پیدائش اور  ہماری  پر ورش  ہماری  عزت  ہماری  ذلت  ،ہماری عبرت(نصيحت) ہماری  امارت  (دولت مندی۔سرداری۔حکومت)سب شان ایزدی(خُدائی) ہیں۔  جو خاص اس کی مصلحت(حکمت۔نيک صلاح)  پر مبنی  ہے۔ کیونکہ  ہمارے امکان   سے باہر ہے  کہ  ہم اس کے  اسرار  نہانی(پوشيدہ باتيں۔بھيد)  کو سمجھیں ۔اور یہی کوتاہی(کمی۔نقص) ایک ایسی  زبردست   دلیل  (گواہی۔ثبوت)ہے جو ہماری  مخلوقیت  کا اثبات  (تصديق۔ثبوت)ہے۔

 ہاں  ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ  انتظام   ِعالم ہمارے ہی لئے  ہے  خُدا نے اولاً  کل چیزوں  کو پیدا  کر کے زینت(خوبصورتی۔سجاوٹ)  کے لئے حضرت  آدم کو بعد میں خلق  کیا۔ان کی نافرمانی  و خود  شناسی(حقيقت)  نے ہم کو گردابِ ہلاکت(ہلاکت کے بھنور)  میں ڈال دیا ۔ہم ضرور  بحیرہ  ہلاکت کے پُرجوش  امواج(لہروں)   میں  قریب الغرق  (ڈوبنے کے نزديک)تھے کہ دوسرے  آدم نے جس کو ۱۹۰۰ برس کے قریب ہوتے ہیں  ہم کو بچا لیا۔ سچ  پوچھو  تو نہ آدم  گناہ کرتا۔ نہ مسیح مرتا۔  اور نہ ہم اپنی حالت کے سمجھنے  پر قادر (مختار۔قابو رکھنے والے)ہوتے  اور نہ ہم  بغیر اس  کے رحمت  ِایزدی  (خُدا کی مہربانی يا کرم)کے قائل (تسليم کرنے والے۔غلطی ماننے والے)ہوتے۔ بقول۔ ع نہ ہو مرنا تو جینے  کا مزا کیا۔

’’ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتظام ِعالم ہمارے ہی لئے ہے ‘‘ ۔

 ظاہر ہے کہ جب تک   دو متضاد(بر عکس۔خلاف) حالتيں  نہ ہوں  امتحان مقابلہ غير ممکن ہے۔مثلاً  رنج(دُکھ۔غم)  نہ ہو تو مساوی (برابر۔يکساں) خوشی  کیا۔پس اگر حضرت  آدم گناہ  نہ کرتے  تو مسیح کیوں  آتا  اور ہم اس  اس غفور  الرحیم   (خُدا تعالیٰ کا صفاتی نام)کے دریائے رحمت  کے پیراک  (تيراک)کیونکر  ہوتے بہر حال  وہ بھی ایک انسان تھا ۔ جس نے خطا (غلطی)کی۔ اور وہ بھی  ایک انسان  ہے جس نے خطا  نہ کی۔

اب ہم بھی ایک  انسان  ہیں۔ تاہم ’’ ہم کیا ہیں ‘‘ اب ہم اس  جگہ  سے انسانی فرقہ  کے دو حصّہ  کرتے ہیں کہ وہ کیا ہیں اور ’’ ہم کیا ہیں ‘‘ اس تقسیم  میں ہم کل اقانیم پر بحث  نہیں کرتے  بلکہ اپنے ہندوستان  ہی کو دیکھتے ہیں   ’’ ہم  ‘‘  مسیحی ہیں اور  ’’ وہ ‘‘ غیر قوم۔ کیاہمارے  لئے یہ حیرت  انگیز  نہیں ہے اور ان کی ترقی  ان کی کوشش ان کا  عروج  (بلندی)قابلِ غور نہیں ہے ہاں ہے تو مگر ہم بھی اب  بغیر   کہے نہ رہیں گے۔  مانا کہ یہ غرور (اکڑ۔گھمنڈ) ہے۔ ہماری دانست(سمجھ)  میں مسیحی  حالت کا اظہار  اس حد تک  نہیں پہنچتا  اور اتنا   تو ہونا بھی چاہیے ۔ اگر ہم دلیر  انہ  و بے  با  کا نہ (نڈر)کہہ دیں۔ کہ ہم سب کچھ ہیں۔ تو افسوس  ہم اپنے کو ایمان  کے ایک( اکسٹريم  )انتہائی  درجہ کنارہ سے  بھی تجاوز (حد سے بڑھنا)کر کے  باہر پھینک  دیتے ہیں۔

 تو کیا ہم یہ کہ دیں  کہ ہم  کچھ بھی نہیں ۔ آہ ہم  یہ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ  ہم ابھی ابھی  یہ کچھ کہہ چکے  کہ ہم خُدا کے جلال ظاہر  کرنے واے ہیں اور اس کے مظہر  قدرت ہیں۔ پس  یہ تو ہم ضرور  کہہ سکتے  ہیں کہ ہم بہت کچھ  ہیں۔ ( خُدا ہماری  مد د کرے )  مگر جب ہم اپنی غربت  اپنی بے کسی  اپنے افلاس(مفلسی۔تنگدستی)  پر غور کرتے ہیں تو ہم مایوس  ہوتے ہیں باوجود  یکہ ہمارا  یہ خیال   بالکل کمزور  ہے جو ہماری  اوا لعزمی (جرأت۔بلندہمتی) کے خلاف  ہے کیا یہ تھوڑی  سی ترقی  جس کو ہم ہدیہ ناظرین کرتے  ہیں اس ممالک  مغربی  شمالی کے حوصلہ  خیز نہیں ہے۔ ضرور  ہمارا قلم  اس وقت جوش مسرت (خوشی)میں  ایسا  ترو  تازہ  ہے جیسا  کہ علیٰ  الصباح  (بہت سويرے)نسيم سحر (صُبح کی ہوا۔ہلکی ہلکی خاشبودار ہوا)کے سرد  سر د جھونکوں   سے یا اس وقت اس کی نرم نرم و نازک  خرامی (آہستہ آہستہ چلنے يا ٹہلنے کا عمل)جس کو نیچر(قدرت) نے کچھ اسی سہانے وقت کے لئے موزوں(مناسب )  کیا ہے ۔شامِ جاں  تک پہنچ  کر دماغ  کو   فريش  یا  تازہ کرتی ہے۔ اور جس  کی بلند  پروازی   ہمارے  برادران  قوم کے لئے مثردہ (بشارت۔خوشخبری)خوشی  ہو گی ۔

Leave a Comment