Investigation the Prophet hood of Muhammad
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan September 25, 1884
نور افشاں مطبوعہ ۶ نومبر ۱۸۸۴ء
ساری چیزوں کو آزماؤ بہتر کو اختیار کرو
خداوند مسیح جس کے دنیا میں آنے کی صرف یہی غرض اور مراد تھی کہ انسان جو برگشتہ ہوکر گناہ اور مصیبت کی حالت میں گرفتار ہوگیا ہے اور ہلاکت اور ضلالت کے بھنور میں چکرا رہا ہے رہائی پاکر ابدی زندگی میں داخل ہوجائے۔اس لیے جو کام اہم اور دشوار تھے کہ ذات انسانی اس کے پورا کرنے سے عاجز اور مجبور تھی خود تکمیل کو پہنچائے اور ہمارے بوجھ کو ہلکا کرکے اپنی محبت دکھائی اور صرف یہ ایک کام کہ مجھ پر ایمان لاومیں تم گنہگاروں کا منجی ہوں ہم کو عطافرمایا اور یہ دعویٰ کہ میں نجات دہند ہ ہوں ۔صرف اسی نے نہیں بلکہ اس کے اس مرتبہ کے انبیا ء ماسبق(جو پہلے گزر چکا ہو) اور فرشتہ شاہد ہیں ۔پس جو جو باتیں کہ ہمارے واسطے ضروری اور مناسب معلوم ہوئیں ان سے خود خداوند مسیح نے اطلاع بخشی اور جن باتوں کے لائق اور قابل اس وقت نہ دیکھا ان کو روح القدس کے وسیلہ حاصل ہونے کا وعدہ فرمایا۔
چونکہ یہ بات بھی ضروری تھی کہ ہم کو اگلے نبیوں کی بابت کچھ خبر دی جائے کیونکہ پہلے نبیوں کا یہی قاعدہ تھاکہ آنے والے نبی کی بابت ضرور خبر دیتے تھے اور خداوند مسیح کو بھی باعتبار درجہ نبوت ضرورتھا کہ اگر کوئی نبی آنے والا ہو تو اس کی خبر دے۔لیکن اس نے کسی کے آنے کی خبر نہیں دی ہاں پہاڑی وعظ میں یوں تو فرمایا کہ پر جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو جو تمہارے پاس بھیڑوں کے بھیس آتے ہیں پر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں (متی۷: ۱۵) ۔اور خداوند مسیح سے چھ سو دس (۶۱۰)برس بعد ملک عرب کے شہر مکہ میں محمد بن عبداللہ عبدالمطلب پجاری مندر کعبہ نے دعویٰ نبوت کیا اور عرب کے بت پرستوں کو اپنا مطیع اور فرمان بردار بنالیا ۔اب اگرچہ ان کو انتقال کئے ہوئے عرصہ ہزار بارہ سو (۱۲۰۰)سال کا گذرا مگر ان کی طرف سے اکثر مولوی اسی طرح جھگڑتے ہیں گویا مولوی صاحب کی نبوت ہے ۔اس واسطے ہم کو ضرور ہے کہ بموجب حکم حضرت یوحنا رسول اے پیارو تم ہر ایک روح کو یقین نہ کرو بلکہ روحوں کو آزماؤ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں کہ نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے پیغمبردنیا میں نکل آئے ہیں (۱۔یوحنا ۴: ۱) ۔محمد صاحب کو آزمائیں کہ ان کا دعویٰ نبوت واقعی درست ہے یا جیسے نبیوں کی بابت خبر دی گئی ہے ان میں سے ہیں کیونکہ خداوند مسیح نے پہاڑی وعظ مندرجہ انجیل مقدس حضرت متی میں یوں فرمایا ہے کہ (متی ۷: ۱۶ ،۱۷) تم ان کو(جھوٹے نبیوں کو) ان کے پھلوں سے پہچان لوگے ۔کیا کانٹوں سے انگور اور اونٹ کٹاروں سے انجیر توڑتے ہیں اسی طرح اچھا درخت اچھے پھل لاتا ہے اور برا درخت برے پھل لاتا ہے اچھا درخت برے پھل نہیں لاسکتا اور نہ بُرا درخت اچھے پھل لاسکتا ہے۔یہ ایسی کسوٹی ہے کہ جس سے نبی کیا ہر قسم کے آدمی کو پہچا ن سکتے ہیں ۔
