مسیح کی الوہیت پر اعتراض کا جواب

Eastern View of Jerusalem

The Objection on Deity of Christ

By

Akbar Masih

اکبر مسیح

Published in Nur-i-Afshan November 02, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۲نومبر ۱۸۸۴ ء

ایک محمدی ملقب شور یوں تحریر فرماتے ہیں کہ

عیسائی اپنی نادانی سے مسیح کو خدا کہتے ہیں حالانکہ انجیل سے آدم زاد پر بھی ان کی فضیلت ثابت نہیں پھر فرشتوں کا کیا ذکر ،چنانچہ (متی ۱۱: ۱۱ ) میں مسیح یوں اقرار کرتے ہیں کہ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو عورتوں سے پیدا ہوئے یوحنا بپتسمہ دینے  والے سے کوئی بڑا ظاہر نہیں ہوا ۔اگر مرد کی قید ہوتی تو مسیح مستثنیٰ ہوجاتے مگر اب تو عورت کی قید ہے جس میں مسیح بھی شامل ہیں کیونکہ وہ بے باپ مریم سے پیدا ہوئے اس لئے یوحنا کو مسیح پر بھی فوقیت ہے۔ بس اس حال میں جب ان کی انسانیت بھی کامل نہ  ٹھہری تو ان کی الوہیت کا کیا ٹھکانا اسی واسطے حضرت مسیح کی تعلیم اکثر ناقص اور تکمیل طلب تھی جس کی تکمیل قرآن مجید نے کر دی آئینہ اسلام نے یہ امر بخوبی ثابت کر دیا ۔

شور صاحب تو عیسائیوں کی نادانی ثابت کرتے ہیں لیکن دیکھنا چاہئے کہ کیا لکھا ہے ۔

انجیل مسیح کو خدا ئے مجسم بتلاتی ہے پھر فرشتے کیونکر اس کے مقابل آسکتے ہیں

اول ۔تو اسی باب (متی ۱۱: ۱۱ )میں یوں لکھا ہے ’’لیکن جو آسمان کی بادشاہت میں چھوٹا ہے وہ اس (یوحنا )سے بڑا ہے ‘‘۔پھر (مرقس۹: ۴۵) میں ہے۔اگرکوئی چاہئے کہ پہلے درجہ کا ہو وہ سب میں پچھلا اور سب کا خادم ہوگا مگر اس کامل خاکساری اور حلیمی کی صفت سوائے مسیح کے اور کسی میں نہیں مل سکتی وہ کہتا ہے میں حلیم اور دل سے خاکسار ہوں ( متی ۱۱ : ۲۹ )۔ ’’ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ خدمت کرے‘‘ ( متی ۲۰ : ۲ )۔ اس نے اس درجہ تک خاکساری اختیار کی کہ اپنے شاگردوں کے پیر دھوئے اور انکو پونچھا (یوحنا ۱۳ باب ) ۔اس نے خدا کی صورت میں ہونے خدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا لیکن اس نے آپ کو نیچ کیا اور خادم کی صورت پکڑی اور انسان کی شکل بنا اور آدمی کی صورت میں ظاہر ہو کے اپنے آپ کو پست کیا اور مرنے تک بلکہ صلیبی موت تک فرمانبردار رہا ( فلپیوں ۲: ۷۔۸ ) ۔پس مسیح ایسی صفت سے موصوف ہو کر یوحنا سے جو تمام جہاں سے افضل ہے بڑا اور بزرگ ٹھہرا۔

دوم۔  اسی باب کی آیت ۱۰ میں مسیح یوحنا کی نسبت کہتا ہے کہ ’’یہ وہ ہے جس کی بابت لکھا ہے کہ دیکھو میں اپنا رسول تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیرے آگے تیری راہ درست کرے گا ‘‘یہاں یوحنا مسیح کے آگے راہ درست کرنے والا ٹھہرا۔ پس بتلایئے کہ کون افضل ہے آیا وہ جو راہ صاف کرتا ہے یا وہ جلال کا بادشاہ جس کی آمد کے لئے ایسا جلیل القدر راہ صاف کرے اور کون بڑا ہے وہ جو کھانے بیٹھا یا وہ جو خدمت کرتا ہے کیا وہ نہیں جو کھانے بیٹھا ہے۔

