The Reply to the Objection on the Atonement
By
Nasir
ناصر
Published in Nur-i-Afshan October 31, 1886
نور افشاں مطبوعہ ۳۱۔اکتوبر۱۸۸۶
عموماًمسیحی مذہب کے خلاف یہہ اعتراض پیش کیاجاتاہے کہ چونکہ مسیح گناہوں کفارہ ہوااس لئے مسیحیوں کوگناہ کرنے کی اجازت مل گئی ہے ۔یایوں کہیں کہ مسیحی جس قدر گناہ چاہےکریں۔ مسیح کے کفارہ کے سبب بخشے جائیں گے ۔ایسے معترض بائبل کے اصول سے ناواقف ہونے کے باعث غلطی کرتے ہیں ۔واضح ہوکوکوئی اعتراض مسیحی مذہب کے خلاف نیا نہیں ۔ابتدائے تواریخ میں مخالفوں نے وہ سخت اعتراض کئے ہیں کہ آج کل کے بڑے بڑے نکتہ چنیوں کے خیال میں بھی نہیں آئے۔اس پر بھی اِس زمانہ کے بعض کوتاہ بین (تنگ نظر)پُرانے مُردے اُکھاڑتے اوران کو نئے لباس میں پیش کرنے پراکڑتے ہیں ۔مسیحی مذہب کے خلاف چند سُنے سُنائے اعتراض کرکے جُھلاکے سامنے اپنی لیاقت کانقارہ بجاتے (ڈھول پیٹنا،اعلان کرنا) ہیں۔مذکور بالااعتراض بھی انہی قدیم اعتراضوں میں سے ہے ۔چنانچہ پولوس حواری شہرروماکے مسیحیوں کی طرف خط میں بھی سوال دوسرے الفاظ میں یوں اداکرتاہے کہ’’ کیاہم گناہ کریں ۔اس لئے کہ ہم شریعت کے اختیار میں نہیں بلکہ فضل کے اختیارمیں ہیں ‘‘۔اوراس اعتراض کاجواب بھی رسول مذکور نے اسی باب میں تحریر کیاہے ۔جوچاہے رومیوں کے نام کے خط کاچھٹا باب غور سے پڑھ کر دیکھے ۔
اس اعتراض سے یہ ثابت ہوتاہے کہ معترض (اعتراض کرنے والا)خود نہیں سمجھتاکہ کیااعتراض کررہا ہے کیونکہ جوشخص گناہ کی نجاست سے ناواقف اورگناہوں کی مغفرت کی نسبت انتظام ایزدی(زیادتی) کاعلم نہیں رکھتاوہی اس قسم کے کلمات زبان پر لائے گا۔شاید بے جانہ ہوگاکہ ایسوں کی خاطر یہاں چندالفاظ اس تعلق کی نسبت لکھے جائیں جو مسیحی کامسیح کے ساتھ ہوتاہے ۔لیکن یادرہے کہ یہ معاملات روحانی عالم سے متعلق ہیں اوران لوگوں کی سمجھ میں ہزگز نہیں آسکتے جودیدنی اشیا کے حلقہ کے باہر نگاہ نہیں دوڑاسکتے ۔ایسوں کے سامنے روحانی عالم کی باتیں بیوقوفیاں ہیں ۔دُنیا میں ہرایک اس اصول کو تسلیم کرے گاکہ اچھا درخت اچھے پھل لاتااوربرا درخت برے پھل لاسکتاہے یادوسرے الفاظ میں اگر سرمیں ضعیف ہوتوسارا جسم ضعیف ہوگا۔اس خیال کو مدِنظر رکھ کر ذرا آگے چلیں۔ جب آدم دل جوتمام خلقت کاسرتھاخداکی نافرمانی سے گنہگار ٹھہراتواس کے باعث اس کی نسل اوراس کے تما متعلقین پرایک قسم کاضعف طاری ہوگیا۔زمین آدم کے سبب ملعون ہوگئی۔بنی آدم کابگاڑدیکھنے کے لئے بہت غوروفکر کی ضرورت نہیں یہ اظہرمن شمس(روز ِروشن کی طرح عیاں ) ہے ۔اگریہہ ممکن ہوکہ ہم آدم اوّل سے تعلق رکھ کرگنہگار توکیایہ ناممکن ہے کہ کسی ایسے آدم ِثانی سے متعلق ہوکرجو کامل راستباہوہم راستباز ٹھہریں ۔