Prince of Universe
By
Once Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan October 27, 1887
نور افشاں مطبوعہ ۲۷۔ اکتوبر ۱۸۸۷ء
جن کو فطرت کے معاملات میں کچھ دخل ہے اور جنہو ں نے مدرسہ نیچر میں کچھ سبق سیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کل اشیاء قدرتی کا نیچرل طریقہ الگ الگ ہے ۔بعض جانورایسے ہیں کہ صبح پیدا ہوتے دوپہر مرجاتے ہیں ۔اسی عرصہ میں وہ جوان ہوتے اور دنیا کے مزے لیتے عمر طبعی تک پہنچتے بوڑھے ہوتے وغیرہ بعضوں کی دن بھر کی زندگی ہوتی ہے ۔اسی طرح بعضوں کی ہفتوں کی اوربعضوں کی برسوں کی بعض کی صدیوں کی ۔ویسے درختوں کی حالت ہے انسان کی ترقی ہر امر میں اسی طرح کی ہے جس کام کو شروع کیا جاتا ہے ۔اول صرف اس کا نام ہوتا ہے ۔پھر ہوتے ہوتے کمالیت کے درجے تک پہنچتا ہے ۔سکھوں کی بادشاہت شروع میں کیا تھی ۔کہاں تک پہنچی اور اب کہاں ہے ؟اکثر چیزیں ابتدا عالم سے آج تک موجود ہیں جو برابر آہستہ آہستہ بڑھتی ہیں ۔جیسے پہاڑ یا زمین ۔کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے وقت کا بلوط کا پیڑ آج تک موجود ہے ۔
اس فطرت کے قاعدے کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ عالم کی بادشاہت ابتدا میں وسط ایشیا میں رائی کے دانہ کی مانند شروع ہوئی اور بہت آہستہ آہستہ بڑھنے لگی ۔کچھ مدت برائے نام گمنام سی حالت میں ہے مگر اندرونی طاقت اس کی بڑھتی گئی ۔شاہ عالم چونکہ خود مختار بادشاہ تھا کسی کو اس کے کام میں دخل نہ تھا جب کچھ طاقت بڑھنے لگی ۔تو شاہ ممدوح کی رعایا نے ایک دو ردراز کا سفر اختیار کیا ۔لیکن گردش ایا م سے یہ سب لوگ جو ہمیشہ خوش شاد اور آزاد رہتے تھے خدیومصر نے قید کرلیے کچھ مدت تک وہ اس کے قبضے میں رہے ۔آخر جب شاہ مصر نے ان پر بہت ظلم کرنا شروع کیا تو شاہ عالم نے اپنا ایک زبردست سپہ سالار کلیم نامی کو ان کی امداد کے لیے بھیجا ،جس نے اول تو صلح کا پیغام بھیج کر کہا کہ ان قیدیوں کو چھوڑ دے ۔مگر شاہ مصر نے قبول نہ کیا۔ آخر بڑی زبردست طاقت سے وہ وہاں سے نکل آئے ۔مگر پھر بھی شاہ مصر نے ان کا تعاقب کیا اور دریائے نیل تک ان کے پیچھے آیا ۔چنانچہ ناظرین نورافشاں جانتے ہوں گے کہ آخر وہ معہ اپنی فوج کے دریا مذکور میں غرق ہوگیا ۔بعد ہ (اس کے بعد)شاہ عالم نے ان کو ایک خوش قطعہ شاداب ملک میں بسایا ۔ گا ہے گاہے (تھوڑی تھوڑی دیر بعد)دشمن اس کی رعیت کو دکھ دیتے رہے سبب اس کا صرف یہ تھا کہ شروع میں شاہ موصوف کا ایک وزیر ملک نامی تھا ۔جو شاہ کا بہت عزیز تھا مگر ایک دن اس نے ایسی شرارت کی شاہ نے اس کو ہمیشہ کے لیے عہدہ سے برطرف کرکے ملک بدر کردیا تھا ۔ وہی لوگوں کو اس عناد (سر کشی ،دشمنی)کے باعث شاہ کے اور اس کی رعیت کے خلاف اُبھارتا رہتا تھا اور کبھی کبھی کامیاب بھی ہوتا۔ دو ایک دفعہ شاہ فارس نے بھی ا ن کو تکلیف دی مگر آخر کو مغلوب ہوا۔
