سلوک ہماسیہ

Eastern View of Jerusalem

Love Your Neighbor

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan August 7,1884

نور افشاں مطبوعہ ۷ اگست ۱۸۸۴ء

بڑے حکموں میں دوسرا حکم یہ ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو اپنے برابر پیار کر ۔ یہاں پڑوسی سے دنیا کے سب لوگ مراد ہیں پر خصوصاً اس لفظ سے وہ لوگ مراد ہیں جو ہمارے آس پاس رہتے ہیں ۔ چنانچہ ذیل کی باتیں انہیں سے متعلق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں ؟قانون صاف اور ظاہر ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو اپنے برابر پیارکر اگر ہم اسے بخوبی سمجھ لیں تو ہر معاملہ میں اس سے رہنمائی پائیں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ اپنے پڑوسیوں کو اپنے ساتھ خدا کے بڑے خاندان میں شریک تصور کریں اور ان سے وہی  سلوک کریں جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں ،ان باتوں سے کنارہ رہنا لازم ہے۔ جن سے ہمارے پڑوسی کو رنج یا نقصان پہنچے اس جگہ میں کوڑا پھینکنا جس سے ہمارے ہمسایہ کو تکلیف ہو ۔مناسب ہے پڑوسی کے آنگن میں پتھر پھینکنے یا اس کے لڑکے بالوں سے بدسلوکی کرنے کی اپنے لڑکوں کو اجازت دینا بیجا ہے ۔

جس وقت کوئی ہمسایہ ہم کو نقصان پہنچائے تو گالی دینے یا عدالت میں رجوع کرنے کے برخلاف یہ بہتر ہو گا کہ اس کے پاس جاکے آئندہ کے لئے ایسی باتوں کے دور رکھنے کے لئے مشورہ کریں ۔ذیل کے قصہ سے وہ طریقہ ظاہر ہوتا ہے جس پر عمل کرنا چاہئے ۔

دوسرا حکم یہ ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو اپنے برابر پیار کر

ایک آدمی نے یوں بیان کیا ہے کہ آگے میرے پاس بہت سی مرغیاں تھیں اکثر میں ان کو بند رکھا کرتا تھا پر آخر کو یہ خیال کیا کہ ان کے پروں کو تراش داں تاکہ وہ اڑ نہ سکیں اور انہیں احاطہ میں پھرنے دوں  ایک روز جب میں  مکان پر آیا تو مجھ کو یہ خبر ملی کہ میرا پڑوسی نہایت خفا ہو کے میرے مکان پر دوپہر کو آیا تھا اورمعلوم ہوا کہ میری مرغیاں اس کے باغیچے میں گئی تھیں۔ اس نے ان میں سے کئی ایک  کو مار کے میرے احاطہ میں پھینک دیا ۔یہ حال سن کر مجھ کو بہت غصہ آیا اور اس شخص سے بدلہ لینے یعنی اس کو عدالت میں لے جانے یاا س سے کسی اور طرح کا انتقام لینے کا ارادہ کیا لیکن پہلے بیٹھ کے میں نے کھانا کھلایا اور جب میں کھانا کھا چکا تو میرا دل کچھ نہ کچھ ٹھنڈا ہو چکا تھا اور مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید ایسی چھوٹی بات کے لئے اپنے پڑوسی سے لڑنا اور یوں اسے سخت دشمن بنا لینا مناسب نہیں۔ پس میں نے ایک دوسرے طور کا سلوک اس کے ساتھ کرنے کا ارادہ کیا  چنانچہ کھانے کے بعد میں اس کے مکان پر گیا تو وہ اپنے باغیچہ میں تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو اسے ہاتھ میں چھڑی لئے ہوئے ایک مرغی کے پیچھے دوڑتے اور اسے ہلاک کرنے کی کوشش کرتے پایا ۔جب میں نے اس سے صاحب سلامت کی تو بڑی خفگی سے مجھ پر نظر کر کے چلا اٹھا کہ ارے تو نے میرا بڑا نقصان کیا ہے اگر ہو سکے تو میں تیری کل مرغیوں کو مار ڈالوں گا کیونکہ ان سے میرے باغیچہ کی تمام بربادی ہوئی۔

میں نے کہا کہ میں بہت افسوس کرتا ہوں کیونکہ میں آپ کا نقصان نہیں چاہتا اور اب مجھ کو معلوم ہوا کہ میں نے جب اپنی مرغیوں کو باہر جانے دیا تو بڑی غلطی کی میں آپ سے معافی مانگتا ہوں اور اس سے راضی ہوں کہ جو کچھ نقصان آپ کا ہوا ہے اس کا چھ (۶)گنا بدلہ دوں ۔

یہ سن کے وہ شخص حیران ہوا اور یہ نہ جانا کہ کیا جواب دے ۔پہلے آسمان کی طرف پھر زمین کی پھر میری طرف پھر اپنی چھڑی پر پھر اس بے چاری مرغی کی طرف جس کے پیچھے دوڑ رہا تھا نگاہ کی لیکن کچھ بول نہ سکا۔

