پاک نوشتے کے الہامی ہونے کاثبوت

Eastern View of Jerusalem

The Evidence of the Inspiration of the Bible

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Oct 13, 1884

نور افشاں مطبوعہ۳ اکتوبر ۱۸۸۴

پولس رسول کتب مقدسہ کو الہٰامی فرماتا ہے ۔(۲۔ تیمتھیس ۳: ۱۶ ) اور یہی دوسرے رسولوں اور اس وقت سے لے کر اب تک کے مسیحیوں کا دعویٰ ہے کہ سارے پاک نوشتے یعنی توریت ، زبور و صحائف انبیا اور اناجیل الہٰامی ہیں ۔

اب دریافت کریں کہ کن کن دلیلوں سے یہ دعویٰ صحیح ٹھہرتا ہے دلائل یہ ہیں ۔

( ۱ )پہلے یہ کہ ہم اول سے آخر تک لکھنے والوں یعنی موسیٰ سے لے کر یوحنا تک کے حالات اور واقعات پر بغور نظر کرتے ہیں تو ان میں سے ایک پر بھی دغا بازی و دنیا سازی و مکر و فریب کا کچھ شک و شبہ پایا نہیں جاتا ۔ وہ سب کے سب دیندار اعتبار اور خدا ترس تھے ۔ انہوں نے مثل بدکاروں کے کبھی اپنے گناہوں کو نہیں چھپایا بلکہ جب کوئی خطا ان سے ہوگئی اس کا اقرار کر کے توبہ کی اور ہر طرح کے گناہ کے کام پر ملامت کرنے اور لوگوں کو گناہ سے بچانے اور بھلائی کرانے کے لئے کوشش فرماتے تھے ۔ان وجوہات سے ظاہر ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا الٰہام ہی سے لکھا کیونکہ وہ بدہوتے تو ایسی ایسی عمدہ دلیلیں کہاں سے یاد کرتے اور بدوں کو بدی سے باز رکھنے میں کب سعی کرتے ۔

(۲) دوسرے یہ کہ ان کے لکھنے والے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم انسان کی حکمت کی سکھلائی ہوئی باتوں سے نہیں بلکہ روح القدس کی تعلیم کی ہوئی باتیں بیان کرتے ہیں (۱۔ کرنتھیوں ۲: ۱۳ )۔

اور پھر اسی خط کے ۴ باب کی پہلی آیت میں یوں لکھا ہے کہآدمی ہم کو ایسا جانیں جیسا کہ مسیح کے خدمت گزار اور خدا کے بھیدوں کے مختار کار۔ اور پھر (۱۔ تھسلنیکیوں ۲ : ۱۳ ) میں لکھا ہے کہ ”اس واسطے ہم بھی بلاناغہ خدا کا شکر کرتے ہیں کہ جب خدا کا پیغام ہماری معرفت تمہارے پاس پہنچا تو تم نے اسے آدمیوں کا کلام سمجھ کر نہیں بلکہ ( جیسا حقیقت میں ہے ) خدا کا کلام جان کر قبول کیا اور وہ تم میں جو ایمان لائے ہو تاثیر بھی کر رہا ہے ”۔ اور پطرس رسول کہتا ہے کہ” نبوت کی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ خدا کے لوگ روح القدس کے بلوائے بولتے تھے”( ۲۔ پطرس ۱ : ۲۱)۔اور بہت جگہوں میں ایسی بات کا بیان ہے سو جب کہ وہ ایسے نیک آدمی تھے تو ممکن نہیں کہ جھوٹا دعویٰ کرتے ۔

نبوت کی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی

( ۳) تیسرے یہ کہ ان کتابوں کے لکھنے والوں میں سے کئی ایک بے علم اور عوام میں سے تھے جیسے داؤد کے بادشاہی پانے سے پیشتر گڈریا تھا اور عاموس چرواہا تھا ۔ اور یوحنا و پطرس مچھیرے تھے ۔تو کیا ممکن تھا کہ ایسے بے علم اور عوام لوگ اپنی عقل اور دانائی کی رو سے خدا کی ہدایت بغیر ایسی عمدہ کتابیں لکھ سکیں کبھی نہیں چنانچہ یوحنا نے انجیل میں جو جو باتیں لکھیں ہیں ان کے ہو جانے کے پچاس(۵۰) برس بعد لکھیں ہیں ۔سنو اگر وہ الہٰامی نہ ہوتا تو کیوں کر اتنے عرصہ و راز کی ساری گہری تمثیل اور واقعات معجزات کی باتیں جو جدا جدا وقتوں اور مقاموں میں واقع ہوئیں صحیح صحیح  اسے یاد رہتیں۔

