جہادِ قرآنی اور عدالتی انصاف

Eastern View of Jerusalem

Quranic Jihad and Judicial Justice

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan Feb 14, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۱۴ فروری ۱۸۸۴ ء

زمانہ ترقی کرتا ہے اور جو لوگ اس کی رفتار تر قی کو بے نظِر غور معائنہ کرتے ہیں وہ زمانہ کے ساتھ چلتے ہیں۔جس قسم کا زمانہ ہوتا جاتا ہے اس قسم کی رائیں(آراء) ظاہر کرتے ہیں اور  ایسی پختگی سے قدم رکھتے ہیں (بزعم خود ) کہ گزشتہ زمانہ کے اہل الرائے کو غلط رائے کے ظاہر کرنے والے بتلاتے ہیں۔

کچھ عرصہ گزرا کہ اہل اسلام کے سربرآوردہ لوگوں نے اس امر پر کوشش کی (اور کررہے ہیں) کہ مسئلہ جہاد قرآنی کو دوسری طرز پر ظاہر کیا اور قرآن اور احادیث کے ایسے معنی بتا ئے کہ وہ صرف دفعیہ اور انتظام مخالفت اور رفع شر کے واسطے جائز ہے نہ کہ کفارہ کو اسلام پر لانے کے واسطے وغیرہ وغیرہ ۔مگر ان آیات قرآنی کو نظر انداز کرتے ہیں جن میں ہدایت ہے کہ’’ مشرکوں کو جہاں پاؤ مار و جب تک کہ وہ توبہ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں‘‘ (سورۃ تو بہ فاذالنسلخ وغیرہ) ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن میں چار قسم کا جہاد قرآنی ہے (۱)دفعیہ(۲)انتقام (۳)انتظام ترقی سلطنت (۴) جبراً ایمان لانے کے لیے ۔

قرآن میں چار قسم کا جہاد قرآنی ہے

سوموجودہ اہل اسلام ایمان بالجبر کو نظر انداز کرتے ہیں اس کی وجہ (اگر میں غلطی نہیں کرتا ) صرف یہ ہے کہ وہ اظہار وفاداری کرتے ہیں اور دکھلاتے ہیں کہ ہم اس مسئلہ کو ویسا تسلیم نہیں کرتے لیکن غلطی اس میں یہ ہے کہ وہ معنی جہاد قرآنی کے اپنی طرز پر کرتے ہیں اور وہ ایسے ملتی ہیں کہ کسی عالم محمدی نے آج تک نہیں کئے اور نہ سوائے دوچار باشندگان اہل ہند کے آج کل کوئی ایسے معنی لیتا ہے ۔ہم یہ امر ظاہر کرکے کہ عالمگیر وتیمور ومحمود نے کس طرح اس مسئلہ کا انکشاف اور عمل کیا ایک کثیرگروہ کی دل شکنی کرنا نہیں چاہتے صرف یہ سوال کرتے ہیں کہ عرب و افغانستان وایران وروم کے عالمو ں کی کیا رائے ہے آیا وہ بھی اس قسم کی رائے کا اظہار کرتے ہیں یا نہیں اگر انہیں سے ہمارے ملک کے اہل الرائے (سید احمد خاں بہاد ر ومولوی محمد چراغ علی خان بہاد رودیگر صاحبان ) کے موافق چند سربرادر وہ صاحبان کی یہ رائے ہوتو ہم تسلیم کریں گے کہ مسئلہ جہاد اب تک متنازعہ فیہ ہے اور اس قسم کے مسئلہ میں اہل الرائے کی رائے مختلف ہے کسی کی رائے کسی طرح ہے اور کسی کی رائے کسی آذر قسم کی ہے لیکن جب کہ تفاسیر اور عالموں کی رائے ایک ہی قسم کی رہی ہے تو ا ب جو رائے اس کے برخلاف ظاہر کرتے ہیں ان کی کوئی اور غرض ہوگی ۔جس کو ہم بلحاظ پولٹیکل مسئلہ کے ظاہر نہیں کرتے ۔اگر ہند کے موجودہ اہل الرائے کو اپنی رائے پر بھروسہ ہے تو بہتر ہے (اب تک کیوں ایسا نہیں کیا ) کہ اس رائے کو فارسی ،عربی اور ترکی میں چھپوا کر  ایران وغیرہ ممالک میں بھیج دیں تو ظاہر ہوجائے گا کہ وہاں کے عالمان محمدی کی رائے اس امر میں کیا ہے ۔ذرہ غور کرنا چاہیے کہ محمدی سلطنتوں میں غیر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اگر وہ آزادی اور مساوات کو استعمال کرتے ہیں تو ہم مان لیں گے کہ جہاد قرآنی کا مطلب صرف دفعیہ اور انتقام مخالفت اور رفع شرک واسطے جہاد کرنا ہے اور اگر اس کے برخلاف ہے تو اس رائے ہندوستان کی وقعت ظاہر ہے کہ کیا ہے ۔تھوڑے عرصہ کے واسطے آنکھ بند کرکے تسلیم کرلو کہ ابھی ہند میں محمدی سلطنت ہے تو معلوم کروگے کہ آزادی اور مساوات اور مسئلہ جہاد کا کیا حال ہے ۔صاحبان اہل الرائے کو کسی سلطنت اور بااقتدار شخص کا نمونہ پیش کرنا چاہیے کہ دیکھو وہاں اس مسئلہ پر یہ رائے اور یہ عمل ہے ۔ صرف چند صاحبان کی رائے بمقابلہ اصلی الفاظ قرآن احادیث اور نمونہ موجودہ کے کیا وقعت رکھ سکتی ہے ہاں اگر یہ اہل الرائے اس طرح سے بیان کریں کہ یہ مسئلہ تو اسی طرح سے مندرج ہے اور اسی طرح سے اس پر گزشتہ زمانہ میں (ہند میں ) عمل رہا اور اب بھی محمدی سلطنتوں میں اسی کی پیروی ہوتی ہے۔لیکن ہماری رائے بلحاظ انسانی ہمدردی اور آزادی کے ویسی نہیں ہے تو ہم خوشی سے اس کو مان لیں گے لیکن اگر اپنی رائے بھی بدل لو اور پھر جس چشمہ سے وہ رائے نکالتے ہو صریحاً(صاف)اس کے بھی برخلاف چلو تو ہم ہرگز تسلیم نہ کریں گے ۔