پھر میں نے کہا کہ اپنے نقصان کا حساب بتلایئے اور میں اس کا چھ گنا بدلہ دوں گا اور پھر میری مرغیاں یہاں ہرگز نہ آنے پائیں گی۔ جتنا آپ بتلائیں اتنا ہی میں دوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ مرغیوں یا اور کسی چیز کے سبب سے  اپنے پڑوسی کی خیر خواہی یا محبت کو ضائع کروں۔ اتنا سن کر اس نے کہا کہ میں بڑا بے وقوف ہوں کیونکہ جو نقصان میرا ہوا وہ ذکر کرنے کے قابل نہیں ہے بلکہ واجب ہے کہ میں ان مرغیوں کے بدلے آپ کو کچھ دوں اور آپ سے معافی مانگوں ۔

جو لڑائیاں پڑوسیوں کے بیچ میں ہوتی ہیں ان کی جڑ اکثر چغلی ہوتی ہے مثلاً کوئی شخص اپنے ہمسایہ سے ناراض ہو کے اس کی نسبت کوئی سخت کلام کرتا ہے پر سننے والے اس کے خلاف کہ صلح کروانے کی کوشش  کریں اس کے پا س جا کے جس کی نسبت کہا گیا تھا شاید مبالغہ کے ساتھ اس سے بیان کرتے ہیں تب دوسرا یہ سن کے بدلہ لینے کا ارادہ کرتا ہے اور اس حال میں جو کچھ وہ کہے وہ پہلے کے پاس پہنچایا جاتا ہے اور یوں ہی فساد عظیم ہوتا ہے ۔اکثر خانگی نوکروں کی اس بات کا بڑا شوق ہوتا ہے کہ جو کچھ اپنے مالکوں کے حق میں سنتے اسے مبالغہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں لیکن ان کی ہرگز سننا نہ چاہئے ۔

اگر کسی پڑوسی کی تم کو شکایت کرنی منظور ہو تو اسی کے پاس جا کے سہولت سے اس پر اظہار کرو۔ لیکن غیر شخص سے اس کا ذکر نہ کرو اگر تم اپنے پڑوسی کے حق میں کسی سے سخت کلام سنو تو چغل خوری سے اپنی نفرت ظاہر کرو ۔لیکن خود چغل خور مت بنو ۔اگر تم اپنے پڑوسی کے حق میں اچھا نہ کہہ سکو تو برا بھی نہ کہو اکثر خاموشی دانائی اور فضول گوئی بے وقوفی ہے ۔

حتیٰ الامکان پڑوسیوں پر مہربانی ظاہر کرنی واجب ہے جب ہم ان کو راہ میں دیکھیں تو آپ سے سلام کرنا واجب ہے ۔ اگرچہ پڑوسیوں کی خانگی باتوں کی تحقیقات کرنی واجب نہیں ہے تو بھی ان کی مدد کرنی اور ان کو خوشی پہنچانے کے موقعوں میں ان کو مدد اور تسلی دینا ضرور ہے ۔ہمسایہ جو نزدیک ہوں وہ اس بھا ئی سے جو دور ہوں بہتر ہے اس وقت سے پہلے کے رشتہ دار ہماری مدد کو آئیں مددگار کا وقت گزر جاتا  ہے ۔لیکن دوست اور پڑوسی فوراً حاضر ہو کے مدد پہنچا سکتے ہیں۔ پھر اپنے پڑوسیوں کو بہتری پہنچانے میں بہت سے عمدہ طریقہ ان کو اخلاقی اور دلی بہبودی پہنچانے کی کوشش کرنی ہے ۔ اپنے چال چلن سے  ان کے سامنے وہ خاصیتیں دکھلایا کرو جنہیں تم چاہتے ہو کہ وہ رکھیں ۔علاوہ اس کے یہ بھی ممکن ہے کہ دوستانہ ملائم طور سے اپنے پڑوسیوں سے ان بڑی بُری عادتوں کا جس سے ان کو پرہیز رکھنا ضرور ہے اور نیکیوں کا جن پر عمل کرنا مناسب ہے بیان کریں ۔خاص کر یہ ضرور ہے کہ تم انہیں بت پر ستی کے ترک کرنے اور حقیقی خدا کی پرستش کرنے کی ترغیب دو ۔ اغلب ہے کہ اس مہربانی کے بدلے جو ہم پڑوسیوں کے ساتھ کرتے ہیں کبھی کبھی وہ ناشکری ظاہر کریں ۔انسان ہمیشہ ناشکری کی شکایت کرنے کو تیار رہتا ہے لیکن عموماً اس کا سبب یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کی زیادہ قدر کرتے ہیں ۔ گاہ گاہ جب کسی کی مہربانی کے بدلہ ناشکری ہوتی ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ میں ہرگز کسی کے لئے اتنا پھر نہ کروں گا ۔ہم کو چاہئے کہ نیکی کو اس غرض سے نہ کریں کہ کوئی ہمارا شکر گزار ہو حکم یہ نہیں کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیکی کرو کیونکہ تم اس طرح سے اپنے لئے بڑی خوشی اور فائدہ حاصل کرو گے ۔ خداوند مسیح یہ فرماتے ہیں کہ’’ اپنے دشمنوں کو پیار کرو تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ہو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں پر اُگاتا ہے اور راستوں اور ناراستوں پر مینہ برساتا ہے ۔

Leave a Comment