کیا ضرور ہے کہ معجزہ بھی الہام یارسالت کے ساتھ ہو

Miracles and Revelation

Published in Nur-i-Afshan Augsut 23, 1883

کیا ضرور ہے کہ معجزہ بھی الہام یا رسالت کے ساتھ ہو


نور افشاں مطبوعہ ۲۳ اگست۱۸۸۳ء

اس سوال کے مختلف جواب دیے گئے ہیں ۔بعضوں کے خیال میں یہ ہے کہ معجزہ بالکل ضرور نہیں ہے ۔لیکن بعض سو چتے ہیں کہ معجزہ نہایت ضرور ہے میرا یقین اس دوسری رائے کے ساتھ متفق ہے اور خیال کرتا ہو ں کہ معجزہ کے سواالہٰام یا رسالت قطعی ثبوت کو نہیں پہنچتا الہٰام یا رسالت سے یہاں وہ انکشاف یا مکاشفہ یا الہٰام مراد ہے جو سیدھا خدا کی طرف سے غیرفطرتی طور پر ہی ظاہر ہوتا ہے یاوہ کامل اور بے نقص خدا کی مرضی کا ظہور جو نبی یا رسو ل پر سیدھا خدا کی طرف سے ملتا ہے اس قسم کے الہٰام یا وحی کا تمام غیر فطری مذہبوں کے بانی کاروں نے دعویٰ کیا ہے ۔مثلاً ایسا دعویٰ بائبل کے تمام نبیوں سے اور اہل اسلام کے پیغمبر سے بھی دیکھ جاتا ہے ۔ہندو مذہب کے سُنی اورر کھیوں کی نسبت بھی ایسا ہی یقین ہے ہماری سمجھ میں اگر اس قسم کا الہٰام خدا کی طرف سے ممکن ہے یا و قوع میں آیا ہے ۔تو یہ بھی ضرور ہے کہ معجزہ اُس کے ساتھ ہو کیونکہ بغیر معجزہ کے اس قسم کا الہٰام قابل اعتبار نہیں ہو سکتا الہٰام کا مطلب ہے یہ کہ ہم پر وہ بات ظاہر کی جائے جس کو ہم اپنی عقل سے نہیں پاسکتے ۔سو وہ ذاتی عقل سے بعیدہے اور عقل اُس کی ثبوت دینے میں قاصر ہیں ۔اس واسطے ضرور ہوا کہ اُس کی تصدیق کے واسطے اورکوئی وسیلہ یا نشان کا نتیجہ اوروہ نشان معجزہ کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔

میں منظور کرتا ہوں کہ الہٰام نبیوں کے دلوں میں القاہو سکتا ہے بغیر ظہور کے خدا قادر مطلق ہے اور انساں کے دلوں کا ایسا ہی اور قابض ہے جیسے اُن کے اجسام کا وہ ،اپنی عام پرور دگاری میں ہمیشہ انسان کی خاطر میں فکر و خیال پیدا کرتا رہتا ہے اسی طرح اگر وہ چاہے تو اعجاز ی طور پر بھی کسی خاس امر کی نسبت انسان کے دل میں خیال ڈال سکتا ہے ایسے خیال کا نام الہٰام ہے جب کہ ایسا خیال کسی انسان کے دل میں پیدا ہوا ہو تو ہم کس دلیل سے جان سکیں کہ وہ خیال خدا کی طرف ہے نہ انسان کے دماغ کا نتیجہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ خوداُسی آدمی کو جس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے اطمینان ہو سکتا کہ یہ خیال خدا کی طرف سے ہے اور اُس کی ذاتی قوتوں کا یہ نتیجہ نہیں اتنا ہی ثبوت ہوا کہ اُس کے دل میں خیال پڑا مگر یہ نہ جانا گیا کہ کس چسمیہ سے نکلا ہوا ہے ۔جب تک کہ خدا کی طرف سے ہو سنیکا نشان ظاہرہووے مثلاًکسی نبی یا کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ کل دنیا کے گناہوں کے لیے کفارہ کیا گیا ہے کس طرح وہ نبی یا اُس کےسننے والے جان سکیں کہ یہ خیال خدا کی طرف سے ہے ایک سرگرم طبعیت کا آدمی شاید منظور کرلے کہ یہ خیال خدا کی طرف سےہے لیکن کوئی عقلمند آدمی قبول نہیں کر سکتا جب تک کہ اُس کو کوئی سند نہ ملے ۔

