صداقتِ خدا کی طاقت

Power of the God’s Righteousness

Published in Nur-i-Afshan Nov 01, 1883

صداقت خدا کی طاقت

نور افشاں مطبوعہ یکم نومبر ۱۸۸۳

یہ امر مسلم الثبوت ہے کہ ہم خدا کی طاقت کا ظہور اوپر آسمان پر اور نیچے زمین پر کماحقہ(بخوبی ،جیسا اس کا حق ہے ) دیکھتے ہیں ۔تمام مخلوقات کی پیدائش بڑھتی اور موت میں اس طاقت کا ظہور اظہر من الشمس (روز روشن کی طرح عیاں)ہے لیکن خدا اپنی طاقت کو بے وسیلہ بلاوساطت ظاہر نہیں کرتا بلکہ باوسیلہ اور بوساطت ۔یہ وسیلہ یہ وساطت انتظام موجودات ہیں ۔قوانین فطرتی ہیں لاقرآن نیچر ہیں ۔جس طرح مٹیرٹیل ورلڈ میں خدا اپنی طاقت بوسیلہ ظاہر کرتا ہے اسی طرح مارل ورلڈ میں بھی بوساطت اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے ۔مارل ورلڈ میں یہ وسیلہ ٹروتھ یعنی صداقت ہے ۔یہ ٹروتھ یہ صداقت مسیحی مذہب کرسچانٹی ہے ۔اس دعویٰ کے ثبوت ذیل میں درج کئے جاتے ہیں ۔تاریخ ان اثبات کی شاہد ہے ۔

اولاً ۔اس مذہب کی ہستی ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ مذہب خدا کی طاقت ہے ۔قریب انیس سو (۱۹۰۰) برس  کے  گزرے ہیں کہ اس مذہب کا بانی یسوع مسیح دنیا میں ظاہر ہوا ۔تیس (۳۰) برس گمنامی کی حالت میں رہا پھر اپنے آپ کو ظاہر کرسچائی کی منادی کرتا رہا ۔کچھ مدت کے بعد لوگوں نے اس کو صلیب دیا اور ظاہر اً اس صداقت کی بیخ کنی (جڑ سے اکھاڑنا) کی مگر تھوڑے ہی دنوں کے بعد اس صداقت کا ظہور ہوا اور روز بروز بڑھا،حتیٰ کہ تھوڑے ہی عرصہ میں باوجود سخت تکالیف اور سخت رکاوٹوں کے یہودیہ دیس سے ترقی کر کے دیگر ممالک میں پھیلا اور آج تمام دنیا میں عروج کرتا جاتا ہے۔ مسیحی مذہب زندہ ہے ۔پس یہ زندگی یا یوں کہیں کہ اس کی ہستی یا ہونا اس کا خداکی طاقت ہونا ثابت ہے ۔

ثانیاً ۔ اس مذہب کا دیگر مذاہب سے جنگ کرنا اور اس  پر لاریب (بے شک ) فتحیابی حاصل کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ مذہب یہ صداقت خداکی طاقت ہے ۔تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ اس مذہب کو دیگر اقوام کے مذاہب سے کیسے کیسے جنگ کرنے پڑے ۔کیسی کیسی شائستہ اقوام مثل یونان و روم کے  مذاہب جو ان کے ہر ایک سوشل اور پولٹیکل معاملات میں سرائت کرگئے تھے اور دیگر جدید مذاہب ا س کے مقابل میں صف آرا ہوئے ۔مگر نتیجہ ابیاً من الاسس ہے ۔تمام مذاہب یا تو کا مل شکست کھا کر مرگئے یا مرتے جاتے ہیں اور یہ مذہب فتح پر فتح حاصل کراور تمام دنیا میں پھیل کر اپنی فتح کامل فتح کا ثبوت دے رہا ہے ۔پر شاید کوئی اعتراض کرے کہ بدہ (بدھ)مذہب کا بھی تو یہی حا ل ہے لیکن ان کا یہ دعویٰ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے ۔ اس لیے کہ ان دونوں مذہبوں کی ترقی کے اسباب میں صریح ناموافقت سے بلکہ آسمان وزمین کا فرق ہے ۔

