The Action of Goodness
Published in Nur-i-Afshan Oct 25, 1883
فعل کی نیکی
نور افشاں مطبوعہ ۳۰ اپریل ۱۸۸۵ء
ہر ایک پورے فعل میں چار حصے مشتمل ہیں ۔
۱۔ظاہری فعل مثلاً جب میں کسی کے ہاتھ میں روپیہ رکھ دیتا ہوں تو یہ میراظاہری فعل ہوا ۔
۲۔اس فعل کا خیال دل میں لانا۔
۳۔ اس فعل کو پورا کرنے کا ارادہ کرنا۔
۴۔نیت یا علت غائی اس فعل کی یعنی جس مطلب کے واسطے اس فعل کا ارادہ کیا گیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ فعل کے ان چاروں حصوں میں سے اس کی نیکی کونسے حصہ پر موقوف ہے ؟ظاہر ہے کہ فعل کی نیکی اس کی ظاہری صورت پر موقوف نہیں ہے کیونکہ ظاہری فعل دوآدمی کرسکتے ہیں لیکن ایک کی نسبت ہم نیکی وارد کرتے ہیں اور دوسرے کی نسبت نہیں کرتے ۔یہ بھی ثابت ہے کہ کسی فعل کی نیکی اس کا خیال دل میں لانے سے نہیں ہے نہ اس کے پورا کرنے کے ارادہ میں ہے کیونکہ کام کے کرنے کے ارادہ کی نیکی یا بدی اس کام کی نیکی یابدی پر موقوف ہے ۔ایک مثال سنو زید اور عمر دونوں نے بکر کو ایک ایک روپیہ دیا یہاں ظاہری فعل زید اور عمر کا مساوی اور یکساں ہے اس فعل کا خیال بھی دونوں کے دل میں یکساں آیا اور اس کے انجام پہنچانے کا ارادہ بھی دونوں نے برابر کیا ۔ان تینوں امور میں دونوں کا فعل برابر ہے لیکن جب معلوم ہوا کہ زیدنے بکر کو روپیہ اس نیت سے دیا کہ بکر اس روپیہ کو لے کر دوست کو قتل کرے اور عمر نے اس نیت سے دیا کہ اس کے ساتھ ایک تنگ دست بدحال آدمی کی مدد کرے یہ بات سنتے ہی ہم کہیں گے کہ زید کا فعل بد تھا اور عمر کانیک ۔یعنی ظاہری فعل کی نیکی یا بدی اس کے فاعل کی نیت پر موقوف ہے یہ بات مندرجہ ذیل کی باتوں پر خیال کرنے سے بھی ثابت ہوتی ہے ۔
۱۔ہمیشہ ہم اپنے آپ کو یا دوسرے کو عیبی یا بے عیب ٹھہراتے ہیں نیت پر لحاظ کرکے کام کے نتیجہ پر کچھ نظر نہیں کرتے نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ہم ایک آدمی کو قصور وار یا بے قصور بناتے ہیں فقط اس کی نیت کے سبب سے ۔
۲۔ہم ہمیشہ نیک عقل کے وسیلہ اور اس کے فاعل میں بھی فرق کرتے ہیں وسیلہ کے ہم اس قدر شکر گذار نہیں ہوتے جس قدر اس کے فاعل کے ہم سپاس دار(شکرگزار) ہوتے ہیں مطابق اس کی نیت کے ۔
نیت خراب کئی طرح ہوسکتی ہے ۔
۱۔جب ہم کسی دوسرے کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں بے رحمی حسد یا بدگوئی کرکے تو ہماری نیت خراب ہے اس مقام میں یہ یادر کھنا چاہیے کہ ہر ایک تکلیف دینے کی نیت میں وہی نہیں پائی جاتی تکلیف دینی عدالت یا نیکی کی راہ سے بھی ممکن ہے ۔جب حاکم مجر م کو سزا دیتا ہے تب وہ عدالت کی راہ سے دیتا ہے ۔مدعی کے حق کو قائم کرنے کو دیتا ہے اور مجر م اور سوسائٹی کے فائدے کے لیے اس لیے ان تینوں لفظوں میں ہمیشہ امتیاز کرنی چاہیے ۔دکھ دینا اور نقصان پہنچانا اور سزا دینی دکھ دینے کے فعل میں کوئی اصلی صفت نہیں ہے یہ فعل نیک یا بد اپنے فاعل کی نیت سے ہوا کرتا ہے ۔اگر فاعل اس سے کسی کا نقصان کرے تو بد ہوتا ہے اور اگر فائدہ پہنچانے کی نیت سے کرے جیسا سزا دینے میں تو وہ فعل نیک ہوگا اگرچہ اس سے کسی کو دکھ بھی پہنچے ۔
