ہم مسیح مصلوب کی بشارت دیتے ہیں

Eastern View of Jerusalem

We preach Christ crucified

1 Corinthians 1:23

By

Akbar Masih

اکبر مسیح

Published in Nur-i-Afshan April 13, 1890

نور افشاں مطبوعہ ۳ اپریل ٫۱۸۹۰

نورافشاں میں مسیح کی تصلیب پر ایک عرصہ تک بحث ہوتی رہی ہے مگر اب بھی گنجائش ہے کہ کچھ اور تحریر کیا جائے اس میں کلام نہیں ہو سکتا کہ انجیل مقدس میں مسیح کی تصلیب کا بہت شرح وبسط (تفصیل کے ساتھ)سے مذکور ہے اور محض بوجہ سخت نادانی کے بعض مسلمان بھائی انجیل کی بنا پر عدم تصلیب میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں جو کوئی انجیل کی بنا پر انکار تصلیب کرے اس کی تروید کرنا عبث ہے کیونکہ ایسا انکار ہے خود مردود ہے مگر قرآن میں مسیح کی تصلیب سے ایک جگہ صاف انکار ہے وہاں لکھا ہے ’’نہ اس کو قتل کیا اور نہ اس کو مصلوب کیا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے ۔۔۔ اس کونہیں مارا یقیناً‘‘نسا۱۵۷۔

یہ تو محمدعربی  کا قول ہے جو۶۰۰  برس بعد اس ماجرے کے ملک عرب میں ظاہر ہوئے۔ یہود اس وقت بھی یہی دعویٰ فخریہ کرتے تھے  کہ ’’ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ ابن مریم کو ‘‘ نسا۱۵۷ ۔پہلی ہی صدی عیسوی میں یو سیفس یہودی اور ٹایٹس رومی مورخوں نے مسیح کے مصلوب ہو نے کا واقعہ تاریخ میں درج کر دیا تھا۔ اس وقت کسی کتاب کے الہامی یا غیر الہامی ہونے کی بحث نہیں ہے صرف یہ امر غور طلب ہے کہ اس واقعہ پر عقل سلیم کیا گواہی دیتی ہے۔

 محمد ی بیان اس قبیل(قبیلہ) سے ہے کہ اس کی تائید کوئی شہادت نہیں کر سکتی کیونکہ اس کو تسلیم ہے کہ جو شخص فی الواقعہ مصلوب ہوا اس کی شباہت مسیح کی شباہت تھی پس شخص کی صحت تشخص کے واسطے جو شہادت درکار ہے وہ محمد صاحب خود ادا کرتے ہیں اور یہاں پر حواس خمسہ کی شہادت اور عقل کا نتیجہ عیسائی تاریخ کے موید (تائیدکرنا)و مطابق اور محمد ی کے خلاف ہے۔ سب لوگوں نے باقرار اہل اسلام دیکھا کہ ایک شخص جس کی شکل و صورت سب مسیح کی سی تھی اور جب کوئی دوسرا ۔ہمشکل مسیح موجود نہ تھا۔ مصلوب ہو اپس عقل سلیم کا فتوی بغیر کسی تکلیف کے یہ ہے کہ دراصل اصلی مسیح ہے مصلوب ہوا۔ وہ جو دوسرا وہم ہے کہ اصلی مسیح آسمان پر خدا نے خفیہ اٹھالیا۔ اس کا تو چشم دیدہ گواہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ تو کسی نے بھی نہیں دیکھا اس لئے دنیا میں عقل کی عدالت کے روبر و ایسا دعویٰ مردودہے۔

 پس عقل و تمیز دونوں ہی محمدی بیان کو رد اور عیسوی بیان کو بلاتا مل تسلیم کرتے ہیں ۔ دنیا میں ہر واقعہ کا ثبوت اسی طرح ہوا کرتاہے پس تمام دنیا کے لوگ ہر فرقہ اور ہر ملت کے جو محمدی الہام کے قابل نہیں کی بنا پر تصلیب مسیح کے قبول کرنے پر مجبور ہیں اور فیصلہ ہمارے حق میں ہے  ۔