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین ہونے کے لیے ایک مثال دی جاتی ہے کہ پچھلے زمانہ میں نبیوں پر ظاہر ہوا کہ موضع ہوریا شہر بابل جواُن دنوں میں بڑی رونق پر تھے برباد اور یران ہو جائیں گے یا بنی اسرائیل اسیر کئے جائیں گے تو ایسا خیال نبیوں کے دلوں میں اُٹھنا کچھ عجب نہیں تھا کیوں کہ شہرویران ہو ا کرتے ہیں اور قبائل بھی گرفتا ری میں چلے جاتے ہیں۔ اس کا نبی کے دل میں پیدا ہونا کچھ اس کی سچائی کا ثبوت نہیں اس کی سچائی تب ہی منظور ہوئی جب اُس کلام کے مطابق وہ ویران ہوئے اور بنی اسرائیل پکڑے گئے اور اسیری کی پیش گوئی کا پورا ہونا اُس کی سچائی کا ثبو ت ہے نہ اور کچھ لیکن اس قسم کا ثبوت ہم الہٰامی تعلیم کی نسبت نہیں پا سکتے پس اُس کے لئے کوئی اور ثبوت در کار ہو گا اور وہ ثبوت میری دانست میں معجزہ کے سو ا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔

معجزہ کے سواالہٰام یا رسالت قطعی ثبوت کو نہیں پہنچتا

ایک اور مثال سُنواٹھا رہ سو(۱۸۰۰)برس ہوئے ملک یہودیہ میں ایک شخص صادق زندگی عجیب لیاقت کا ظاہر ہوا اُسے بہت سی باتیں خدا کی ذات اور صفات اور انسان کے چال و چلن کی نسبت سکھائیں معہ ہذا اُس نے یہ بھی فرمایا کہ میری پیدائش کے پیشتر میں ازل سے خدا کے ساتھ جلال کی حالت میں تھا میں خدا کا اکلوتا بیٹا ہوں دنیا اور جو کچھ اُس میں ہے میرے وسیلہ بنا ہے میں آسمان سے اُترا ہو ں اور انسانی شکل و ذات کو اختیار کر لیا ہے تا کہ میں خدا کا بّر ہ ہو کر دنیا کا گناہ اپنے اوپر اُٹھالو ں میں عام آدمیوں کی مانند نہیں ہوں میرا علاقہ آدم زادسے عجیب واعجازی ہے میرے ہی وسیلہ سے انسان خدا کے پاس پہنچ سکتا ہے ایک پوشیدہ بادشاہی کا سرہوں جس میں ہر قوم اور ہر ملک کے لوگ شامل ہیں میں صلیبی موت اُٹھا کر آسمان پر واپس جاؤں گا تاکہ اپنےلوگو ں کی رہائش کے لئے مکان تیار کروں دنیا کے اخیر میں میں پھر آؤں گا اور سب مردوں اور زندوں کا انصاف کروں گا اُس وقت سارے جو قبروں میں ہیں میری آواز سُنیں گے اور نکلیں گے جنہوں نے نیکی کی ہے زندگی کی قیامت کےواسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے لئے اس عجیب بیان کی تصدیق میں ،اگر یہ شخص کوئی نشان نہ دکھلائے اور فقط اپنی زبان کی روسے وقت بوقت اور جگہ بجگہ اسی کو بیان کرتا رہے تو ہم اس آدمی کی نسبت کیا سو چیں گے۔ بے شک و شبہ ہر ایک عقلمند آدمی اُس کو پاگل اور دیوانہ سمجھے گا اور خیال کرے گاکہ اس کے دماغ میں خلل ہے بجز اس کے اس کی نسبت اور کیا خیال ہو سکتا ہے پھر اگر وہ ہمارے ہی موافق گوشت اُستخوان (ہڈی کھانا) سے بنا ہواہو اور اپنی زندگی میں اسی طرح باتیں ظاہر کرتا ہو جیسے عا م انسان اپنی زندگی میں دکھاتے ہیں تو بلا شک ہم اُس کی نسبت یہی سوچیں گے کہ اگرچہ یہ آدمی دیندار وخدا پرست ہے تو بھی کسی نہ کسی طرح اُس کےدماغ میں خلل آگیا ہے اور اُس خلل کے جوش سے اس قسم کی گفتگو کر رہا ہے ،لیکن اگر وہ شخص اس اپنے عجیب دعویٰ کی تصدیق میں کوئی معجزہ کر دیکھادے جو فقط الہٰی مدد سے ظہور پکڑ سکے تو ہم بلاشک اس کی گفتار کو مقبرجانیں گے اور نہ دل سے اس پر یقین کریں گے معجزہ کےسوا اور کوئی صورت نظر نہیں آتی جس سے ہم اُس کی رسالت یا الہٰام قبول کریں ۔

