The Lord looks down from heaven on the children of man,to see if there are any who understand who seek after God.
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Jan 9,1894
نور افشاں مطبوعہ ۱۹جنوری ۱۸۹۴ ء
’’خداوند آسمان پر سے بنی آدم پر نگاہ کی تاکہ دیکھے کہ کوئی دانش مند کوئی طالب ہے یا نہیں۔ وہ سب کے سب گمراہ ہوئے۔ وہ باہم نجس ہوگئے۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ایک بھی نہیں(زبور۱:۱۴۔۳)۔
خُدائے قدوس کی نظر میں بنی آدم کی گناہ آلود ہ حالت کی نسبت یہ ایک ایسے شخص کی شہادت(گواہی) ہے۔ جو ملہم(الہام شُدہ) ہونے کے علاوہ ۔ بحیثیت ایک بڑی قوم کا بادشاہ ہونے کے خاص و عام کے حالات و معاملات سے بخوبی واقف ۔ اور تجربہ کار تھا ۔ اور یہ نہ صرف اسی کی شہادت ہے۔ بلکہ وہ سب بھی جنہوں نے نعمت الہام پا کے پاک نوشتوں کو قلم بند کیا ۔ بنی آدم کی علی العموم(عام طور پر) گناہگاری کا اظہار و اقرار کرتے ہیں۔
بائبل ہی ایک ایسی کتاب ہے جس سے معلوم ہو سکتا ۔ کہ آدم سے تا ایندم کو ئی بشرمبرا عن الخطا (غلطی سے پاک ہونا)نہ ہوا ۔ اور نہ تاقیام قیامت ہو سکتا ہے۔ یہ کتاب کسی نبی ، رسول یا بادشاہ کے گناہ پر پردہ نہیں ڈالتی ۔ اور نہ ان کے کسی گناہ کو ترک اولیٰ ۔یا لیلا کہہ کر اس کو خفیف (معمولی)ٹھہراتی ہے۔ وہ نہ انبیاء دائمہ کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتی ۔ اور نہ مہارشیوں اور مہاتماؤں کی نسبت یہ تعلیم دیتی ہے۔ کہ سامر تھی کو دوش نہیں ۔ بلکہ صاف طورپر ظاہر کرتی ہے۔ کہ ’’ سبھو ں نے گناہ کیا۔ اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں ‘‘ ۔ وہ گناہ کے نتیجہ کو بھی بصفائی بتاتی ۔ اور بنی آدم کو آگاہ کرتی ہے۔ کہ جو جان گناہ کرتی ہے سو ہی مرے گی ‘‘ ۔ اور یہ کہ ’’ گناہ کی مزدوری موت ہے ‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ انسانی خود پسند طبیعت ۔ اور فریب خورد ہ دل کو یہ بات پسند نہیں ۔ کہ وہ الہام کی ایسی آواز سُنے کہ ’’ سبھوں نے گناہ کیا ‘‘ ۔ سب کے سب بگڑے ہوئے ہیں ۔ اور کوئی نیکو کار نہیں ایک بھی نہیں لیکن خواہ کوئی ان باتوں کوقبول و پسند کرے یا نہ کرے وہ درحقیقت بہت ہی صحیح ۔ اور صادق (سچے)ہیں ۔ وہ لوگ جو گناہ کی بُرائی سے اور خُدا تعالیٰ کی عدالت و قدوسی (پاکيزگی) سے ناواقف ہیں۔ اور جنہوں نے اپنی دلی و اندرونی حالت کو نہیں پہچانا ۔ کسی بزرگ شخص کی نسبت معصومیت کا خیال کر سکتے۔ اور اپنے کو بھی بہ نسبت دوسروں کے پاک اور راست سمجھتے ہیں ۔ بلکہ بعض ایسے لوگ بھی موجود ہیں ۔ جو مسیحیوں سے سوال کیا کرتے ہیں کہ ’’ گناہ کیا ہے ‘‘ ؟ ایک دفعہ ایک واعظ نے دوران وعظ کہا کہ ’’ ہم سب گنہگار ہیں ‘‘ ۔ تو سامعین میں سے ایک آدمی نےجو شايد برہمن تھاجواب دیا۔ ’’ بے شک تم سب گنہگار ہو مگر میں نہیں ہوں کیا یہ امر نہایت افسوس کے قابل نہیں ۔ کہ کتنےہزار آدمی بغیر گناہ کی پہچان ۔ اور اس کی معافی حاصل کئے ۔ اس دُنیا سے گزر جاتے ہیں۔ اور مرنے کے بعد انہیں ابدی عذاب میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔
لیکن اگرچہ سارے بنی آدم گناہ سے مغلوب(ہارنا) ہو گئے تو بھی آدم ثانی (دوسرا آدم يعنی يسوع مسيح)۔ جو خُداوند آسمان سے تھا۔ ظاہر ہوا۔ اور گناہ اور موت پر غالب آکر اپنے سب ہم جنسوں کے لئے مفت نجات کا دروازہ کھول دیا۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ ’’ جب ایک ہی کی خطا (غلطی۔گناہ) کے سبب بہت سے مر گئے ۔ تو ایک ہی آدمی یعنی یسوع مسیح کے وسیلے سے خُدا کا فضل ۔ اور فضل سے بخشش بہتیروں کے لئے کتنی زیادہ ہوئی ‘‘۔