 چونکہ اس مضمون سے صرف مسلمان بھائیوں کی تسکین متصور(سوچا گیا) ہے لہذا ہم کو ضرور ہوا کہ ان کے دو ایک معقول عذرات(عذر کی جمع) بھی جو وہ نیک نیتی سے کرتے ہیں۔ رفع کردیں تا کہ ہم عقل کے ہاتھ سے ان کو محمدی بیان غلطی کےتسلیم کرنے پر مجبور کر سکیں۔

قرآن میں مسیح کی تصلیب سے ایک جگہ صاف انکار ہے

 اول وہ کہتے ہیں کہ محمد صاحب پر غیب سے وحی نازل ہوئی اور انہوں نے عیسائی بیان کی تروید کی۔ لہذا ہم ا ن کے قول کو ترویج دیتے ہیں۔ یہ عذر عیسائیوں کے مقابل ضعیف ہے کیونکہ عیسائی تو حضرت کے الہام کے قائل نہیں اور عدم الہام پر دلائل کے دفتر ہدیہ کر چکے ہیں پس ایسا عذر عیسائی یا غیر محمدی کے رو برو پوچھ ہے جب تک کہ محمد صاحب ملہم نہ ثابت کر دئیے جائیں ۔ اب ہماری عرض یہ ہے کہ اگر محمد صاحب کو الہام ہوا بھی تو صاف ظاہر ہے کہ وہ الہام عقل و تمیز و شہادت جو اس کے برخلاف ہو گا اس کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے اور اس پر ہم تو جہ بھی نہ کر یں گے۔ کیونکہ ایسے الہام کے نہ تو ہم قائل ہیں اور نہ ایسا الہام اس وقت تک کسی صاحب عقل کی توجہ کے لائق ہے جب تک کہ شخص مدعی ایسے الہام کی تائید میں معجزات[1] بینات (واضح) و خوارق عادات (فطرت سے بلند)عجیب و غریب نہ دکھائے تا کہ ہم اپنی عقل و تمیز کو اس تائید یزدانی و تصدیق اعجازی (خدا اور معجزے سے تصدیق)کے مطیع کریں۔ اور یہ امرمثل آفتاب کے روشن ہے کہ محمد صاحب نے نہ کبھی کوئی معجزہ کیا اور نہ صاحب معجزہ ہونے کا دعویٰ کیا بلکہ قرآن میں بہت صاف اقرار ہے کہ معجزے آنا ہی بند ہو گیا ۔ ’’ہم نے اس سے موقوف کئے معجزات بھیجنا کہ اگلوں نے ان جھٹلایا ‘‘بنی اسرائیل۵۹ ۔دوسرے یہ بھی یاد رہے کہ عیسائی بیان تصلیب مسیح کا اپنی تصدیق کےلئے کسی الہام یا معجزہ کا محتاج نہیں اس کو تو ہماری آنکھوں نے دیکھا اور ہمارے ہاتھوں نے چھوا‘‘۔