یعنی کہتے ہیں کہ تعلیم کی خوبی اور صداقت الہٰام کی پوری شہادت ہے تعلیم کی خوبی اور صداقت الہٰام کی پوری شہادت ہے اس بات کو میں منظور نہیں کر سکتا ہاں میں بھی اقرار کرتا ہوں کہ تعلیم کی خوبی اور صداقت خوداُس کی سچائی پر دلالت کرتی ہے یعنی یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ تعلیم خدا کی مرضی اور اُس کے حکم کے مطابق ہے کیونکہ سچائی آپ ہی اپنی گواہی ہے ۔لیکن تعلیم کی خوبی اور صداقت تعلیم دینے اولے کی رسالت یا الہٰام پر ہر گزدلالت نہیں کرتی یعنی یہ وہ ثابت کر سکتی کہ اس کا تعلیم دینے والا خدا کی طرف سے خاص طور پھجا ہوا ہے یا الہٰام یا وحی سےبول رہا ہے اس سے اتنا ہی ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم دینے والا ایک نیک بندہ ہے جو راہ خدا دکھاتا ہے ۔دنیا میں اس قسم کے ہزار ہادینی معلم ہیں جو نیک اور بے نقص تعلیم دے رہے ہیں لیکن ہم اُن کو رسول نہیں کہہ سکتے جب تک وہ کہ وہ کوئی سند پیش نہ کریں ۔جس سے ظاہر ہو کہ تعلیم خدا کی طرف سے سیدھی اُس کوحاصل ہے مثلاًتیرہ سو (۱۳۰۰)برس ہوئے ایک عالی دماغ اور سر گرم آدمی بُت پرست عربوں میں ظاہر ہوا اور اُس نے اُن کو بڑے زور اور قوت کے ساتھ تو حید ووحدانیت کی تعلیم کی یہ تعلیم نہایت سنجیدہ اور سچی ہے اور اس کو سنتے ہی اُ س دیار کے لوگوں نے قبول کر لیا۔ یہ ایسی قسم کی تعلیم ہے جس کو ہماری عقل وتمیز تسلیم کر لیتی ہے اور قرار دیتی ہے کہ یہ تعلیم خدا کی مرضی اور اُس کے حکم کے مطابق ہے، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس تعلیم کا دینے والا اس کو سیدھا خدا کی طرف سے بذریعہ وحی یعنی جبرائیل فرشتے سے حاصل کرتا رہا۔اگر اُس نے اس کو اس طور پر حاصل کیا تو اور کسی سندسے ثابت ہو گا ،لیکن اس سے ہرگز نہیں کہ وہ تعلیم عمدہ اور سچی ہے گمان تو یہ ہے کہ محمد صاحب نے اس سےتعلیم کو نیچر پر غور کرنے سے اور اپنے دل کی گواہی پر فکر کرنے سے یقین کیا اور یہ بھی بہتوں کا گمان ہے کہ انہوں نے اس تعلیم کو یہودی اور عیسائیوں سے حاصل کیا۔ یہ گمان ہمارے دل سے دور نہ ہوگا جب تک کوئی کامل نشان نظر نہ پڑے جس سے اس گمان کا بطلان ثابت ہواور یہ ظاہر ہو کہ ضرور یہ بات محمد صاحب کے اور خدا کی طرف سے غیر فطری طور نازل ہوئی ۔

اور جس طرح تعلیم کی خوبی اور صداقت تعلیم دینے والے کی رسالت پر دلالت نہیں کرتی اس طرح تعلیم دہندہ کی پاک اور بے عیب زندگی اس بات کی تصدیق کے لیے کافی نہیں ہو سکتی پہلے تو اس لیے کہ کسی بشر کی زندگی بالکل پاک اور بے عیب ثابت ہونی میری دانست میں محال اور ناممکن ہے نا ممکن اس لیے کہ بے عیبی اور پاکیزگی نہ صرف ظاہر ی امور اور بیردنی حالت پر بلکہ اُس کے خیال وطبعیت پر موقوف ہے اُس کے ارادہ اور نیت پر جس سے وہ بیر ونی کام کرتا رہتا ہے اور کون انسان دوسرے انسان کےاندرونی حال کا فیصلہ کر سکتا ہے دل اور گردوں کا جانچنے والا خدا ہے اور بس ۔