اس سے پہلے ضرور ہے کہ ہم پچھلے نبیوں کی تواریخ دیکھ کر چند ایسے قواعد مقر ر کریں کہ جس سے سچے اور جھوٹے نبی کی شناخت حاصل ہو۔سو بائبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کے لیے شرائط ذیل ضروری اور لازمی ہیں اور جس میں یہ باتیں نہ پائی جائیں وہ ہرگز ہرگز نبی نہیں ہوسکتا ۔
۱۔پہلی شرط مدعی نبوت صاحب معجزہ اور پیش گوئی ہو۔
۲۔ دوسری شرط اس کی تعلیم عمدہ مطالب پر مبنی ہواور پہلے نبیوں کے خلاف نہ ہو ۔
۳۔تیسری شرط تبلیغ احکام خداوندی میں حکومت اور زبردستی نہ دیکھاتا ہو۔بلکہ غریبی اور حلیمی سے تعلیم دیتا اور خدا کا کلام مخلوق کو سناتا ہو ۔جیسا کہ نبیوں نے کیا۔
۴۔ چوتھی شرط اس کا چال چلن ایسا ہوکہ جس سے خدا کی بزرگی اورجلال ظاہر ہو۔
۵۔ پانچویں شرط اس پر کسی نبی نے گواہی دی ہو یاشہادت کا سکوت اختیار کیا ہو۔
اب دیکھنا چاہیے کہ محمد صاحب میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں یانہیں سو پہلی شرط معجزہ اس کی بابت قرآن کے چند مقامات سے واضح ہے کہ محمد صاحب نے کوئی معجزہ نہیں دیکھایا بلکہ اس کے دیکھانے سے اپنی مجبوری و معذوری بیان کی ہے چنانچہ( سورہ بنی اسرائیل آیت ۹۰۔۹۳) کی عبارت یہ ہے ۔
وَ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ یَنۡۢبُوۡعًا اَوۡ تَکُوۡنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الۡاَنۡہٰرَ خِلٰلَہَا تَفۡجِیۡرًا اَوۡ تُسۡقِطَ السَّمَآءَ کَمَا زَعَمۡتَ عَلَیۡنَا کِسَفًا اَوۡ تَاۡتِیَ بِاللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیۡلًا اَوۡ یَکُوۡنَ لَکَ بَیۡتٌ مِّنۡ زُخۡرُفٍ اَوۡ تَرۡقٰی فِی السَّمَآءِ وَلَنۡنُّؤۡمِنَلِرُقِیِّکَحَتّٰیتُنَزِّلَعَلَیۡنَاکِتٰبًانَّقۡرَؤُہٗ قُلۡسُبۡحَانَ رَبِّیۡ ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا
وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تجھ پر ایمان ہرگز نہ لائیں گے تاوقت یہ کہ تو ہمارے واسطے زمین کے نیچے سے پانی کا چشمہ نکال کر جاری نہ کرے یا ہوجائےتیرے واسچے خرما یا انگور کا کوئی باغ اور اس میں جلدی کرے تو نہریں یا آسمان کو ہم پر گرا دے جیسا کہ تو نے دعویٰ کیا ہے یا خدا کو اور فرشتوں کو بلائے گواہی کے واسطے یا سونے کا بنا ہوا تیرا ایک گھر ہویا تو چڑھ جائے آسمان پر وہ چڑھ جا نا تیرا ہم سچ نہ جانیں گے جب تک تو ہمارے واسطے کوئی ایسی کتا ب نہ اُتار لائے جسے ہم آپ پڑھ سکیں کہہ اے محمد اللہ پاک ہے میں کون ہوں مگر ایک آدمی جو پیغمبری پر بھیجا گیا ہوں ۔
اس آیت میں جب کفار عرب نے معجزہ طلب کیا تو صاف کہہ دیا کہ میں کون ہوں جو معجزہ دیکھاؤں میں تو ایک آدمی جو حکم سنانے بھیجا گیا ہوں پھر دوسری جگہ دوسری جگہ (سورہ عنکبوت آیت ۵۰ )میں لکھا ہے کہ
وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ قُلۡاِنَّمَاالۡاٰیٰتُعِنۡدَاللّٰہِ وَاِنَّمَاۤاَنَانَذِیۡرٌمُّبِیۡنٌ
لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس کے اوپر کوئی نشانی نازل نہ ہوئی اس کے رب سے (تو ہم ایمان نہ لائیں گے)تو کہہ اے محمد نشانیا ں تو اللہ کے پاس ہیں میں تو ایک نصیحت کرنے والا ہوں ۔
اس آیت میں بھی محمد صاحب نے معجزہ دیکھا نے سے گریز کیا اور درخواستکار ان کو جواب شافی نہ دیا ۔پھر(سورہ انعام آیت ۱۰۹) میں لکھا ہے کہ
وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَتۡہُمۡ اٰیَۃٌ لَّیُؤۡمِنُنَّ بِہَا قُلۡاِنَّمَاالۡاٰیٰتُعِنۡدَ اللّٰہِ وَ مَا یُشۡعِرُکُمۡ اَنَّہَاۤ اِذَا جَآءَتۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ
قسم کھائی ہے کہ اگر کوئی معجزہ دیکھیں تو ایمان لائیں گے کہہ تو اے محمد کہ معجزے اللہ کے پاس ہیں اور تم نہیں جانتے ہو اگر معجزہ ہوگا تب بھی وہ ایمان نہ لائیں گے ۔
اس آیت سے بالکل مجبوری پائی جاتی ہے کیونکہ کفار عرب نے عہد باندھا تھا کہ اگر کوئی معجزہ محمد صاحب کا دیکھ لیں تو ایمان لائیں مگر اس وقت بھی یہی جواب دیا کہ معجزے اللہ کے پاس ہیں میں مجبور ہوں ۔اسی سورہ میں یعنی (سورہ انعام آیت۵۷۔۵۸) میں لکھا ہے ۔
مَا عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ اِنِالۡحُکۡمُاِلَّالِلّٰہِ یَقُصُّالۡحَقَّوَہُوَخَیۡرُالۡفٰصِلِیۡنَ قُلۡ لَّوۡ اَنَّ عِنۡدِیۡ مَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ بِہٖ لَقُضِیَ الۡاَمۡرُ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ
میرے پاس وہ چیز جس کی تم جلدی کرتے ہو نہیں ہے تحقیق حکم اللہ کی طرف سے ہے اور وہی حق کو ظاہر کرئے گا اور وہ سب حاکموں سے بہتر اور برتر ہے کہہ تو اے محمد وہ چیز جسے تم چاہتے ہوجلد ہوجائے اگر میرے پاس ہوتا تو میرا اور تمہارا جھگڑا فیصل ہوجاتا ۔
اس آیت میں محمد صاحب نے اپنے معجزے دیکھانے سے قطعی انکار کیا اور اپنی مجبوری بیان کی ہے کہ تم جو چیز مانگتے ہو میرے پاس نہیں اگر ہوتی تو میرے اور تمہارے فیصلہ ہوجاتا ۔ان آیتوں میں تو محمد صاحب نے معجزہ سے بالکل مجبوری اور معذوری بیان کی ہے مگر نہ معلوم مولوی لوگ کیوں اثبات معجزہ میں کوشش کرتے ہیں اور مدعی سست وگواہ چست (صاحب غرض تو سستی برتے اور حمایتی جوش وگرمی کا اظہار کریں)کی مثل اپنے اوپر صادق کرتے ہیں ۔
علاوہ ازیں اور بھی بہت سی قرآنی آئتیں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ محمد صاحب نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا چونکہ ہمارے مدعائے کے ثابت کرنے کویہی آئتیں کافی تھیں بدیں سبب ان سب کا لکھنا طوالت سمجھا گیا۔