صداقت کی کرنیں

اوّل ۔مسیحی مذہب نے تو خالص رہ کر ترقی کی ہے اور بدہ مذہب نے دیگر مذاہب کے اصولوں سے مخلوط ہوکر ترقی کی ہے ۔یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اگر مسیحی مذہب نے کبھی فتح کا قصر (محل) بنایا ہے یا بنائے گا تو دیگر مذاہب کے راکھ وکھنڈرات پر بنایا ہے اور نیزبنائے گا ۔مگر بدہ مذہب کا حال عین اس کے برعکس ہے ۔اس مذہب نے اور مذاہب کی معاونت سے ترقی کی ہے ۔چنانچہ تاریخ دان اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ مذہب ملک چین میں تو ایک صورت اختیار کئے ہوئے ہے ۔تبت میں دوسری ۔ملک جاپان میں تیسری ۔ہذاالقیاس اور ممالک میں ۔

 دوئم ۔ بدہ مذہب ایشائی مذہب ہے اور کبھی بھی یہ مذہب ایشیائی  حدود سے باہر نہیں گیا برخلاف اس کے مسیحی مذہب دنیا کے تمام ممالک میں (اگرچہ اس کا شروع بھی ایشیا سے ہوا ہے ) پھیل رہا ہے ۔

ثالثاً۔ تمام دنیا کی تاریخ کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قبل از مسیح تما ممالک کی اقوام خدا کے علم ،فرایض عبودیت اور اخلاقی خوبیوں میں زمانہ بزمانہ تنزل کرتی  رہیں مگر مسیحی مذہب نے اس تنزل کو ترقی میں مبدل کردیا ہے ۔اہل ہند آج اس امر کے شاکی ہیں کہ زمانہ سلف کے ہمارے آباواجداد ہماری نسبت زیادہ تر پرمیشر کا گیان رکھتے تھے ۔فرائض عبودیت زیادہ خوبی سے بجالاتے تھے اور اخلاقی خوبیوں یہ ہم سے کہیں بڑھ چڑھ کر تے ۔ان کی یہ شکایت بجا ہے اور جیسا ہند کا حال ہے ویسا ہی دیگر ممالک کا حال تھا اور اب ہے ۔مگر ان ملکوں کی جہاں مسیحی مذہب نے عروج پایا ہے یا پاتا جاتا ہے حالت دگر گوں (رنگ بدلنا)ہے۔وہ حالت تنزل سے نکل کر امورات مذکورہ بالامیں ترقی کرتے جاتے ہیں ۔

اس زوال کی روک میں بہت سے وسائل ترقی اختیار کئے گئے پر مقصد پورا نہ ہوا چنانچہ صاحب لیکچر نے فرمایاکہ میں نظم کو یہ طاقت ہے کہ انسان کے اوپر نقش کرے اس کے خیالات عالی بنائے ۔اس کا دل اخلاق ِ حسنہ کی طرف مائل کرے مگر تمام دنیا کا لٹریچر اس امر کا شاہد ہے کہ دنیا بھر کی نظم انسان کے زوال میں سود مندنہ ہو سکی بلکہ خود زوال پذیر ہوئی ۔خرابی میں خود مبتلا ہوئی ۔

یہی حال فلسفی کا ہے ۔اس میں بھی طاقت ہے کہ انسان کو سچے اخلاق سکھلائے ۔مگر اس سے بھی کچھ بن نہ پڑا ۔بہت کچھ کوشش کی ناکامیاب میں رہی ۔ بلکہ خود انسان کے ساتھ خراب ہوئی ۔حتیٰ کہ خداکی شریعت بھی اس امر میں قاصر ہے   کیونکہ اس کا کام صرف انسان کو اس کے ناجائز کاموں پر الزام دینا ہے ۔اس زوال کے روک میں بہت کچھ تدبیر یں لڑائیں ۔ترقی کے وسائل کی آزمائش ہوئی مگر بلاسود ۔زوال رہا کیا تنزل نے بڑھا کیا مگر مسیحی مذہب میں وہ طاقت ہے کہ جہاں کہیں یہ پھیلابجائے زوال کے خدا کے علم فرائض عبودیت اور اخلاقی خوبیوں میں عروج پیدا ہوا اور بڑھتا جاتا ہے ۔