دوسرے فرض کر و کہ کسی آدمی کامل پاکیزگی اور بے عیبی ثابت ہوتو بھی یہ اُس کے الہٰام اور رسالت پر گواہی نہیں ہوسکتی ۔فقط اتنا ہی ثابت ہو اہے کہ وہ خداکی در گاہ میں پسندیدہ مقبول ہے وہ سچ بولنے والا ہے یعنی جیسے اُس کا یقین ہے ویسے ہی وہ بیان کرتا ہے ۔لیکن یہ ثابت نہیں کہ اُس کا یقین ہر ایک امر میں سچا ہے اور اُس نے دھوکہ نہیں کھایا اُس کے دماغ میں کسی قسم کا خلل واقع نہیں ہوا اور وہ جو الہٰام کا دعویٰ کرتا ہے یہ دعویٰ اُس کی مالیخولیا(پاگل پن) کا نتیجہ نہیں ہے جب تک یہ سب ثابت نہ ہو تب تک اُس کا الہٰام کا دعویٰ ہرگز وقابل پذیرائی نہیں ۔

تیسرا بعض کہتے ہیں کہ کسی مذہب کی پاک تاثیراور کامیابی اُس کے الہٰامی ہونے پر دلالت کرتی ہے بے شک یہ میں قبول کرتا ہوں کہ جس مذہب کی تاثیر پاک ہے یعنی ہم کو گناہ سے الگ کر کے خدا کی طرف پہنچاتا ہے وہ مذہب پاک اور خدا کی طرف سے ہے درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اور دوا کی خوبی اس کےتجربہ سے ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتاکہ وہ مذہب خداکی طرف سے کس طور پر ہے فطر ی طور پر یا غیر فطری کسی مذہب کی پاک تاثیر اُس کی پاک تعلیم پر دلالت رکھتی ہے اور یہ بھی بتائی ہے کہ اُس کے پیرو سچے ہیں اور اُس کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ اُس مذہب کے تعلیم دینے والے نے وہ تعلیم سیدھی راہ راست خدا سے پائی ہے ۔اس بات کے لئے اور سند درکار ہے اور میری سمجھ میں وہ سندبجزمعجزہ کے اور کچھ نہیں ہو سکتی ۔