(۴) چوتھے یہ کہ خدا وند عیسیٰ مسیح نے اپنے شاگردوں کو روح القدس دینے کا وعدہ فرمایا کہ وہ اس کے وسیلہ سے سب باتوں کو یاد کریں جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ”میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ ہوتے ہوئے تم سے کہیں لیکن وہ تسلی دینے والا روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیج دے گا وہ ہی تمہیں سب چیزیں سکھلا دے گا اور سب باتیں جو میں نے تمہیں  کہیں یاد دلا دے گا”  ( یوحنا ۱۴ : ۱۶ ) ۔

اور مسیح نے انہیں یہ وعدہ بھی دیا کہ ”جب وہ تم کو عبادت خانوں میں اور حاکموں اور اختیار والوں کے پا س لے جائیں تو فکر نہ کرو کہ کیسا یا کیا جواب دو گے یا کیا کہو گے کیونکہ روح القدس اسی گھڑی تم کو سکھلا دے گا کہ کیا کہنا چاہئے”(لوقا ۱۲ : ۱۲ )۔

اس بیان سے یہ غرض ہے کہ جب عیسیٰ نے ان کو روح القدس کے وسیلہ سے بولنا سکھلایا تو لکھنا سکھلانا کچھ بعید نہیں۔

(۵) پانچویں یہ کہ خدا نے ان کے لکھنے والوں کے ہاتھوں اور زبانوں سے بڑے بڑے معجزے اور کرامتیں دکھلائیں جن سے ان کے سچ لکھنے پر گویا اپنی مہر کر دی ( مرقس ۱۶ : ۲۰ ) اور ( عبرانیوں ۲: ۴ ) اگر وہ جھوٹھے ہوتے تو کیا خدا ان کے ہاتھ سے معجزے دکھلاتا کبھی نہیں۔

(۶) چھٹی یہ کہ جس زمانہ میں یہ کتابیں لکھی گئیں اس وقت کے لوگوں نے بڑی تحقیقات کے بعد انہیں الہٰامی ماننااور انجیل اور رسولوں کے سارے خطوں کو توریت اور زبور اور انبیا کی کتابوں کی مانند سمجھ کر انہیں قبول کیا ۔جیسا کہ پطرس، پولس رسول کے خطوں کو توریت زبور و کتب انبیا کے برابر ٹھہراتا ہے  ( ۲ ۔ پطرس ۳ : ۱۶ )۔ اور تواریخ سے بھی ثابت ہے کہ لوگ توریت و زبور و کتب انبیا کی طرح اناجیل کو بھی سبت کے دن اپنے گرجوں میں پڑھتے اور سناتے اور ان میں اور اس میں کچھ فرق نہیں جانتے تھے ۔

( ۷ ) ساتویں یہ کہ کتب مقدسہ میں بہت سی ایسی پیش خبریاں لکھی ہیں کہ جن میں سے بہت تو پوری ہو چکیں اور بہت اب تک پوری ہوتی جاتی ہیں ۔ پس ان کے لکھنے والے اگر الہٰام سے نہ لکھتے تو کیونکر ممکن تھا کہ ہزاروں برس آگے کی خبریں ایسی ٹھیک ٹھیک لکھ سکتے ۔ مثلاً اڑھائی ہزار(۲۵۰۰) برس گزرے کہ ہوسیع نبی نے یہودیوں کی ادارگی اور کسی ملک پر قبضہ نہ رکھنے کی نبوت اس طرح پر کی تھی کہ مبرا خدا ان کو رد  کرے گا اس لئے کہ وہ  اس کے شنوا(سننے والے) نہیں ہوئے اور وہ قوموں کے بیچ آوارہ پھریں گے  ( ہوسیع ۹ : ۱۷ ) ۔سو ظاہر ہے کہ یہودی لوگ جہاں پر ہیں رعیتانہ (تابعداری)آباد ہیں ۔ کسی سرزمین پر حکومت نہیں رکھتے ہیں اور اس طرح سے اور نبیوں نے نینوا اور بابل کی بربادی کی نبوتیں اس وقت میں کی تھیں کہ وہ بہت آباد اور بہت سے ملک ان کے تحت میں تھے سو جیسی نبوت کی گئی تھی ویسا ہی ہوا۔

اور اس طرح عیسیٰ مسیح نے یروشلیم اور کفرنحوم کی بربادی کی خبر ان کی ایسی آبادی کی حالت میں دی تھی کہ کوئی علامت ان کی بربادی کی ظاہر نہ تھی اور متی اور لوقا نے اس نبوت کو انجیل میں درج کیا ۔چنانچہ ان کے لکھنے کے بہت برسوں بعد اس نبوت کے موافق یروشلیم اور کفرنحوم پر تباہی آئی اگر یہ کتابیں الہٰامی نہ ہوتیں تو کیونکر ان کی نبوت و پیش خبریاں صحیح اور ٹھیک اترتیں۔