 پھر معجزہ بھی محض نام کے لئے قابل تسلیم نہیں معجزات سے دنیا کے دفتر پر ہیں ان میں وہی معجزہ عقل قبول کرتی ہے جو عقل و تمیز و صفات الہٰی کے موافق اور اس کے کسی طرح متناقص (جس میں نقص ہو )نہ ہو  مثلاً مسیح کا بغیر تصلیب خفیہ آسمان پر اٹھایا جانا اور ایک شبیہ کا مہیا کیا جانا جس کی تصلیب ہوئی ایک نہایت ہی طفلانہ جاہلانہ اور فضول بلکہ مضر معجزہ ہے اس کا نام فریب و مکر رکھنا چاہئے ۔ جیسے قرآن نے اس کا نام رکھا ہے ایسے معجزے کی مراد صرف کا فروں اور مومنوں کو دھوکا دینے کی تھی معجزہ اور الہام کے واسطے ہدایت بنی آدم کے موضوع ہے نہ کہ واسطے ان کی گمراہی کے ہاں اگر یہ معجزہ اس قسم کا ہوتا جیسا کہ حضرت دانی ایل کا شیر وں کی ماند سے ظالموں کے رو برو بچا یاجانا یا تین یہودی جوانوں کا آتشکدہ (آگ کی بھٹی)سے محفوظ نکلنایا بقول قرآن و حدیث یہود حضرت ابراہیم پر آگ کا عمل ہو جانا تو بشرط صحت واقعہ توجہ و غور بھی ہوتا اس سے مسیح کی شان و منزلت بھی کچھ متصور ہوتی اور منکروں کی ہدایت بھی ممکن تھی بھلا بتاؤ کہ مسیح کے آسمان پر چھپ کر چلے جانے کا اور ایک شبیہ بہم پہنچانے کا اثر دنیا میں کسی منکر یا مومن پر کیا ہو سکتا ہے۔ اس سے بجزخلق خدا کو جن کی ہدایت کے لئے انبیا  ورسل آئے دھو کا دینے کے اور کیا مطلوب تھا۔ معجزات بھانمتی (شعبدہ بازی)کے تماشے نہیں ہوتے عجب ہے کہ جو غلطی ابطال نبوت و الہام احمدیہ پر دال ہو اسی کے ثبوت کے لئے الہام قرآنی فرض کیا جائے۔

 دویم عذر یہ ہے کہ حضرت مسیح کی تصلیب سے اور ان واقعات دردناک سے جو قبل تصلیب کے حضرت مسیح پروارد ہوئے ایک نبی الوالعزم (مضبوط ارادے والے)کی تحقیر متصور ہے جو اس کے شایان شان نہیں۔ یہ خیال قرآن ہی کی بنا پر غلط اور جاہلانہ ہے کیونکہ اسی سورہ میں اعتراف ہے کہ یہود نے ’’خدا کے نبیوں کو جٹھلایا اور پیغمبروں کو ناحق قتل کیا‘‘ خدا کے پیغمبر اور رسول تو اکثر منکروں کے ہاتھ سے ناحق مقتول اور ذلیل ہو گئے ہیں

وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ

مارڈالتے تھے نبیوں کو ناحق اور نیزآل عمران ۲۱میں ہے ’’خون کئے ہیں نبیوں کے ناحق اور تم نے کیوں مارا ان نبیوں کو اگر تم سچے ہو ‘‘چنانچہ آپ کو تسلیم ہے کہ حضرت ذکریا کو آرے سے چروایاتھا اور حضرت یحییٰ کو بھی شہید کیا تھا۔ اور فرعون کے عہد میں حضرت یوسف کے ساتھ غایت درجہ (انتہا درجے کی)بدسلوکی ہوئی تھی۔ حضرت داؤد فرماتے ہیں’’یوسف بیچا گیا کہ غلام ہو انہوں نے بیڑی سے اس کے پاؤں کو دکھ دیا اس کی جان لوہے کے جال میں آئی‘‘ زبور۱۰۵ جتنا ہے خدا کی راہ میں جس نے زیادہ دردو تکلیف برداشت کیا ہے اتنا ہی خدااور انسان کی نظروں میں اس کی وقعت ہے۔ اگر ان سب پیغمبروں اور نبیوں کے قتل و تضحیک و تذلیل سے ان کی نبوت و توقیر پر حرف نہیں آتا تو اگر نبیوں کے سردار ہمارے سیدکریم مسیح نے سب سے زیادہ درد و تکلیف اٹھائی تو کیا مضائقہ ہے خداوند کو یہی بھایا کہ ’’ان کی نجات کے پیشوا کو اذیتوں سے کامل کرے‘‘ عبرنیوں۱۰:۳ جس کو آپ نادانی سے تحقیر سمجھتے ہیں وہی ان کی بزرگی و دقعت کا باعث ہے مقدس پولوس فرماتے ہیں کہ ’’اس نے آدمی کی صورت میں ظاہر ہو کر آپ کوپست کیا اور مرنے تک بلکہ صلیبی موت تک فرمانبردار ہا اس واسطے خدا نے اسے بہت سرفراز کیا اور اس کو ایسا نام جو سب ناموں سے بزرگ ہی بخشا ‘‘۔ فلپیوں۸:۲۔۹ واہ خدا کے سچے نبیوں اور رسولوں کا تو یہی فخر تھا کہ ’’ملامت اور کفر بکنے والے کی آواز سے دشمن اور انتقام لینے والے کے آگے سے یہ سب کچھ ہم پر گزرا پر تو بھی ہم تجھے (خدا کو )نہیں بھولے نہ تیرے عہد سے بیوفائی کی۔ ہمارا دل پیچھے نہیں بھرا اور ہمارے قدم تیری راہ سے نہیں ہٹے تیرے ہی لئے ہم سارے دن مارے جاتے ہیں ہم ذبح کی بھیڑوں کی مانند گنے جاتے ہیں ‘‘ زبور ۴۴ عیسائیوں کا یہ فعل ہے ’’ہم مصیبتوں پر فخر کرتے ہیں یہ جان کر کہ مصیبت سے صبر پیدا ہوتا ہے ‘‘ رومیوں۳:۵ ’’ہم ان کو جو صبرکرتے ہیں نیک بخت سمجھتے ہیں تم نے ایوب کے صبر کا حال سنا ہے ‘‘ یعقوب ۱۱:۵  اس نبیوں کے سلسلہ میں زیبا نہیں کہ ہم واقعہ کر بلا کا ذکر کریں مگر اہل اسلام اپنے اعتقاد کے موافق اس پر بھی متوجہ ہوں قطع نظر اس کے کہ وہ مصیبتیں دین کے لئے تھیں۔ یا دنیا کے یہ امرمسلم ہے کہ دنیا کی نظروں میں اس قسم کے حالات غایت درجہ باعث تحقیر ہوا کرتے ہیں۔

