The Miraculous Proof of the Christianity
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan October 03, 1888
نورافشاں مطبوعہ ۳۔ اکتوبر ۱۸۸۹ ء
معجزہ کا اصلی مادہ عجز بالکسر ہے اور معنی اُس کے نا توانی یا عاجز ہو جا نے کے ہیں۔ حالت فاعلیت میں معجزہ کیا جاتا ہے ۔ تب اُس کے معنی عاجز کر نے والا اسم فاعل کے آتے ہیں ۔ اور حالت مفعولیت میں معجز بفتح جیم عر بی اسم مفعول بہ معنی عاجز کیا گیا پاتے ہیں۔ اگر چہ ان معنوں میں یہ جملہ حالتیں اس کی عمومیت پر دلالت کرتی ہیں ۔مگر لغت میں دیکھنے سے معلوم ہو تا ہے ۔ کہ حالت اضافی میں جب کہ اضافت بنی کی جانب ہو خارق عادت(عادت اور قدرتی قاعدے کو توڑنےوالا ،انبیاء کے معجزے اولیا کی کرامات) کہتے ہیں ۔ یعنی عادت کا پھاڑ نے والا اور اصلاح میں مراد وہ کام ہے جو ذاتی عادت کے خلاف واقع ہو ۔ زمانہ حال میں فرقہ نیچر ان اصطلاحی معنوں پر ایک اعتراض وار د کر کے راستی سے بہت دور جا پڑے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اُس سے قانون فطرت ٹوٹتا ہے لیکن اس کا جواب مختصر میں صرف اسی قدر کا فی ووافی ہے کہ نیچریوں نے اپنی ہی عقل محدود کے مطابق خلقت کی عام ترتیب پر جہاں تک کہ اُن کی بصارت نے کام کیا نگاہ ڈال کر قانون فطرت گڑھ لیا ہے ۔ خدا نےالہٰام سے نیچریوں کو نہیں بتا دیا کہ میری لامحدد و ترتیب صرف اسی ترتیب پر جو ہم نے دیکھ لی محدود ہے ۔
پس جب تک یہ ثابت نہ ہوتب تک اصطلاحی معنی بجائے خود قائم اور بر قرار ہیں ۔ پھر اس لفظ معجزہ کے مراد ی معنی ہم عیسائیوں کے نزدیک یہ ہیں کہ ایسی قدرت عمل میں لائی جائے جو خلقت کی عام ترتیب کی تبدیل کی قائل ہے ۔ مثلاً بحرا حمرکا سکھانا اور لعرز کو جلانا وغیرہ نہ خلافِ عقل ہے نہ مخالف ِنقل عقلاً اس واسطے کہ عقل ِانسانی محدود اور خدائے قادر مطلق کے کام لامحدود نہ صرف یہی بلکہ ایک انسان ہی دوسرے انسان کے بعض امور کو دریافت نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ ریاضی وہئیت وغیرہ علو م اُس پر گو اہ ہیں ۔ نقلاً اس لئے کہ اسی جہان میں آنکھوں دیکھتے اکثر ایسے امور حادث ہو تے ہیں کہ عقل ِانسانی درجہ حیرانی میں مستغرق ہو جاتی ہے ۔اب بعد اِس قدر بیان کےثابت ہو گیا کہ درحقیقت معجزہ ہمارے مراد ی معنوں میں محال نہیں بلکہ ممکن الوقوع ہے ۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ سارے واقعات خیالی جو محمد یا رام کرشن وغیرہ سے مثل شق القمرو سبت بندرامیشور د گوبر دھن لہلا منسوب کئے جاتے ہیں۔ سب درست ہیں جب تک کہ اُن کے دکھانے کی علت غائی اور خدا کی مرضی معرض ثبوت میں نہ لائی جائے ۔کیونکہ عقلِ سلیم کے نزدیک یہ بات قابل ِتسلیم ہے کہ معجزہ دین ِحق کے اثبات میں ضروری ہے ۔وہ اُن امور میں جنہیں انسان آپ ہی عقل اور علم سے ثابت اور غیر ثابت کر سکتا ہے ۔ ہمارا اراد ہ نہیں کہ ہم اُن سارے معجزات مندرجہ بائبل کو جو نیبوں اور رسولوں اور خداوند مسیح سے وقوع پذیر ہو ئے فرداً فرداً سامعین کے روبر و پیش کریں کیونکہ ان پر یہاں تک ردو قدح(تردید) ہو چکی ہے کہ اُنہیں بیان کرنا قریباً تحصیل حاصل کی حدتک گذر نا ہے ہم صرف یہ بیان کیا چاہتے ہیں کہ قطع نظر دیگر معجزات کے جن کے مسیحی مذہب ثابت کیا جاتا ہے مسیحی مذہب خود معجزہ ہے۔ دیکھو جب تمام مذہبوں کےاجزا کی عام ترتیب پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر و ہ تمام وسائل جو مذہب جاری کر نے میں کام آتے ہیں قاعدہ مفروضہ کے مطابق برتے جائیں تو فی الجملہ ہر شخص ایک مذہب جاری کر سکتا ہے۔ مثلاً موجو دہ ہندو مذہب اس طرح جاری ہوا کہ جب عام ہندو بو د ہ مذہب کی روکھی پھیکی حکیمانہ تعلیم سے متنفر ہو ئے اور چاہتے تھے کہ اُس کے خلاف کو قبول کرلیں ۔تب بر ہمنوں نےاُ ن کی خواہش کو پا کر ایک ایسا نو طرز مرصع (خوش بیانی سے آراستہ)مذہب کو ہندوستان سے نیست و نابود کردیا پھر محمدی مذہب عربوں کی حسب طبالع ہونے پر کیسا جلد چاروں طرف پھیل جانے کو تیار ہو گیا ۔اعلیٰ ہذالقیاس آریہ برہمنوو غیرہ بھی حسبِ حال و موافق طبابع انسانی ہیں ۔