شائد اس مقام پر کوئی کہے کہ خداوند مسیح نے بھی (متی ۱۲: ۳۸۔۳۹)میں معجزہ دیکھانے سے انکار کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خداوند نے معجزہ دکھانے کا وعدہ کیا کہ روز اول سے آج تک نہ کسی نے دکھایا اور نہ دکھا سکتا ہے اور نہ کوئی جادو وغیرہ کا احتمال ہوسکتا ہے یعنی تیسرے دن مرکر جی اُٹھنا۔ چنانچہ اس وعدہ کے موافق مسیح مرا اور دفن ہوا اور تیسرے دن جی اُٹھا دیکھو آخر باب ہر چہاراناجیل مقدس۔
اب رہی پیش گوئی سو قرآن میں کوئی پیش گوئی بھی مذکور نہیں ہوئی ہاں دوایک آئتیں میں جن کو مولوی لوگ پیش گوئی قرار دیتے ہیں لیکن یہ ان کی زبردستی ہوموقعہ بینی کو پیش گوئی بتاتے ہیں اگرایسی باتیں پیش گوئی مانی جائیں تو بموجب اس شرط کے ہر شخص نبی ہوجائے گا خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو ۔ چنانچہ معاملہ روم وروس میں ہر شخص اپنی اپنی عقل کے موافق نتیجہ بیان کرتا تھا اور آخر کو بہتوں کی رائے کی موافق ہوا تو کیا وہ نبی ہوگئے تو بہ توبہ اسی طرح وہ آئتیں ہیں جن کو مولوی صاحبان پیش گوئی ٹھہر ا رہے ہیں چنانچہ نمونہ کے طور پر ایک آیت ہدیہ ناظرین کرتے ہیں (سورہ روم آیت ۱۔۴)
الٓـمّٓ غُلِبَتِ الرُّوۡمُ فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ ۬
مغلوب ہوگئے ہیں رومی بیچ بہت نزدیک زمین کے یعنی شا م کے اور وہ پیچھے مغلوب ہونے اپنے کے شتاب غالب آئیں گے بیچ کئی ایک برس کے انتہیٰ
اس آیت کی حقیقت یہ ہے کہ خسرو پرویز بادشاہ ایران نے شاہ روم کو شکست دے کر شام کا ملک چھین لیا تھا اس پر محمد صاحب نے اپنے یاروں میں اپنی رائے بیان کی اگرچہ اس وقت روم مغلوب ہوگیا مگر وہ زبردست ہیں دوچار برس میں پھر فتحیاب ہوں گے کیونکہ ایران بمقابلہ روم کسی وقت میں کمزور نہ تھا اور یہ شکست اتفاقی ہے مورخوں کو خوب معلوم ہے ۔
اب ناظرین ہی کے ہاتھ انصاف ہے کہ ایسی باتیں کیونکہ پیش گوئی ہوسکتی ہیں جن صاحبوں کو پیش گویوں کی زیادہ تحقیات منظور ہوپادری عمادالدین صاحب لاہز کی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں ۔مجھ کو اس پر چہ اخبار میں زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں ایک دو باتیں بطور نمونہ کے لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں دوسری شرط عمدہ تعلیم ہے کہ انبیائے ماسبق کے خلاف نہ ہو۔
وہ بھی دیکھے کہ کیا عجیب وغریب تعلیم ہے جس کو سن کر کیسا ہی بیوقوف کیوں نہ ہو صاف کہہ دے گا کہ یہ تعلیم خدا کی طرف سے ہونا کیا معنی انسان بھی ایسی ناقص تعلیم نہیں دے سکتا اور وہ یہ ہے کہ جناب آنرایبل سید احمد خاں صاحب سی۔ایس۔ای ۔بھی بھی بڑے ناز وافتخار سے اپنی تصانیف میں تحریرفرماتے ہیں ۔
صحیح بخاری بَابُ الثِّيَابِ الْبِيضِ
حدیث نمبر:۵۸۲۷
حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، عن عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، حدثه، ان ابا الاسود الدؤلي، حدثه ان ابا ذر رضي الله عنه حدثه، قال اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثوب ابيض، وهو نائم، ثم اتيته وقد استيقظ، فقال “ما من عبد قال لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة”، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال: “وإن زنى وإن سرق”، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال “وإن زنى وإن سرق”، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال: “وإن زنى وإن سرق”، على رغم انف ابي ذر، وكان ابو ذر إذا حدث بهذا، قال وإن رغم انف ابي ذر، قال ابو عبد الله: هذا عند الموت او قبله، إذا تاب وندم، وقاللا إله إلا الله غفر له۔
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے، ان سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا، ان سے ابو اسود دیلی نے بیان کیا اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندہ نے بھی کلمہ (لا إله إلا الله)اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںکو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا چاہے اس زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ابوذر کے على رغم (وإن رغم أنف أبي ذر) ضرور بیان کرتے۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا یہ صورت کہ (صرف کلمہ سے جنت میں داخل ہو گا) یہ اس وقت ہو گی جب موت کے وقت یا اس سے پہلے (گناہوں سے) توبہ کی اور کہا کہ «لا إله إلا الله» اس کی مغفرت ہو جائے گی۔
کہا محمدصاحب نے کہ جو کوئی کہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ بہشت میں داخل ہوگا اگرچہ وہ زانی اور چور بھی ہو ابی ذر کے ناک پر خاک ڈال کر بھی بہشت میں داخل ہوگا۔
اب دیکھئے کیا عمدہ تعلیم خدا پرستی کی ہے کہ چاہے زنا کرے خواہ چوری کرے مگر یہ کہے کہ سوائے خدا کے اور کوئی معبود نہیں ضرور جنت میں داخل ہوگا۔یہاں پر مجھ کو کہنا روا ہے کہ یہ بہشت بھی وہی بہشت ہے جس میں حوروقصور وغلمان کا ہونا مذکور ہوا ہے اور جہاں پر شراب کےدور اور کباب کی گزک (وہ چیز جو نشہ پیتے وقت منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کھائیں )اُڑانے کا مزہ ہے نہ وہ بہشت جس کا ذکر موسیٰ نے کیا اور اور انبیاء نے جس کی خبردی کیونکہ ناپاک اور زانی بدکاروں کا وہاں کیا کام وہ پاک اور مقدس لوگ جو حکموں پر عمل کرتے ہیں اور سوائے اپنے حق کے دوسرے کے حق میں لالچ کی نظر بھی نہیں کرتے اور زنا کار وہاں کیونکہ داخل ہوسکتا ہے۔ خدا وند تعالیٰ نے کوہ سینا پر جب موسیٰ کو دس احکام فرمائے تو ان میں بھی یہی حکم مندرج تھے کہ زنا نہ کر اور پڑوسی کی کسی چیز کا لالچ نہ کر پھر خداوند مسیح نے بھی یہی فرمایا کہ تو زنا نہ کر تو چوری نہ کر جب نئے اور پرانے دونوں عہد ناموں میں زنا بری اور گھنونی چیز ہے تو اس کا عامل کیونکہ کر جنت میں داخل ہوسکتا ہے ۔شاید محمدیوں کے نزدیک بہشت گھر کا آنگن ہے جب چاہا جا بیٹھے ناظرین بلا تعصب وطرف داری و بلاشبہ انانیت ونفسانیت ملاحظہ فرمائیں کہ کیا یہ باتیں نبوت کی دلیل ہوسکتی ہیں ۔