ہم نے مارا مسیح عیسیٰ ابن مریم کو

 سویم یہ عذرہے کہ مسیح کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا اور منکروں کے پنچہ جوروستم سے خلاص ہو نا ان کی بزرگی و جلال کا ظاہر کرنا ہے۔ یہ بھی عذر و وہم کا ایک جز ہے مسیح کے صعود سے بڑھ کر تو ایسا واقعہ نہیں ہو سکتا مگر ہم نے  ثابت کیا کہ مسیح کا مصلوب ہونا کہیں زیادہ باعث بزرگی اور جلال کا ہے۔

پر مسلمانوں کا یہ عذر بالکل غلط اور خیال خام ہے شاید آپ لوگوں نے اپنے اصل دعویٰ پر غور نہیں کیا جو تحقیر سمجھی جاتی ہے۔ وہ تو باقی رہی وہ کیوں کر مٹی جب حضرت مسیح آسمان پر اٹھائے گئے تو کس منکر یا مومن نے دیکھا یا کس کو علم ہوا کہ اس معجزہ یا رفعت مسیح پر شہادت دے یا تامل کرے۔ وہ تو ایسا وہم تھا کہ کسی کو گمان نہیں ہو اسے کون جان سکتا تھا جو جانے وہ حضرت کے دعویٰ کی تردید کرے کیو نکہ شکل تو مرد مصلوب کی بالکل مسیح کی تھی جو ’’مرد غمناک اور رنج کا آشنا تھا‘‘۔ اور جس کو صلیب دیا نام بھی اس کا مسیح رکھا اور تحقیر باقی رہی اگر اسے تحقیر سمجھو خود حضرت کے وقت میں یہود کا بجنسہ ہی دعوی تھا کہ ’’ہم نے مارا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اللہ کا تھا‘‘نسا۱۵۷ ۔بھلا اس کی تردید محض یہ کہہ دینے سے کہ یوں نہیں یوں ہو سکتی ہے۔