اب اسی کے مقابل عیسوی مذہب کو دیکھو جس میں کہا ں خداوند کی وہ نئی اور انوکھی تعلیم نئی پیدائش کی ضرورت جسے نیکودیمس سا اُستاد اور معلم یہود سمجھ نہ سکا اور کہاں پطرس اندریاس وغیرہ مچھوؤں کا وہ ظرف جو پنتی کوست کے دن رو ح قدس سے معمور کیا گیا ۔ بھلا کون کہہ سکتا تھا کہ عام ترتیب کہ مذاہب کے خلاف ایسی بنیاد پر انسان مذہب عیسوی کو قبول کر ے گا پھر باقی مذہب کی فروتنی لاچاری اور گرفتاری کے وقت شاگرد وں کا چھوڑ دینا خود پطرس کا جو ذرا اپنے کوسر گرم مذہب سمجھتا تھا ۔تین بار مسیح کا انکار کرنا اور شاگر د ہی کا اُستاد کو پکڑوا دینا کیاآدمی کوحیرت میں نہیں ڈالتا ۔علاوہ بر یں جب مسیح مصلوب ہو کر دفن ہوا تو عقل کہہ سکتی ہے کہ عام ترتیب مذاہب کے موافق عیسوی مذہب دُنیا سے جاتا رہا اور کوئی صورت پھر اُس کے قائم ہو نے کی نہ رہی ہاں انسانی مذہبوں کے حق میں تو یہ رائے بے شک درست ہے ۔ مگر خلاف اُس کے کیا دیکھنے میں آیا کہ جس طرح دانہ زمین میں گر کر اور مرکر ایک کےبدلے انیک ہو جاتا ہے۔اسی طرح خلاف دستور زمانہ مسیحی مذہب نے زمین میں دفن ہو کر پھر رواج پایا ۔پس جس طرح سچائی سچائی سے نکلتی ہے اُسی طرح معجزہ مسیحی مذہب سے پیدا ہو تا ہے کیونکہ مسیحی مذہب خود معجزہ ہے اور اس کے وسائل خواہ مذہب سے خواہ بانی مذہب سےعلاقہ رکھتے ہوں سب کے سب معجزہ ہیں المطلب مذہب عیسوی اپنے ثبوت میں معجزے کا محتاج نہیں بلکہ وہ آپ معجزہ کو ثابت کرتا ہے۔مذہب سے اس واسطے کہ وہ خلاف اور مذہبوں کے اپنی اشاعت دا فزائش میں کسی دُنیاوی طاقت سے مدد نہیں پاتا کبھی نہ سُنا ہو گا محمد صاحب اور اُس کے خلفا ء محمود غزنوی اور اور نگزیب کی صورت خداوند مسیح یا اُن کے حواریوں یامسیحی سلاطین نے مسیحی مذہب کو بزو ر شمشیر جاری کیا بلکہ برعکس اس کے ابتدائے حکومت پنطوس پلاطوس اور دیگر شاہاں روم نیرو وغیرہ سے جنہوں نے ہمیشہ مسیحی مذہب کی مخالفت میں کوئی بات اُٹھا نہیں رکھی عیسایوں کو شیروں سے پھڑوایا زندہ جلوایا شکنجے میں کھچوایا آخر آج تک عیسائی جابجا کسی نہ کسی صورت سے ستائے جاتے ہیں باوجود وہ کہ گو رنمنٹ موجود ہ عیسائی گو رنمنٹ کہلاتی ہے تو بھی منصف مزاج واقف آئیں سلطنت بر طانیہ کہہ سکتا ہے کہ گورنمنٹ کے نزدیک اور مذہبوں سے عیسوی مذہب کی کوئی زیادہ و قعت نہیں ہے مگر خدا انپے مذہب کو آپ ہی معجزانہ قاعدہ سے بڑھا تا جاتا ہے ۔بانی مذہب سے اس لئے کہ خلاف اور بانیان مذہب کے مسیح کی پیدائش ہی معجزہ ہے جس میں کسی دوسرے کا واسطہ نہیں یعنی یہاں جو مضاف(ملا ہوا) ہے وہی مضاف الیہ(وہ اسم جس کےساتھ کوئی دوسرا اسم منسوب کیا جائے) ہے۔ پس یہ معجزہ نحو کے عام ترتیب کوع تبدیل کر دیتا ہے پھر بعد مصلوبی وہ آپ تیسرے د ن زندہ قبر سے نکل آیا نہ یہ کہ کسی دوسرے نے زندہ کیا کیونکہ وہ زندگی اُسی میں تھی ۔پس اس معجزہ میں بھی خلاف نحوجو مفعول ہے وہی فاعل ہے اور جو صفت ہے وہی موصوف ہے اور یہی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے جو مسیح سے مفت ملتی ہے کاش قومیں جو معجزات پر جاندا دہ یا اُن کی تکذیب(زبانی لڑائی) پر آمادہ ہیں اس مجسم معجزہ یعنی مسیح پرایمان لائیں اور حیات ابدی پائیں ۔