خدا کی ہستی کا ثبوت

God’s Existence

Published in Nur-i-Afshan Oct 18, 1883

خدا کی ہستی

نور افشاں مطبوعہ ۱۸ اکتوبر۱۸۸۳

وجود باری تعالیٰ کا ثبوت دلائل کا محتاج نہیں مگر چونکہ بعض ناظرین اپنی عدم توجہگی(توجہ کے بغیر) کے باعث اس سے پورے آگاہ نہیں ہیں اس واسطے وہ ایک عام فہم دلیلوں کا لکھ دینا خالی از فائدہ نہ ہوگا ۔یہ عام فہم دلیلیں وہ ہیں جو نیچر(قدرت) یعنی دنیا کی پیدائش اس کی حفاظت اور تمام انسانی ارادہ سے اخذ کی گئی ہیں اور انسان کے قائل کرنے کے واسطے بہ نسبت خیالی نتائج کی کی باریکیوں کے کہیں بڑھ کر موثر سمجھی جاتی ہیں ۔

دنیا کی پیدائش دو حالتوں سے خالی نہیں ارادہ سے یا از خود یعنی اتفاق سے ۔ارادی کاموں میں ایک نتیجہ پیدا ہونے کے واسطے ضرور ہے کہ ہر ایک حصہ کا تعلق دوسرے سے پایا جائے اور اتفاقی کاموں میں ٹھیک اس کے برعکس جب ہم کسی جگہ پر اینٹ پتھر وغیرہ ایسی ترتیب سے رکھے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جن سے ایک سڈول عمارت بن گئی ہے تو ہم جھٹ کہہ دیتے ہیں کہ وہ ارادے سے رکھے گئے ہیں اور جب ان کو بے ترتیب ادھر ادھر پڑے دیکھتے ہیں تو یقین سے کہتے ہیں کہ اتفاق سے پھینکے لگتے ہیں ۔اب دنیا اور تمام اس کے متعلقات میں صاف نظر آرہا ہے کہ ایک حصہ کا علاقہ دوسر ے سے ہے اور دوسرے کا تیسرے سے اور مجموعہ ان کا ایک نتیجہ پیدا کرتا ہے۔مثلاً سورج کا علاقہ زمین سے نباتات کی پیدائش کے واسطے مناسب گرمی دینے اور ان کی پر ورش کرنے کے واسطے مینہ اورشبنم برسانے میں ہے اور زمین کا علاقہ نباتات سے ان کے پیدا کرنے اور بڑھنے پھولنے کے واسطے مناسب مٹی اور تراوت (تازگی،ٹھنڈک)بخشنے میں ہے یہ نباتات کا علاقہ حیوانات سے ان کی خورش (خوراک)اور پوشش (لباس)بہم پہنچانے میں ہے اور آخر سب کے مجموعہ سے ایک بڑا نتیجہ پیدا ہوتا ہے جو بے شمار مخلوقات کی زندگی کا قائم رکھنا ہے ۔پس ان سب میں ارادہ کا ہونا صاف ثابت ہے اور یہ ارادہ صرف دنیا کی عظیم بناوٹ اور اس کے متعلقات میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ ہر حصہ میں فرداً فرداً برابر دیکھا جاتا ہے ۔ہر ایک حیوان میں بہ سبب خصوصیات اس کی زندگی کے اور ہر ایک نبات(سبزہ) میں بسبب بہم پہنچنے ایسی ضروریات کے جو اس کی حالت کے مناسب ہیں ۔غرض ادنیٰ مخلوق سے اعلیٰ تک کی خلقت میں یہ ارادہ برابر پایا جاتا ہے ۔

طلوع آفتاب

پس جب دنیا اور اس کے ہر ایک حصہ میں ارادہ کے نشانات صاف صاف پائے جاتے ہیں تو پھر وجو د صاحب ارادہ یعنی ہستی باری تعالیٰ کے اقرار کرنے میں کیا دقت ہے ۔ہم کرہ ارض کو دیکھ کر جس پر دنیا کا صرف نقشہ کھینچاہوا ہے اس کے موجد (ایجاد کرنےوالا)کی حکمت کے قائل اور ثنا خواں (تعریف کرنے والے)ہوتے ہیں پھر ایسی ہستی کے وجود اور اس کی کامل حکمت اور قدرت کے قائل کیوں نہیں ہوتے جس نے اس عظیم دنیا کو معہ اس کی تما م عظمت کے نہ صرف پہلے سے ایجاد کیا بلکہ ایک عجیب وغریب سلسلہ اور ترتیب سے قائم کرکے اس کو بوقلمون (رنگ برنگی)مخلوقات سے آباد کیا ۔