میں اندرونی دلیل کی حقارت نہیں کرتانہ اُس کا بے فائدہ جانتا ہوں وہ اپنی جگہ میں نہایت ضروری اور کارگر ہے ایسی ضرروی ابدون(بغیر) اُس کے معجزہ ہے بے مصرف(بے کار) اور نکما ہے۔ اُس کے وسیلہ سے تعلیم کی خوبی اور صداقت ظہور میں آتی ہے ۔خود خداوند یسوع مسیح نے فرمایا ہے کہ ’’وہ شخص جو خدا کی مرضی پر چلنا چاہے جانے گا کہ  میری تعلیم خدا کی ہے ‘‘۔یقیناًسچائی کا سب سے بڑا ثبوت خود سچائی ہے جیسا پیشتر مسطور ہوا اور خود نیکی اپنے سب سے پختہ دلیل ہے اندرونی دلیل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تعلیم کا دینے والا نیک مرد اور بندہ خدا ہے نہ بندہ شیطان ۔جب اس قدرثابت ہوگیا تو اُس وقت بیرونی دلیل کی حالت پڑے گی وہ معجزہ اور پیش گوئی ہے جب نیک اور پاک تعلیم دینے والا دعویٰ کرتا ہے کہ میری تعلیم میری اپنی نہیں نہ میں کسی بشر سےحاصل کی بلکہ اُس کوسیدھا بذریعہ الہٰام یاوحی خدا کی طرف پایا ہے اور اپنے دعویٰ کے ثبوت میں معجزہ یا پیش گوئی پیش کرتا ہے تب ہم اس کو خدا کا رسول یا نبی اللہ منظور کرتے ہیں اور اس کی ایسی تعلیم کو بھی عقل سے بعید ہے بر خلاف اُس کی گواہی سے ہم قبول کرتے ہیں نہیں تو فقط پاک اور نیک تعلیم دہندہ قصور کرنے کے مطابق تحریر بالاکے ہم بائبل میں یہ پڑھتے ہیں کہ جب خدا نے اپنی پاک مرضی کو فوق العادت یا غیر فطری طور پر ظاہر کرنا چاہا تو ان کو معجزہ اور پیش گوئی کے ساتھ بھیجا اور انہوں نے اپنی رسالت کے ثبوت میں اور الہٰی رفاقت کے دعویٰ میں اُن کو پیش کیا ۔انجیل میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا نے رسولوں کی گواہی کو نشانیوں اور عجائبات اورمحتلف معجزوں اور نشانیوں اور چنبھوں سے جو خدا نے اُس کی معرفت دکھلائے اور مسیح نے آپ لوگوں کے سامنے معجزوں کو رسالت کے قطعی ثبوت میں پیش کیا دیکھو یوحنا کی انجیل کے ۵باب کی۳۴ اور ۴۷ ’’میرے پاس یوحنا کی گواہی سے ایک بڑی گواہی ہے اس لئے کہ یہ کام جو باپ نے مجھے سونپے ہیں تاکہ پورے کروں یعنی یہ کام جو میں کرتا ہوں مجھ پر گواہی دیتے ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے‘‘ پھر یوحنا کی انجیل میں مرقوم ہے ’’ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ میں نے تو تمہیں کہا اور تم نے یقین نہ کیا جو کام میں باپ کے نام سے کرتا ہوں یہ میرے گواہ ہیں ‘‘(یوحنا۱۰: ۲۵)مزید بیان ہے کہ ’’اگر میں اپنے باپ کا کام کرتا ہوں تو اگر چہ مجھ پر ایمان نہ لاؤ تو بھی کاموں پر ایمان لاؤ تاکہ تم جانو اور یقین کرو‘‘ ۔

کہ باپ مجھ میں ہے میں اُس میں ہوں محمدی مذہب کےالہٰامی فوق العادت ہو نے کی اس قسم کی قطعی دلیل نہیں ہے۔ میری سمجھ میں اُس کی بنیاد عام اور نا معقول ہے ۔اہل اسلام محمد صاحب کی رسالت یعنی غیر فطری طور پر خدا کی طرف سے مقرر ہو کر دنیا میں آنا۔ فقط محمد صاحب کے دعویٰ سے قبول کرتے ہیں اس قسم کا یقین میری سمجھ میں کمزور اور نا معقول ہے ۔محمدی مذہب کی قوت اور امید حال کے زمانہ میں کیسا ہے کیوں نہ ہو ہمیں پورا یقین ہے کہ عقل اور تقریر کے علم میں جب محمدی لوگ ترقی کریں گے تب ضرور اُن کے یقین کی بنیاد ٹوٹ جائے گی ،کیونکہ ذاتی اُن کا یقین بے بنیاد ہے ۔بے شک اگر محمدصاحب چاہتا تو معجزے کا دعویٰ کرتا لیکن اُنہوں نے ایسا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ اُن کے پاس کوئی معجزہ نہیں تھا ۔فقط اپنا کلام اپنی نبوت کے دعویٰ میں پیش کیا ہے ۔ہماری سمجھ میں اس قسم کا دعویٰ تعلیم یا فتہ اور شائستہ لوگ کبھی قبول نہیں کریں گے ۔اس کا نتیجہ ان دوباتیں سے ایک ضرور ہوگا ۔یاوہ محمدی مذہب سے بالکل یقین اُٹھا ئیں گے یااُس کو ایسا جان لیں گے جس سے فقط وہ نیچری مذہب رہ جائے گا ہر ایک غیر فطری دعویٰ اور تعلیم کو ردکردیں گے اور فقط اُس کو محمدی مذہب قرار دیں گے جس کو نیچریا فطرت وقبول کر لیتی ہے ۔

اگر کوئی کہے کہ محمدی مذہب معجزے کے ثبوت کی حاجت نہیں رکھتا فقط اُس کی اندرونی دلیل یعنی اُس کے مضمون کی خوبی اور صداقت اُس پر دلالت کرتی ہے تو اُن کی تسلی کے لئے میں بشرط زندگی چند وجوہات اسں اخبار کے آئندہ کسی پر چہ میں پیش کروں گا ۔

Leave a Comment