مولوی محمد حسین اغلب نے اپنے رسالہ اس کے ملکی اور عدالتی انصاف میں واقعات گزشتہ (عالمگیر وغیرہ ) تاویلیں کی ہیں اور محمدی سلطنتوں کے انصاف کو ثابت کر نا چاہا ہے مگر ہم صرف اس مختصر سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ موجودہ سلطنتیں اسلام کی کس طرح انصاف کرتی ہیں ۔اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر ہم تاویلات مولوی صاحب پر غور کریں گے ۔زمانہ سلف میں صرف اکبر نے بے تعصبی سے کام کیا (ہند میں ) لیکن علمائے محمدی کی رائے اس کی نسبت کیا ہے ؟یہ کہ وہ محمدی نہیں تھا ۔ جدید الرائے صاحبان بجبر ایمان (زبردستی ایمان) لانے کے الزام سے قرآن کو بچانا چاہتے ہیں اور اس کے ضمن میں عدالتی انصاف محمدی شرع سے بھی ثابت کرانا چاہتے ہیں جواَنہونی بات ہے ۔اگر انصاف کا ذکر ہوتو افغانستان اور ایران عرب کو برکنار رکھ کر ہم روم کی سلطنت پر نظر کریں گے جس کی تقلید اس ملک کے ریفارمر (اصلاح کار)کرتے ہیں ۔وہاں ہندو تو ہیں مگر بلگیر یا سرویاوغیرہ کے نصاری رعایا کے ساتھ کب انصاف ہوتا ہے ۔ہم اس کی تشریح کرکے اپنے محمدی احباب کو جوش دلانا نہیں چاہتے لیکن انہیں پر (اگر انصاف کرنا چاہیں ) چھوڑتے ہیں وہ خود ہی دیکھ لیں کہ وہاں کے محمدی سلطنت غیر مذاہب والوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں جو لے دے مولوی محمدحسین اغلب نے راجہ شیوپرشاد پرکی ہے اس کے ساتھ ہمارا اس قدر تو اتفاق ہے کہ انہوں نے ملک ہند کے واسطے آئندہ بہتری کے خیالات ظاہرنہیں کئے ،لیکن ہم اغلب صاحب کے ساتھ ان واقعات ماضیہ کی تردید (تاویلات ) میں متفق نہیں ہیں جو معتبر تا ریخی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں ۔اگر ہم راجہ شیو پرشاد کے ساتھ ایک امر میں متفق نہیں ہیں تو یہ ضرور اور لازم نہیں کہ حقیقی واقعات سے چشم پوشی کرکے ان کو ملزم ٹھہرائیں ۔پس نتیجہ یہ ہے کہ جہاد قرآنی کافروں (بلحاظ خیال محمدی ) اور بے دینوں کے برخلاف جائزاور روا ہے جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور نماز نہ پڑھیں اور ان کاعدالتی انصاف غیر مذہب والوں کے ساتھ تعصب کے ساتھ رہا ہے اور موجود ہ سلطنت ہائے محمدی میں اسی طرح جاری ہے اور اس امر کا ہم جواب دیتا نہیں چاہتے کہ بروئے قرآن واحادیث درخواستیں (گورنمنٹ میں ) پیش ہوتی ہیں اور خارن آفس سے آمنّا وصدقنا کی صدائیں آتی ہیں اس کی نسبت صرف اس قدر کہاجاتا ہے کہ

رموز مملکت خویش خسرواں وانند

یہ صرف  تمہید کے طور پر لکھا گیا ہے ارادہ ہے کہ آئندہ بحوالہ آیات قرآن واحادیث اس امر کو ثابت کر کے دکھلایا جائے کہ مسلمہ جہاد پر جو رائے ظاہر کی جاتی ہے وہ قرآن اور حدیث کے موافق نہیں ہے اگر رائے دہندگان اس کو اپنی رائے ظاہر کریں تو عمل نہیں پر جو معنی کئے جاتے ہیں وہ برخلاف قرآن ہیں اور اس طرح کبھی عمل نہیں ہوا اور نہ ہوتا ہے ۔

Leave a Comment