National Unity
By
G.L.Thakkur Dass
جی ایل ٹھاکرداس
Published in Nur-i-Afshan December 01, 1887
نور افشاں مطبوعہ یکم دسمبر ۱۸۸۷ء
اگرچہ کُل آدم زاد ایک ہی قوم ہیں تاہم دنیا میں کئی وجوہات سے اس ایک قوم کی کئی ایک قومیں بن گئی ہیں ۔یعنی خدا جدا گروہ ایسے ہوگئے ہیں کہ اس جدائی کی بنا کسی نہ کسی خصوصیت پر قائم ہوئی ہے ۔لیکن اصلی خصوصیت جو سب میں مشترک (ایک جیسی)ہے وہی ایک کو دوسرے سے جدا کرنے والی رہی ہے ۔یعنی خاندانی محبت جس کو خاندانی خودغرضی کہنا صحیح ہوگا ۔یہ نسلی غرور ایک خاندان کو دوسرے سے جدا رکھتا ہے۔ ایک جوڑے سے ایک خاندان ہوگیا اور ایک خاندان بڑھ کر ایک فرقہ یا چھوٹی قوم بن جاتی ہے جو ویسی ہی دیگر قوموں یا خاندانوں کو فقط غیر نسل ہونے کے سبب سے نگاہ نفرت سے دیکھتی ہے ۔ایسا گروہ اپنے ہی نفع کا خیال رکھتا ہے اور اس بات کے لیے دوسرے گروہوں کو مغلوب کرنے کے درپےہو جاتا ہے اور اس طرح یہ جدائی تحصیل حکومت کا موجب ہوجاتی ہے ۔جیسا ڈاکٹر پیلی صاحب اپنی پولٹیکل فلاسفی (کتاب باب ۱) میں لکھتے ہیں کہ
’’ والدینی حکومت اور خانگی زندگی کی ترتیب ملکی حکومت کی بنیا د ہے ۔خاندان میں بادشاہت کے ابتدائی اصول میں اکثر ملکوں میں سوسائٹی کی قدیم حالت اور دنیا کے بعض جاہل حصوں کی موجود ہ حالت ملکی حکومت کے اس آغاز کو واضح کرتی ہے ۔پلٹائن ،یونان ،اٹلی ،گال ،برٹین کی ا ولین تواریخیں بتلاتی ہیں کہ یہ ملک بہت سی چھوٹی چھوٹی آزاد قوموں کے قبضہ میں تھے جو ان قوموں کے موافق تھیں جو شمالی امریکہ اور افریکہ کے کنارے کے وحشی باشندوں میں پائی جاتی ہیں ۔(انتہی )‘‘
قطع نظر اس کے اگر زمانہ حال میں بھی ہم غور کریں تو یہی سبب ہے جس نے سب قوموں کو جدا جدا کر رکھا ہے ۔چنا نچہ یورپ کی قومیں اگرچہ مسیحی مذہب کی پیرو کہلاتی ہیں ۔ہم اس نسلی قومیت کا لحاظ سب کو جدا کئے ہوئے ہے اور ہمارے ملک ہندوستان کی کیا بات ہے۔ یہاں نہ مذہب ایک اور نہ قوم ایک ہے بلکہ قدیم سے مذہبی اورنسلی مخالفت چلی آتی ہے ۔قدیم آریوں نے جو باہر سے اس ملک میں آئے تھے اسی سبب سے یہاں کے اصلی باشندوں سے ناسازی قائم رکھی تھی ۔اس سے ظاہر ہے کہ نسل اور نسلی یاخاندانی غرور اور خود غرض مختلف قومیں بنا نے کے قومی سبب رہے ہیں اور لفظو ں میں یوں کہیں کہ نسلی خود غرضی قومیت کے اختلاف کی بنا ہے ایک قوم کو کئی قوموں میں تقسیم کرنے والی ہے ۔لہٰذا یہ قوم بنانے کا بڑ اذریعہ نہیں ہوسکتی ۔ اس حال میں یہ بات معلوم کرنی چاہئے کہ وہ کیا چیز ہے جو کسی قوم میں قومی یگانگت کوقائم رکھنے والی ہے ۔
پس معلوم ہو کہ اصل موجب قومیت یاقومی یگانگت کل دنیا کے لوگوں کو ایک قوم بنا سکتی ہے ۔اس میں بھی جدائی کی گنجائش ہے ۔مگر ویسی نہیں جیسی نسل میں ہے ۔کیونکہ یہ مذہب ہی ہے ۔جو کئی خاندانوں یا گروہوں کو جو نسلاً جدا ہوں ایک ہی قوم قائم رکھتا رہا ہے ۔علامہ پروفیسر میکس ملر صاحب لکھتے ہیں کہ