دنیا کی حفاظت یعنی مخلوقات کا سلسلہ ایک ایسی ترتیب سے قائم دیکھا جاتا ہے کہ اس میں بال برابر بھی فرق نہیں پایا جاتا ۔فرض کرو کہ یہ باترتیب صورت ازخود پیدا ہوگئی حالانکہ یہ فرض محال ہے(ناممکن ہے) تاہم یہ فرض کرلینا کہ وہ صورت کسی معین حد تک بدستور قائم رہے گی کسی طرح اعتبار کے لائق نہیں ٹھہر سکتا لیکن دنیا کی ترتیب اور سلسلہ کو ہم آدم سے تااپنے دم بدستور جاری دیکھتے ہیں ۔سورج کا اثر زمین پر بدستور ہے جیسا تھا درختوں پو دوں اور نباتات کی پیداوار ہمیشہ سے یکسا ں ہے ہر ایک تخم وہی پھل دیتا ہے جو پہلے دیتا تھا ۔حیوانات کے ہر قسم کی خلقت اور زندگی کی صورت وہی ہے جو پہلے تھی ۔کیا اتفاق اس باترتیب اور مسلسل انتظام کو ازخود قائم رکھ سکتا ہے ؟نہیں سوا قادر مطلق اور حکمت کے باپ خدا کے ہاتھ کےاور کسی شے میں یہ قدرت نہیں ۔

اب ہم خداکی ہستی کا بڑا ثبوت انسان کے عام رائے  سے مشاہدہ کرتے ہیں جو دنیا کے ہر ایک حصہ اور ہر ایک جگہ میں باوجود مختلف سمجھ بوجھ اور جداگانہ ہست ہست کے بالاتفاق اس کا ہونا پکار رہا ہے ۔عام رائے  یا تو گذشتہ روایتوں سے پیدا ہوتا ہے اور یا آدمیوں کی اپنی عقلی دلیلوں کے نتائج سے ۔غرض خواہ کسی طرح سے ہو بہر حال یہ ایک بڑے قوی ثبوت کی دلیل ہے کیونکہ اگر روایتوں سے ہے  تو ان کا سراغ لگتے لگتے آخر ایک منبع واحد یعنی خود خدا ثابت ہوگا اور اگر انسانوں کی اپنی عقلی دلیلوں کے نتائج سے ہے تو یہ ناممکن ہوگا کہ دنیا کے مختلف حصوں کے تمام آدم زاد ایک ایسی بات پر یوں ہی متفق ہوجائیں جو حقیقت میں موجود نہ تھی ۔اگرچہ اس عام یقین کی بابت شکوک پیدا ہوسکتے ہیں اور ہوئے بھی ہیں لیکن سیاحوں کے بیانات نے ثابت کردیا ہے کہ کوئی قوم دنیا پر آج تک ایسی نہیں دیکھی گئی جس میں معبود کے اقرار اور  مذہبی عبادت کے کچھ نہ کچھ نشان نہ پائے جائیں البتہ کہیں کہیں ایسے آدمی ہیں حتی کہ مہذب ملکوں میں بھی بعض بڑی لیاقت کے پائے جائیں گے جو خدا کی ہستی کے برملا انکاری (اعلانیہ انکار کرنے والے منکر)ہیں لیکن ایسے چند آدمیوں کی شہادت باقی خلقت کی شہادت کے آگے کیا حقیقت رکھ سکتی ہے ۔عام لوگ سورج کی روشنی کا اقرار کرتے ہیں اور اگر دوایک جنم کے اندھے انکار ی ہوں تو ان کے انکار سے کیا نقصان ۔

آخر میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ نیچر خداکی ہستی کا ثبوت تو بخوبی دے رہی ہے لیکن ہمیشہ اس ثبوت کو غلطی سے محفوظ نہیں رکھ سکتی وہ اپنے خیالات محض ان چیزوں سے لیتی ہے جو دیکھنے ،سننے، سونگھنے، چکھنے یا چھونے میں آسکتی ہیں ۔اور بھی وجہ ہے کہ سچا معبود کبھی اجرام فلکی کی صورت میں اور کبھی زمینی اشیاءمثلاً آگ،پانی اور مٹی وغیرہ کی ہیئت (بناوٹ،حالت)میں غلطی سے ملایا جاتا رہا ہے قریباً ہر ایک حصہ پیدائش کا کیا جاندار اور کیا بے جان یارہے باری سے پرستش کی شئے یا معبود بنتا رہا ہے پس خدا کی بابت صحیح اور نیک خیال قائم کرنے کے واسطے ایک اور چیز کی ضرورت ہے جو ان شبہات کو بالکل رفع کر سکتی ہے اور وہ الہٰام ہے ۔الہٰام ہی تما م شبہات  کے بادلوں کو ہمارے آگے سے ہٹاتا اور الہٰی عظمت کی تجلیات کو جہاں تک کہ انسان کی سمجھ میں آسکتی ہیں ہمارے سامنے ظاہر کرتا ہے۔ اسی سے ہم کو خدا کی توحید اس کے قادر مطلق اور ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کی خبر ملتی ہے اور یہی ہم کو سکھاتا ہے کہ ہم ایک ایسی ہستی کے ہاتھ میں ہیں جس کے علم سے ہم دور نہیں بھاگ سکتے اور جس کی قدرت اور طاقت ہم اپنے اوپر سے کسی طرح ہٹانہیں سکتے ۔

Leave a Comment