سوئم ۔اس نے یعنی مسیح نے تو درحقیقت یوحنا اصطباغی کو سب انبیا و رسل سے افضل و اعلیٰ بتلایا مگر یوحنا باوجود اس عظمت و شرف کے جو اس کو کل آدم زاد پر حاصل ہے یہ گواہی دیتا ہے یہ مسیح وہی ہے جس کا ذکر میں کرتا تھا کہ ’’وہ جو میرے پیچھے آنے والا ہے مجھ سے مقدم ہے کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا اور اس کی بھرپوری سے ہم سب نے پایا بلکہ فضل پر فضل جس کے جوتے کا تسمہ بھی میں کھولنے کے لائق نہیں‘‘( یوحنا باب اول )۔اب بتلایئے کہ یوحنا جو تمام آدم زاد سے بڑا ٹھہرنے پر بھی اپنے آپ کو مسیح کے جوتے کا تسمہ کھولنے کے لائق نہ سمجھے وہ مسیح سے بڑا کیونکر ٹھہر سکتا ہے نہ معلوم یوحنا کو مسیح سے افضل بتلانا کس منطق کے موافق ہے شاید آپ نے انجیل نہیں دیکھی۔

انجیل مسیح کو خدا ئے مجسم بتلاتی ہے پھر فرشتے کیونکر اس کے مقابل آسکتے ہیں وہ تو اس کی مخلوق اور اس کے مقدس ہاتھ کی کاریگری ہیں۔’’کیونکہ سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں اور کوئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اس کے ہوئی‘‘ (یوحنا ۱: ۲ ) ۔وہ تو اس (خدا) کے جلال کی رونق اور اس کی ماہیت کا نقش ہو کےسب کچھ اپنی ہی قدرت کی کلام سے سنبھالتا ہے وہ فرشتوں سے اس قدر برتر ٹھہراجس قدر اس نے میراث میں ان کی نسبت بہتر خطاب پایا اس نے فرشتوں میں سے کب کبھی کہا کہ تو میرا بیٹا ہے ۔میں آج تیرا باپ ہوا وہ فرشتوں کی بابت یوں فرماتا ہے کہ’’ وہ اپنے  فرشتوں کو روحیں اور اپنے خادموں کو آگ کے شعلہ بتاتا ہے ۔مگر بیٹے کی بابت کہتا ہے اے خدا تیراتحت ابدالآباد رہے گا اور تیری بادشاہی کا عصا راستی کا عصا ہے ۔ لیکن اس نے فرشتوں میں سے کسی کے بارے میں کب کہا کہ تو میری دہنی طرف بیٹھ‘‘ ( عبرانیوں ۱ با ب) ۔اے شور صاحب مسیح کی عظمت و منزلت کو دریافت کرو۔

پھر انجیل کی تعلیم کو آپ کا یا مؤلف آئینہ اسلام کا تکمیل طلب اور قرآن کو ان کا مکمل کہنا تمسخر اور مضحکہ ہے ۔جس نے انجیل کو بغور مطالعہ کیا ہوگا وہ ایسا بے معنی کلام ہرگز نہ نکالے گا ۔اس کتاب کو میں نے بھی دیکھا ہے اس کے مؤلف نے محض دنیا سازی کر کے روپیہ کمانے کی تدبیر نکالی ہے ۔ اور اس کا وہ لمبا چوڑا نام تکمیل الادیان بالا حکام القرآن کچھ اس گپ سے کم نہیں ہے جیسا کہ امام دہلی کا معیار کی نسبت یہ لکھنا کہ اس کتاب سے تمام جہاں کے پادری ہا ر جاتے ہیں۔

میں نے اس آئینہ اسلام کا جواب لکھا ہے ’’افشاں اللہ ‘‘جلد ہدیہ احباب کروں گا مگر آپ کیونکر اس کتاب کی رو سے قرآن کو مکمل انجیل کہتے ہیں ۔

انجیل تو الہٰام الہٰی ہے اور قرآن الہٰام دجالی(سچائی کو چھپانے والا،مخالف ِمسیح۔روایت کے مطابق ایک جھوٹا شخص جو اخیر زمانہ میں پیدا ہوگا۔مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح اسے قتل کریں گے۔) کیونکہ مؤلف آئینہ اسلام محمد صاحب کو جہاں کا سردا ر ٹھہراتے ہیں جس کی نسبت مسیح نے پیش گوئی کی تھی ۔انجیل جہان کا سردار  لقب شیطان لعین (لعنتی )کو بتلاتی ہے ۔بس اس کی تعلیم الہٰی تعلیم کی کیوں کر مکمل ٹھہر سکے گی۔ شور صاحب آپ کا شور مچانا عبث ہے ۔

Leave a Comment