Obedience
Published in Nur-i-Afshan Feb 05, 1885
فرمانبرداری
نورافشاں مطبوعہ ۵۔فروری ۱۸۸۵ء
ایک تجربہ کار جیل افسر کا قول ہے کہ
’’قوانین سلطنت کا انحراف جرم ہے اور اس کا مرتکب مجرم کہلاتا ہے ‘‘۔
یہ ایسا قول ہے جس کو ہر ایک آدمی جانتا ہے لیکن قوانین سلطنت کا انحراف قوانین خانگی کے انحراف کا نتیجہ ہے اور اس سے بہت کم آدمی واقف ہیں۔ گویا درخت کے دیکھنے والے بہت اور بیج کی پرواہ کرنے والے تھوڑے ہیں ۔غور سے دیکھا جائے تو والدین کی نافرمانی ایک سیدھی سڑک ہے جو کھلے دروازوں جیل خانے میں پہنچ جاتی ہے ۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ چور کا بچہ چور ہوتا ہے اور ڈاکو کی اولاد ڈاکہ مارتی ہے لیکن اصل یہ ہے کہ والدین خواہ چورہوں خواہ شاہ ان کی بے پروائی بچہ کو ہر جرم کا مجرم بناتی ہے ۔سلطنت اور خانہ داری کے معاملات ایک دوسرے کے مشابہ ہیں بلکہ سچ پوچھو تو ایک ہی ہیں ۔ سلطنت خاندانوں کا مجموعہ ہے اور خاندان سلطنت کا ایک فرد ۔پس جو رنج یاراحت فرد کو پہنچتا ہے وہی مجموعہ پر موثر ہے اسی طرح ایک آدمی ایک خاندان کا جزو ہے اور جوچیز جزو کی ترقی یا تنزل (پستی ،گراوٹ)کا باعث ہے وہی کل کی ترقی یا تنزل کا موجب ۔پس سلطنت کا انتظام رعایا کی اطاعت پر منحصر ہے اور اس واسطے سلطنت کا فرض ہے کہ رعایا کے حقوق مالی وجانی کی حفاظت کے واسطے اس کو اپنے قوانین کی اطاعت سکھائے ۔ایسا ہی ایک خاندان کا حال ہے اس کا امن اور اس کی اغراض محض ذاتی رشتوں یا ان حقوق کی حفاظت پر موقوف ہے اور ان رشتوں یا اس کی اصلی غرضوں کو جن کے لیے وہ قائم ہوا ہے فنا کرتا ہے ۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ فرمان برداری کا اصول خاندان اور سلطنت دونوں کی بہبودی کے لیے ایک قدرتی اصول ہے ۔والدین کی حکومت اولاد کی محافظ، معلم اور اس کے اخلاق کی بناوٹ کا سانچہ ہے اور اگر وہ اپنے فرائض کے ادا کرنے میں قاصر رہے تو بہر حال خاندان بگڑ جائے گا اور آخر میں اس کا بداثر سلطنت تک پہنچے گا ۔
جب لڑکے بڑے ہوکر کام کاج کی طرف دل نہیں لگاتے اور بیکار یا شغلوں مثلاً آوارہ گردی ،تماش بینی ،راگ رنگ وغیرہ کو پسند کرتے ہیں اور قمار بازی (جوا بازی )چوری چکاری وغیرہ تک نوبت پہنچاتے ہیں تو والدین اکثر سمجھتے ہیں کہ صحبت بد کا اثر ہے لیکن بچپن میں ہی آپ ان کی طبیعتیں بگاڑتے ہیں۔ دل شکنی کے خیال سے ہر بات میں ان کی مرضی پوری ہونے دیتے ہیں ناجائزاور خراب حرکات سے بالکل نہیں روکتے اور اخیر میں اوروں پر الزام دھرتے ہیں ۔جو بچہ بچپن میں ہی خود مختارہے اور اپنی مرضی کا مالک رہتا ہے اور والد ین کے قوانین کی اطاعت نہیں سیکھتا تو کیوں کر امید کی جاسکتی ہے کہ وہ سلطنت کے قوانین کی پوری پوری اطاعت کرے گا وہ تو خاندان میں ہی باغی رہا ہے پھر ریاست کا باغی کیوں کر نہ ہوگا ۔
فرمان بردار ی کا اصول تمام اخلاقی ملنساری اور مذہبی زندگی کا اصول ہے اور اسی لیے خدا نے اس کو اپنے دس حکموں میں سے ایک ٹھہرایا ہے ۔اس اصول کی خاص تعلیم گاہ گھر ہے جہاں فرمان برداری کا سبق پیار اور بلاغت سے سکھایا جاتا ہے اور جب مدرسہ کی تعلیم اس پر ایزاد(اضافی )ہوتی ہے تو یہ اصول اور زیادہ پائیدار ہوجاتاہے ۔لیکن افسوس ہے بچہ کی حالت پر والدین نے گھر میں فرمان برداری نہیں سکھائی کیونکہ آخر میں اس کو سلطنت کے سخت جیل خانے میں نہایت تلخ اور ناگوار تعلیم پائی ہوگی ۔خویشوں (قریبی رشتہ دار)کی اطاعت نہ سیکھنا گویا عام سے مخالفت کرنا ہے اور مخالفت کاانجام دھنگا فساد ہے ۔پس دھنگا فساد کی سرکوبی (سرکچلنا،خاتمہ کرنا) کے لیے قانون سلطنت ہروقت مشہور ہے ۔ایک جوان آدمی نے پھانسی پاتے وقت بڑے افسوس کے ساتھ کہا تھا کہ
’’میری یہ ذلت کی موت میرے ماں باپ کی غفلت کا نتیجہ ہے میں بچپن میں اپنے ہم جولیوں کی کچھ کچھ کھیلنے کی چیزیں چورا کر گھر لے جاتا تھا ماں صرف مسکر ا کر اتنا کہہ دیا کرتی تھی کہ بیٹا ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔آخر ہوتے ہوتے میں چور بن گیا اور اب روپیہ کے لالچ میں ایک آدمی کی جان لی جس کے عوض میں سخت ذلت کے ساتھ مجھ کو اپنی جان دینی پڑی۔کاش اگر میرے ماں باپ پہلے سے ہی مجھ کو روک دیتے اور میری عادات اور نشت وبرخاست سے چشم پوشی نہ کرتے تو شاید میری یہ نوبت نہ پہنچتی‘‘ ۔
والدین کو اس جوان آدمی کی آخری گفتگو پر غور کرنا چاہیے ۔