’’ زباں اور مذہب قومیت کی ترکیب کے اجزا ہیں ۔لیکن زبان کی نسبت مذہب زیادہ ترقومی وسیلہ ہے ۔شمالی امریکہ کے بہتیرے اصلی باشندوں کی زبانیں ایک ہی نمونہ کی مختلف قسمیں ہیں ۔لیکن وہ جو یہ بولیا ں بولتے تھے کبھی ایک ہی قومیت میں شریک نہیں ہوئے ۔وہ فرقے یا آوارہ گرد گروہ ہے ۔اور غیرملک کے حملہ آوروں کی طرف ان کی مخالفت نے ان میں قومی یگانگت کا خیال پیدا نہ کیا ۔کیونکہ وہ لوگ یگانگی کے اعلیٰ خیال سے محرو م تھے جو ایک ہی خدا یا خداؤں کی پرستش سے اُٹھتا یا مضبوط ہوتا ہے ۔برخلاف اس کے یونانی جو مختلف بولیاں بولتے تھے (یعنی ای اولک ،ڈورک اور آئ اونک) وہ ہمیشہ اپنے تئیں ایک بڑی یونانی قوم سمجھتے تھے اور یہ اس حال میں بھی جب مختلف ظالم ان پر حکومت کرتے تھے یا وہ بہت سی خود مختار ریاستوں میں بٹے ہوتے تھے ۔پس وہ کیا تھا جس نے ان کی بولیوں کے برخلاف اور ان کے خاندانوں کے برخلاف اور نیز قوم کے جھگڑوں کے برخلاف اس یگانگت کو قائم رکھا جس سے قوم بنتی ہے ۔وہ ان کا ابتدائی مذہب تھا ۔یعنی ڈویوونا کے پُرانے زیوس پر ان کا ایمان اس بات کی زباں کی بانسبت مذہب قومیت کا زیادہ بنیاد ڈالنے والا ہے ‘‘۔
شاید سب سے واضح تصدیق یہودیوں کی تواریخ میں پائی جاتی ہے جو خدا کی برگذیدہ قوم تھی ۔یہودیوں کی زبان فنیقیوں اور موابیوں اور دیگر گرد ونواح کی قوموں کی زبانوں سے اس کی بہ نسبت کم فرق رکھتی تھی جو یونانی بولیاں باہم رکھتی تھیں ۔لیکن یہوواہ کی قوم بنایا جو موابیوں اور بعل اور استارات (عستارات) کے پجاریوں سے اپنے خدا کے سبب جدا تھی ۔یہوواہ پر ان کے ایمان نے اسرائیل کے آوارہ فرقوں کو ایک قوم میں تبدیل کردیا ۔ پروفیسر صاحب نے مذہب کی اس خوبی کو تفصیل کے ساتھ ثابت کیا ہے (دیکھو سائنس آف رلیجس لکچر نمبر ۳) ۔
اب میرے اہل وطن اس بات کا خیال کریں کہ جب مذہب میں یہ خوبی اور زور ہے کہ مختلف اور مخالف گروہوں کو ایک قوم بنادے ۔تو اگر مذہب میں اختلاف ہوتو پھر کیا کیا جائے ۔ہمارے ایک ملک میں انیک(جو گنا نہ جاسکے ،ان گنت) مذہب اور اس لیے جدا جدا قومیں ہیں ۔اگر ہم سب چاہتے ہیں کہ قومی یگانگت اور ازاں موجب قومی ہمدردی کو بڑھا دے تو پہلے اس کے موجب کی تلاش یاتجویز کریں اور صرف خشک اور خالی باتوں سے دل نہ بہلائیں۔ان دنوں ہمارا ملک تین بڑے گروہوں میں تقسیم ہورہا ہے ۔ہندووں ،محمد یوں اور عیسائیوں میں ۔اگر ہم نسلی لحاظ اور غرور کے سبب جو جدائیاں پڑ گئی ہیں ان کو دور کرنا چاہیں اور آرزو مند ہوں کہ قومی یگانگت اور باہمی محبت اور ہمدردی قائم ہوجائے تو اول سب مل کر اس مذہب کو اختیار کریں جس میں امر مطلوبہ حاصل کرنے کا جوہر ہو اور خواہ مخواہ اپنے یا کسی دوسرے مذہب کی پیچھا نہ کریں ۔
اس موقعہ پر صرف اتنا جتاناچاہتا ہوں کہ دین عیسوی اس امر کا متقاضی (تقاضہ کرنے والا)ہے کہ دنیا کی مختلف نسلیں (جو اصل میں ایک ہی نسل ہیں ) اور گروہ اور مذاہب ایک ہوجائیں اور اس عام یگانگت کا ذریعہ سے اپنے تئیں بتلاتا ہے اور یوں فقط اپنے تئیں ہی ایک عالمگیر مذہب قرار دیتا ہے ۔ یادرہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوتا جاتا ہے بموجب اس قول کے کہ’’ مسیح میں نہ یونانی ہے نہ یہودی نہ ختنہ ہے نہ نامختونی نہ بربری ہے نااسقوتی نہ غلام نہ آزاد پر مسیح سب کچھ اور سب میں ہے ‘‘(کلسیوں ۳: ۱۱)۔غرض کہ ہماری قومی یگانگت کا موجب مذہبی یگانگت ہی ہوسکتی ہے ۔اب آؤ پچھلی نسلی عداوتوں کو ترک کریں اور ترک کرنے کے لیے وہ وسیلہ اختیار کریں جو ہمیں یہ کامیابی حاصل کروائے۔