( ۸ ) آٹھویں یہ کہ جہاں و انسان کی پیدائش اور قوموں کے فرقوں کی کیفیت جو کچھ ہم کو صحیح طور پر معلوم ہوئی سو کتب مقدسہ ہی سے ہوئی اگر یہ کتابیں نہ ہوتیں تو ہرگز ٹھیک ٹھیک نہ جان سکتے سو اگر یہ کتابیں الہٰامی نہ ہوتیں تو ان کے لکھنے والے ایسی غیب کی باتیں کہاں سے لکھ سکتے ۔

(۹) نویں یہ کہ کتب مقدسہ کے سارے حصے آپس میں موافق ہیں ایک دوسرے سے ذرا بھی مخالفت نہیں رکھتا ۔چالیس (۴۰)شخص ان پاک نوشتوں کے لکھنے والے جداگانہ مقاموں اور زمانوں کے ہیں جن سے ۶۶ کتابیں لکھی گئیں ۔چنانچہ موسیٰ اول لکھنے والے سے یوحنا آخر لکھنے والے تک ایک ہزار سات سو(۱۷۰۰) برس کا عرصہ درمیان میں ہے اور باوجود اس قدر تفاوت زمانہ اور مقامات جداگانہ اور نہ ہونے امکان صلاح و مشورت ایک ہی طور پر لکھنے کے تو بھی سب لکھنے والوں کے اصل مطلب میں موافقت ہے ۔سو اب ان کے الہٰامی ہونے میں شک کی گنجائش نہیں اگر وہ سب کاتب الہٰامی نہ ہوتے تو ان سب کا لکھنا باہم موافق کب ہوتا ۔

( ۱۰ ) دسویں یہ کہ اناجیل لکھی جانے کے زمانہ میں لوگ بڑی گمراہی اور غلطی میں پڑے ہوئے تھے مگر اناجیل ان غلطیوں سے پاک ہے اور اس پر ملامت کرتی ہے ۔

سو اگر اس کے لکھنے والے الہامی نہ ہوتے تو ضرور اس وقت کی غلطی اور بدراہیوں کی خاطر جمعی اور رعایت کرتے اور ان کی جڑ نہ کھودتے ۔

( ۱۱) گیارھویں یہ کہ کوئی اور کتاب انسان کے دل پر ایسی تاثیر نہیں کرتی جیسی کہ انجیل کرتی ہے۔ دیکھو اس کے حکموں میں انسان کے سارے فرائض مندرج ہیں اور اس کے لکھنے والے خدا کی صفات کیسے صحیح طور پر لکھتے اور انسان کے دلوں میں نیکی اور صبر اور فروتنی اور رحم و محبت کی رغبت پیدا کراتے ہیں۔ پس سب دلیلوں سے پاک نوشتوں کا الہٰامی ہونا ثابت ہے ۔

بیان کے نتائج

۱۔ پہلے اگر یہ کتابیں الہٰامی ہیں تو دینی تعلیم اور راستبازی کی تربیت کے لئے مفید ہیں تاکہ مردِ خدا کامل اور ہر ایک نیک کام میں تیار ہو۔

۲۔ دوسرے یہ کہ کتابیں ہماری ہادی و رہنما ہیں جو کوئی کسی ولایت (دوسرے ملک)کو جانا چاہتا ہے تو دنیا کا نقشہ ملاحظہ کرتا ہے تاکہ ہر ایک مقامات سے واقف ہو کر خوف و خطر کی راہ چھوڑ کے امن و پناہ کی راہ پر چلے سو ہم جو راہ بہشت کے مسافر ہیں کتاب مقدسہ ہماری رہنمائی کا نقشہ ہے اس سے ہم کو اس راہ کی مشکلات و خطرات اور امن و سلامت کی راہیں معلوم ہوتی ہیں۔

۳۔ تیسرے یہ کہ کتاب مقدسہ کی بہت سی نبوتیں پوری ہو چکیں اور اکثر اب تک پوری ہوتی جاتی ہیں اور جو جو وعدے سزا و جزا کے اس میں مندرج ہیں اور ابھی پورے نہیں ہوئے ۔وہ جیسے کہ لکھے ہیں ویسے ہی ہوں گے ۔چنانچہ لکھا ہے کہ جو ایمان لاتا ہے اور بپتسمہ پاتا ہے نجات پائے گا اور جو ایمان نہیں لاتا ہے اس پر سزا کا حکم ہو گا ۔ سو یہ وعدہ ضرور ہو گا ۔

۴۔ چوتھے یہ کہ کتاب مقدس کو نہ صرف پڑھنا ہی ضرور ہے بلکہ اس کے حکموں پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ خداوند یسوع مسیح نے فرمایا ہے کہ جس کے پاس میرے حکم ہیں اور وہ ان پر عمل کرتا ہے  وہی مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرے باپ کا پیارا ہوگا اور میں اسے پیار کروں گا اور اپنے تئیں اس پر ظاہر کروں گا ۔

Leave a Comment