ہر روز کے جھگڑے اور فسادات دور کرنے کی خاطر کچھ عرصہ گزراہے کہ شاہ عالم نے اپنا تخت معہ کل ملک کے اپنے عزیز اکلوتے بیٹے وارث تخت شاہزادہ عالم کو سونپ دیا ۔جس نے تخت پر بیٹھتے ہی سب باغیوں کو صلح کا پیغام بھیجا اور جابجا اپنے ایلچی بھیجنے شروع کئے ۔چنانچہ (۱۲) ایلچی اس کام کے لیے مقر ر ہوئے ۔بہتوں نے تو اس صلح کے پیغام کو خوشی سے قبول کیا اور بہتوں نے بغاوت کا جھنڈاکھڑا کیا اور مدت تک باغیوں اور شہزادہ عالم کے ایلچیوں میں جنگ ہوتی رہی جس میں شہزادہ کے بہت سپاہی کام آئے ۔مگر شہزادہ عالم کچھ ایسا صلح کا خواہاں رہا کہ ہمیشہ اپنے آدمیوں کو جنگ سے باز رکھا۔ آخر جب باغیوں نے شہزادہ کی اس قدر حلیمی اور بُردباری دیکھی تو بغاوت سے باز آکر ہتھیار ڈال دئے اور فرمانبرداری قبول کی ۔چنانچہ اول اول سب سے بڑی سلطنت روم واقع اٹلی نے اطاعت قبول کی ۔جب ایسی بڑی سلطنت شہزادہ کی مطیع ہوئی تو پھر کسی کو دم مارنے کی جگہ نہ رہی ۔آخر کار یورپ کی تمام سلطنتیں تابع ہوگئیں ۔چنانچہ حضور قیصر ہند بھی اس کی مطیع اور فرمانبردارہے ۔کبھی شہزادہ عالم کے روبرو تخت پر نہیں بیٹھتیں ۔اس کے حضور سر سے تاج اُتار دیتی ہیں ۔کل انگلستا ن میں اب شہزادہ ہی کا سکہ جاری ہے اور اسی کا جھنڈا بھی ۔صرف ایک انگلستان پر ہی کیا موقوف ہے ۔ فرانس ،جرمن ،اسپین ،پرتگال غرض کہ یورپ کی کل سلطنتیں سب سے بڑا زبردست بادشاہ روس بھی اس کا مطیع اور فرمانبردار ہوگیا ۔امریکہ جہاں جمہوری سلطنت ہے ۔وہاں کے لوگ کسی بادشاہ کے پسند نہیں کرتے ۔انہوں نے بھی اس کو اپنا بادشاہ مان لیا ہے ۔صرف چند جگہیں اس کی تابعدار اور فرمانبرداری سے منحرف اور باغی ہیں ۔جیسے چین ،ہندوستا ن ،ایران ،روم ،افریقہ مگر ان ملکوں میں بھی اب شہزادہ کے ایلچی پہنچ گئے ہیں ۔اگرچہ بہت کچھ مخالفت ہورہی ہے ۔اور شہزادہ کے ایلچیوں کو دکھ دیا جاتا ہے تاہم آخر ایک دن یہ ضرور مطیع ہوں گے ۔
ہم ہندوستا ن کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ایسے زبردست شہنشاہ کی بغاوت درست نہیں ۔جب ایسی ایسی بڑی زبردست یورپ کی سلطنتیں اس کے تابع میں ہوگئیں ۔تو پھر آپ کون ہیں جب خود ہماری حضور قیصر ہند اس کی تابع ہیں ۔تو آپ کو کیا عذر ہے ؟صرف شاہزادہ کے دشمن نے آپ کو بہکایا ہوا ہے ۔آپ ہوش کریں اور اس کی فرمانبرداری کے قبول کرنے میں عذر نہ کریں ۔ہم آپ کو دوستانہ سمجھادیتے ہیں کہ اس کی بیعت (اطاعت ) قبول کرکے صلح کے جھنڈے تلے آجاؤ ۔ورنہ پچھتاؤ گے۔ہم آپ کو مطلع کئے دیتے ہیں کہ جب شہزادہ کا غصہ بھی بھڑکے گا تو اس کی برداشت کرنا آسان نہ ہوگا ۔آؤ صلح اور سلامتی کی سلطنت میں داخل ہو۔شہزادہ عالم کا جھنڈا یہ ہے جس کے نیچے صلح اور سلامتی ہے ۔