کیاناممکن ہے کہ’’ جیساایک خطا کے وسیلہ سب آدمیوں پر سزا کا حکم ہوا ویسا ہی ایک راستبازی کے وسیلہ سب آدمی راست باز ٹھہرکے زندگی پاوئیں کیونکہ جیسے ایک شخص کی نافرمانبرداری کے وسیلہ بہت لوگ گنہگارٹھہرے ویسے ہی ایک فرمانبرداری کے وسیلہ بہت لوگ راست باز ٹھہرئیں گے‘‘ (رومیوں۵ :۱۸۔۱۹)۔
جیسا کہ جسمانی عالم میں پیدائش ہے ویساہی روحانی عالم میں بھی ہے ۔جس کو روح القدس سے سرِنو پیداہونا کہاگیاہے۔ جیسابچہ کاپیدا ہونا کوئی علم ِالہٰی کامسئلہ نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے۔ویسا ہی سرِنو پیدا ہونا بھی کوئی علمِ الہٰی کامسئلہ یابحث طلب امر نہیں ہے ۔اِس نوپیدا ئش سے انسان ایک ایسے بدن کا عضوبن جاتاہے جس کا مسیح ہے ۔زندگی حرکات کس میں نمایاں ہوتی ہے ۔اس تعلق کو ہمارے خداوند نے دوسرے الفاظ میں انگور کی مثال سے ادا کیا۔چنانچہ وہ فرماتاہے کہ ’’ انگور کادرخت میں ہوں ۔تم ڈالیاں ہو۔وہ جومجھ میں قائم ہوتا ہے اورمیں ا ُس میں وہی بہت میوہ لاتاہے کیونکہ مجھ سے جدا تم کچھ نہیں کرسکتے‘‘ ۔غرض انسان مسیح میں پیوند ہوکرنئی زندگی حاصل کرتاہے ۔وہی اس جوجڑ میں ہے شاخ میں بھی دوران کرتاہے ۔اورپھر جیساکہ شاخ کومیوہ لانے کے لئے کسی قسم کی کوشش نہیں کرنی پڑتی بلکہ درخت میں قائم رہناہی شرط ہے ۔ویسا ہی انسان اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کر کے ایمان سے اس میں قائم رہ کر بہت پھل لاتاہے ۔پر پھل وہی ہیں جن کو عموماًنیکیاں کہتے ہیں ۔اور جن کو پولوس اصل روح کاپھل کہتاہے چنانچہ وہ فرماتاہے کہ’’ روح کاپھل جوہے سو محبت، خوشی ،سلامتی، صبر، خیرخواہی ،نیکی، ایمانداری ،فروتنی، پرہیز گاری ہے‘‘ ۔
حاصل کلام جوں جوں انسان مسیح میں شامل ہوتاجاتاہے اسی قدر اس کی خواہش یاخوشی گناہ میں نہیں ہوتی ۔مسیح نے نہ فقظ ہمارے گذشتہ گناہوں کی معافی کے لئے کفارہ دیاہے بلکہ جو شخص ایمان کے ذریعہ اپنے تئیں اس کے تابع کردیتاہے آیندہ کے لئے گناہ کے اختیار سے بھی رہائی پاتاہے ۔چنانچہ لکھاہے کہ ’’تم گناہ سے چھوٹ کررا ستبازی کے غلام بنے‘‘ ۔تم آپ کو گناہ کی نسبت مُردہ پرخداکی نسبت ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ زندہ سمجھو‘‘۔اور کہ’’ گناہ تمہارے فانی جسم پرسلطنت نہ کرے‘‘ ۔اب اس صداقت کے سامنے وہ اعتراض کہاں رہا۔اس عجیب روشنی کے سامنے اس کی پیچیدگی حل ہوگئی ۔
عزیزقارئین !یہ مبارک تجر بہ میرے اورآپ لئے ہے اورخدا اپنی برکتیں مفت دیتاہے ۔دیکھواب قبولیت کاوقت ہے دیکھو اب نجات کادن ہے ۔