رابعاً ۔ مسیحی مذہب بنی آدم کی نجات کے لئے کافی طاقت ہے یہ مذہب یا یوں کہیں کہ اس کے بانی یسوع مسیح میں کامل طاقت ہے کہ ہر فرد بشر کے دل کو پاک کرے ۔یہی مذہب اپنا اثر انسان کے اندرونی حصہ یعنی دل پر کرتاہے اور یوں ہر ایک دل کو موثر کرکے اور زوال سے نجات بخش کر اور ترقی کے درجہ کو پہنچا کر ہر مجلس کو کہ جس کا یہ فرد ہے اور ہر ایک قوم کو جوان مجالس میں مشتمل ہے اور تمام دین کے باشندوں کو جوان قوموں میں منقسم ہیں خدا کا علم وفرائض عبودیت اور اخلاقی خوبیوں کے اعلیٰ درجہ کو پہنچا تا ہے ۔

پھر صاحب لیکچر نے حاضرین مجلس سے فرمایا کہ آپ لوگوں کو ایسی نجات کی ضرورت ہے لیکن اگر ایسی نجات پوری تسلی اور تشفی کے ساتھ آریہ سماج برھموسماج ہندو مذہب یا اسلام میں حاصل ہوسکتی ہے تو میں نہیں چاہتا اور نہ کہتا ہوں کہ آپ مسیحی ہوجائیں طاور اگر نہیں تو مسیحی ہو ۔

صاحب لیکچر نے اس قسم کے اور نصیحتانہ فقرات بیان کرکے اپنے لیکچر کو ختم کیا ۔سامعین اس عالمانہ لیکچر سے نہایت محفوظ اور خوش ہوئے اور صاحب موصوف چیرز دئیے ۔آخر میں جناب پادری دیری صاحب پریسیڈنٹ جلسہ نے حاضرین جلسہ سے کہا کہ اگر کوئی صاحب اس مضمون کے متعلق کوئی سوال کیا چاہتا ہے تو صاحب لیکچر جواب دینے کے لیے مستعد ہیں۔مگر کوئی نہ اُٹھا تھوڑے انتظار کے بعد جلسہ برخواست ہوا۔

روم کی خبروں سے معلوم ہوا کہ آج کل اس سلطنت میں ڈکیٹی کی وارداتیں بکثرت سنی جاتی ہیں ۔ سلونیکا کے حاکم کی رہائی کے واسطے ڈاکوساڑھے چار لاکھ روپیہ طلب کرتے ہیں ۔ایڈریا نوپل کی ریلوے کے قریب ایک شخص کو ڈاکو پکڑ کر لے گئے ۔اگرچہ اس کی رہائی کے واسطے دوہزار روپیہ دئیے جاتے ہیں لیکن ڈاکو قبول نہیں کرتے ۔قسطنطنیہ کے اکثر بڑے تاجروں کو ڈاکوں نے گرفتاری کی دھمکی دی ہے سیمرنا کے قریب بعض مسافرجو ریل سے اترے ان کو چور پکڑ لیے گئے اور اب ان سے رہائی کے لیے روپیہ طلب کرتے ہیں۔

سلطنت روم میں اخبار وں پر بھی زوال آیا چنانچہ( ۲۲۔اخبار) بند ہوگئے اور وں کی حالت قریب بند ہونے کے ہے اور اگر بند نہ ہوئے تو بند ہونے سے بدتر ہے ۔ایک افسر جووزیر سے کم رتبہ نہیں رکھتا ہے اخبار وں کی نگرانی پر مقر ر ہوا ہے کوئی رسالہ اور کوئی اخبار شائع ہوگا جب تک اس کی نظر سے نہ گزر جائے اور شائع کنندہ سارٹیفکیٹ حاصل کرے ۔اس انتظام سے کسی اخبار میں کوئی آرٹیکل نہ درج ہوگا جب تک وہ نہ دیکھ لے اور جو آرٹیکل آج چھپا ہے و ہ مہینوں میں ترمیم وتنسیخ ہونے کے بعد چھپے گا ۔

Leave a Comment