 اب نسبت بیان تصلیب مسیح کے قرآن کی بے عنوانیاں اور تخالف بھی ملا حظہ فرمائیے ۔ حضرت کہتے ہیں کہ یہود کو ’’اس کہنے پر کہ ہم نے مارا مسیح عیسیٰ ابن مریم کو ‘‘۔ خدا نے سزا دی ۔ نسا۱۵۷ ۔ سزا کیوں دی ؟ کیا خدا نے کبھی ان کے کلام کی تردید کی ہے کہ ان پر اتمام محبت ہو ۔ ہرگز نہیں بلکہ عقل سلیم ان کو مجبور کرتی ہے کہ سوائے اس قول قتل مسیح کے اس کا مخالف زبان پر نہ لا ئیں ۔ انہوں نے ایک شخص کو جس کو صورت طرزو انداز سب مسیح کا سا تھا مصلوب کیا اور کوئی دوسرا قرآنی مسیح کبھی ظاہر نہ ہو ا نہ الوپ (غائب)ہوتے کبھی کسی نے دیکھا تو ان کو کیا جا رہ تھا انہوں نے تو ’’اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے پکڑا خدا بے انصاف نہیں ‘‘کہ ایسی سچی اور واضح بات کے کہنے سے جس کی تردید نہ کبھی ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے کسی شخص کو سزا دے پس اب آپ اپنے ہادی کے اس منطق کو دیکھ کر اندیشہ کریں۔ ان دلائل سے ایسی قسم کے دھوکے کی تردید ہو جاتی ہے جو محمد صاحب کے زمانہ میں اور اس سے قبل بعض فرقوں میں رائج تھے اور جو اس انکار تصلیب مسیح حضرت کے استاد ہوئے خاتمہ ایک ایسی صورت بیان کی جاتی ہے کہ جس سے خاتمہ میں ایک ایسی صورت بیان کی جاتی ہے کہ جس سے بے شبہ شبہ لہم باطل ہو جاتا ہے آپ مجبور ہیں کہ یا خدا کو ترک کریں یا حضرت کی اس ہدایت کو ترک کریں۔ محمد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک شکل مثل مسیح کے بنا کر مسیح کو اٹھا لینا خدا کے ایک مکر پر معنی تھا۔ لکھا ہے

وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ  اللّٰہُ

اور فریب کیا ان کافروں نے اور فریب کیا اللہ نے العمران ۵۴۔ جب مسیح کے اٹھائے جانے کا سبب خدا کا مکر ہے تو معاذ اللہ خدا کو مکار مانو یا اگر خدا کو انکار نہیں ماننا چاہتےاور ضرور آپ خداکے لئے غیرت مند ہیں ہرگز نہ مانیں گے تو خدا کا مکر جو سبب مسیح کے الوپ ہو جانے کا تھا۔معدوم ہو ا خدا پاک اور قدوس ہے اور سبب کے معدوم ہوتے ہی مسبب بھی معدوم ہو ا یعنی عدم تصلیب مردود ہوئی اور تصلیب سچ برحق ثابت ہوئی اور جو اس میں شک لائے ہیں ۔(مالھم بہ من علم الااتباع انطن )کچھ نہیں ان کو اس کی خبر مگر گمان پر چلنا ۔ مگر افسوس اب بھی بہت مسلمان کہیں گے (حسبنامارجد ناعلیہ ابار)ہم کو بس ہے جس پر پایا ہم نے اپنے باپ داداوں کو ہمارا جواب یہ ہو گا۔ (اولوکان ابا ءھم لایعلمون شیئاولا یہتدون)۔بھلا اگر ان کے باپ دادے نہ کچھ علم رکھے ہوں اور نہ راہ جانتے تو بھی ؟ بھائیو مسیح کی صلیب تمہارے لئے ٹھوکر کا باعث نہ ہو تم خدا کے بیٹے کا جلال دیکھو ’’ہرگز نہ ہو کہ میں فخر کروں مگر اپنے خداوند مسیح کی صلیب پر ‘‘( گلتیوں ۱۴:۶)۔


[1] باوجودمعجزات بینات وخوارق عادات دکھانے کے لئے بھی اگرمدعی الہام دوسری انجیل ہمیں سنادے خواہ وہ آسمانی فرشتہ ہو ہمارےنزدیک بحکم انجیل معلون ہے(گلتیوں۸:۱)ایڈیٹر

Leave a Comment