۲۔نیت ہماری تب خراب ہے جب ہم اپنی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں دوسرے کے آرام یا عزت یا خوشی کے برخلاف مثلاً جب ہم کسی عورت کو بہکائیں بدکاری کی غرض سے یا کسی پڑوسی سے لڑیں اپنا کسی فائدہ کو ۔ہر ایک آدمی پر فرض ہے کہ اپنی جسمانی خواہشوں کو روکے تاکہ ان کے وسیلہ سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے ۔اگر نقصان پہنچتا ہو تو ان کے پورا کرنے میں بدی ہے ۔خالق نے کسی کو اختیار نہیں دیا کہ وہ اپناآرام دوسرے کی بے آرامی سے حاصل کرے ۔
۳۔اس واسطے کہ نیت کی نیکی یابدی سے فعل کی نیکی یابدی ہے ہم اپنی نیت کے سبب سے قصور وار یا بے قصور میں کوئی فعل ہمارے ظہور میں آئیں یا نہ آئیں ۔اس واسطے خدانے داؤد کو ہیکل بنا نے کا ثواب دیا اگرچہ اس نے ہیکل نہیں بنائی صرف اس کے دلی ارادہ پراور اس واسطے مسیح نے فرمایا ہے کہ ’’اگر تم اپنے بھائی سے بے سبب غصے ہوتو تم خونی ہوچکے ۔پھر جو کوئی کسی عورت پر شہوت سے نگاہ کرے وہ اپنے دل میں اس سے زنا کرچکا‘‘۔
۴۔ اس واسطے کہ نیکی یابدی کسی فعل کی اس کے فاعل کی نیت پر موقوف ہے ظاہری نیک فعل کرنے سے فاعل نیک اور ٹھہرتا مثلاً لڑکوں پر فرض ہے کہ ماں باپ کی فرمانبرداری کریں محبت اور شکرگذاری کی نیت سے لیکن اگر کوئی لڑکا اپنے ماں باپ سے ڈرے اور ان کی فرمانبرداری کرے اس خیال سے کہ وہ اپنے جیتے جی مجھ پر مہربان رہیں گے اور بعد مرجانے کے مجھے میراث ملے گی تو اس کی فرمانبرداری میں کچھ نیکی اور ثواب نہیں ۔پس ثابت ہواکہ ہر ایک فعل میں نیت اصل اور مقدم ہے اسی سے ہم نیک یا بد ٹھہرتے ہیں اور سزاجزا کے لایق بنتے ہیں سو مناسب ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی نیت کو مصفا(پاک ،صاف)رکھیں صورت فعل پر چنداں (کچھ)نظر نہ کریں جیسا اس کی نیت جو کچھ ہم کریں سب نیک نیتی سے کریں ۔علاوہ اس کے یہ بھی ظاہر ہے کہ ہماری اخلاقی طبیعت اور اشتیاقوں کی طر ح پر ہماری فکروں سے متاثر ہوتی ہے اور آخر کو اخلاقی افعال میں ظہور پکڑتی ہے۔ لہٰذا ہم کو نہایت خبردار ہونا چاہیے کہ کس قسم کے فکروخیال کو اپنے دل میں جگہ دیں اگر ہم بہت خوشی سے ناپاک قصے یاناپاک کام کی بابت سوچتے ہیں تو بے شک و ہ آخر کو ہماری اخلاقی طبیعت کو گندہ کرے گا اور ہماری نیت کو بگاڑ کر ہمیں برائی کی طرف میل دے گا۔ انسان کا دل ہر ایک نیکی اور بدی کی جڑ ہے یعنی ہر ایک نیک اور بدکام کا خیال اول اسی میں ظہور پکڑتا ہے ،پھر انسان اس خیال کو مطالعہ کرتا اور اس پر عمل کرنے کا ارادہ باندھتا ہے۔ اس واسطے ایک مشہور حکیم نے یہ نصیحت کی ہے کہ
’’ اپنے دل کی بڑی خبردار ی کر کیونکہ زندگی کا انجام اسی سے ہے ‘‘۔
کوئی آدمی یکایک بدمعاش نہیں بن جاتا پہلے وہ بدمعاشی کے خیالوں کو اپنے دل میں پالتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ ان خیالوں کو ظہور میں لاتا ہے آخر کو ان افعال سے اس کی شرم وحیا دور ہوجاتی ہے ،تب وہ ان کو اپنا معمول بنا لیتا ہے اس واسطے مناسب ہے کہ نہایت چوکسی کے ساتھ ہم اپنے دلوں کی حفاظت کریں تاکہ ہم امتحان اور بدی سے بچیں برے خیالوں کو دل میں داخل نہ ہونے دیں اور ایسے فکر کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں جس کے اقرار کرنے سے آدمیوں کے روبرو شرمائیں اور خدا کے عذاب اور غضب سے اندیشہ کرے۔