Heart of Stone
Published in Nur-i-Afshan May 21, 1885
سنگین دل
نور افشاں مطبوعہ ۲۱۔ مئی ۱۸۸۵ء
میں تم کو ایک نیا دل دو ں گا پرانے عہدنامے کے وعدو ں میں یہ وعدہ نہایت ہی بیش قیمت ہے ۔ہم کو نیا دل کیوں درکار ہے ؟ اگر تم اس کل آیت کو پڑھو تو تم کو اس کا حال معلوم ہو جائے گا ۔
’’۔۔۔۔میں تم کو ایک نیا دل بھی بخشو ں گا اور ایک نئی رو ح ،تمہارے میں سے سخت دل نکال لوں گا ۔ اور تم کو گوشتین دل دوں گا ‘‘ (حزقی ایل 36باب 26 آیت) طبیعت سے ہم سب کا دل سنگین ہو رہا ہے جو نہ تو خدا کو پیار کرتا ہے نہ اس کی پیروی کرنے کی تلاش میں رہتا ہے ۔
پتھر سخت ہوتا ہے اپنا ہاتھ اس پر مارو اور دیکھو کہ وہ کیسا سخت ہے ۔ تم اُس مارتے ہے کیوں نہ ہو بلکہ شاید کہ اس کو توڑ بھی ڈالو لیکن اس کو نرم کر نہیں سکتے ہو ۔ یوں ہی ہمارے دل بھی طبیعت سے سخت دل ہور ہے میں ۔ خدا کھٹکھٹایا ہی کرتا ہے پر اُس پر کچھ اثرہی نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن و ہ آخر کو اس سنگدل کو توڑ ڈالتا ہے اور ہم گو شتین دل دےسکتا ہے ۔
پتھر سرد بھی ہوتا ہے پتھر کو سڑک پر سے اُٹھا لو اور اپنے گرم ہاتھ اُس پر رکھو تو وہ بہت ٹھنڈا معلو م ہوگا ۔ کبھی کبھی سورج کی تیزی سے وہ گرم بھی ہو جائے برسائے میں رکھ دینے سے پھر سرد پڑ جاتا ہے اس کو اپنے جرم میں گرمی نہیں ہوتی ہے ۔ ہمارے تمہارے دل کا بھی ایسا حال ہے کبھی کبھی جب مسیح کی باتیں سننے میں یا ان کا کلام پڑھتے ہیں تو دل میں کچھ گرمی سی آجاتی ہے پر اس خیال سے ہوتی کہ سرد ہو جائے ہمارے دل کبھی گرم ہونہیں سکتے ہیں جب تک کہ مسیح ہم کونیا گوشتین دل نہ دے دے ۔ پھر پتھر بے ہوش ہوتا ہے تم کو اُس کو ٹکراتے پھرو پراس کو کیا پرواہ ہے تم اس سے باتیں کرو پر وہ کب سنتا ہے اس کو جہاں چاہو وہا ں رکھ دو پر اُس کو اس کی کچھ فکر نہیں ہوتی ہے اس میں حس و ہواس ہوتا ہی نہیں ہے ۔ اب طبیعت سےہمارے دلوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے ہم خدا کا کلام سنتے ہیں ہم اس کے اُس سلوک کو ہمارے ساتھ ہوتا ہے دیکھتے ہیں۔ خدا ہم سے باتیں کرتا ہے لیکن ہم سنتے نہیں ہیں خدا ہم ایسی جگہوں میں رکھتا ہے جہاں ہم اُس کا کلام سنتے ہیں یا وہ ہم کو اپنے لوگوں سے دور رکھ دیتے ہیں پر ہم نہ اس کی کچھ فکر کرتے ہیں نہ اس کی کچھ پروا ہ رکھتے ہیں ہمارے لئے یہ دونوں ہی حالتیں یکساں ہوتی ہیں ہم اُس کے کاموں کی طرف سے بالکل بے خبر رہتے ہیں۔
ہاں ہمارے دل پتھر کی مانند سخت اور سرداور بے حس و حرکت رہتے ہیں ۔ ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ جب مسیح مصلوب ہوئے تو بہتوں نے بیٹھے اور کھڑے ہوئے اس کو دیکھا پر اُس کی تکلیفوں کو اس طرح سے دیکھتے رہے کہ گویا اُن کے دل پتھر ہوگئے تھے ۔ زمین تو البتہ کانپ گئی پتھر تڑخ گئے لیکن دیکھنے والو ں کے سنگین دلو ں پر اُس کے دُکھ کا اور اُس کی تکلیفوں کا مطلق اثر تک نہ ہوا ۔
اے بچو اپنے نجات دہندہ سے یہ درخواست کرو کہ وہ آپ ہی آکے تمہارے گوشت میں سے اس پتھر کے دل دے۔ وہی اکیلااس کام کو کر سکتا ہے اس کی منت کرو کہ و ہ تم کو نرم اور گرم اور مستعد و پیار کرنے والا دل دے اور اس کو اپنے دل کی مانند بنا دے۔ اگر تم اس سے منت کرو گے تو وہ یہ کام کردے گا ۔ خدا کے بیٹے کے سوا کوئی نہیں ہے جو کہ ٹھنڈے اور پتھر دل کو نرم اور گرم کرسکتا ہے ۔وہی یہ کام کر سکتا ہے کیونکہ اُس میں ساری قدرت ہے وہ اس کام کے کرنے سے خوش ہوتا ہے کیونکہ وہ لڑکے اور جوان سب کو اپنا بنانا چاہتا ہے۔ کیا تم اُس سے اس کے لئے منت نہ کرو گے ؟ اور کیا تم اس ہی وقت اُس سے اس کے لئے درخواست نہ کرو گے ۔