جنابِ مسیح کا جی اٹھنا

Eastern View of Jerusalem

The Resurrection of Jesus

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan May 01, 1884

نور افشاں مطبوعہ یکم مئی ۱۸۸۴ ء

پچھلے مہینے میں یعنی ماہ اپریل کی تیرھویں(۱۳) تاریخ میں مسیحی جماعت کے بہت لوگوں نے خداوند یسوع مسیح کے جی اٹھنے کی یاد گاری کا تہوار منایا اس تہوار کا نام ایسٹر کا تہوار ہے میں اس کی بابت چند باتیں نور افشاں کے پڑھنے والوں کی گوش گزار کرتا ہوں ۔

۱۔ یہ تہوار جیسا اوپر مذکور ہوا مسیح کی مردوں میں سے جی اٹھنے کی یاد گاری میں ہے سارے مسیحیوں کا اعتقاد یہ ہے کہ خداوند یسوع مسیح صلیب پر کھینچا گیا مر گیا اور دفن ہوا اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اٹھا آخری حصہ اس عقیدہ کا ایسا ہی اعتبار کے لائق ہے جیسا پہلا حصہ یعنی مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا ایسا ہی پختہ دلیلوں سے ثابت کیا ہوا ہے جیسا اس کا صلیب پر کھنچا جانا چاروں انجیل نویسوں نے اس کر صراحت سے بیان کیا ہے اور اعمال کی کتاب اور پولس رسول اور دیگر رسولوں کے خطوط میں صفائی سے مذکور ہواان سارے بیانوں کو اگرہم فراہم کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ خداوند یسوع مسیح جی اٹھ کر چالیس دن اس دنیا میں رہا اور اس ہنگام(وقت، زمانہ)میں مختلف طور پر مختلف مواقع میں مختلف اشخاص کے روبرو ظاہر ہو ا کم سے کم گیارہ ظہور کا تذکرہ نئے عہد نامہ میں پایا جاتا ہے ۔پہلے وہ ایک عورت پر جب کہ وہ اکیلی تھی ظاہر ہوا پھر اس کو کئی عورتوں نے مل کر دیکھا بعد ازاں ایک مرد نے اور پھر دو مردوں نے پھر دس رسولوں کو شام کے وقت ایک کمرہ میں دکھائی دیا اس کے پیچھے گیارہ رسولوں پر جبکہ وہ ایک کمرہ میں اکٹھے تھے اور بعد اس کے پانچ مختلف مواضع(گاؤں کی جمع، جگہوں) میں جن میں سے ایک موضع(گاؤں)میں کم سے کم پانچ سو(۵۰۰) آدمی حاضر تھے شاگردوں نے اس کے بدن کو چھوا اور اس کے ساتھ بات چیت کی اور اس کو کھاتے اور پیتے دیکھا یہ لوگ بلیغ الاعتقاد (کامل یقین، پختہ یقین)نہ تھے جب تک اس کو نہ دیکھا تھا اس پر یقین نہ لائے کہ وہ سچ مچ جی اٹھا مگر جبکہ کئی بار مشاہدہ ہو اتو یقین آیا مسیحی مذہب میں کوئی بات ایسی پختہ اور قابل اعتبار نہیں جیسا اس کا مردوں میں سے جی اٹھنا اس کی مخالفت میں اج تک کسی لا مذہب نے کوئی کامل دلیل پیش نہیں کی رسولوں پر اس کا جی اٹھنا ایسا موثر ہوا کہ ان کی اندرونی حالت اور زندگی بالکل بدل گئی اس سے پہلے وہ نہایت کمزور اور ڈرپوک تھے لیکن مسیح کو زندہ ہوا دیکھ کر ڈر اور خوف انہیں نہ رہا اور انہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ اسی شہر کے لوگوں کے سامنے جہاں مسیح پچاس(۵۰) روز پیشتر مصلوب ہوا تھا اور انہیں لوگوں کے سامنے جنہوں نے اس کو صلیب پر کھینچا تھا یعنی سردار کاہن اور قوم کے بزرگوں کے سامنے مسیح کے جی اٹھنے پر گواہی دی ہزارہا آدمی ان کی گواہی کو قبول کر کے مسیحی جماعت میں شامل ہوئے اس وقت اس کی اور ان کی گواہی کے خلاف پر کوئی کھڑا نہ ہوا اور نہ ان کے جھٹلانے کا کسی نے قصد کیا ۔اگر مسیح قبر میں سے جی نہ اٹھتا بے شک اس کے دشمن جنہوں پیلاطس کے پاس جا کر کہا تھا کہ تین دن تک قبر کی نگہبانی ہو تا کہ اس کے شاگرد رات کو آکر اسے چرا نہ  لے جائیں اور کہیں کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے تا کہ پچھلا فریب پہلے سے بد تر نہ ہو ۔اگر مسیح سچ مچ مردوں میں سے جی  نہ اٹھتا تو ضرور یہ لوگ اس کی لاش قبر میں سے لا کر دکھلا دیتے ۔علاوہ بریں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسیح کے جی اٹھنے کا یقین شاگردوں کےدلوں میں ایسے کامل طور پر پیدا ہو گیا تھا کہ انہوں نے اس کی خاطر اپنی جان تک دینا دریغ نہ کیا اور بعضوں نے دے بھی دی ایسے یقین کا سبب ان کا پورا اطمینان خاطر تھا اب چاہئے کہ یہ ہمارے بھی اطمینان کا سبب ٹھہرے جرمنی دیس کے مشہور منکر پاس اوراسٹراس صاحب نے مان لیا ہے کہ’’ شہادت اس امر میں ایسی قوی ہے کہ عقل باور کرتی ہے کہ ضرور کچھ عجیب بات اس ماجرے کے ساتھ وقوع میں آئی ہو گی ‘‘۔

معجزہ کے سواالہٰام یا رسالت قطعی ثبوت کو نہیں پہنچتا

۲۔ مسیح کا جی اٹھنا جیسا قابل اعتبار ہے ویسا ہی مسیح سچے دین کے اصول اور بنیادی مسائل میں سے شمار ہوا ۔ یہ اس کا کامل ثبوت ہے کہ مسیح وہی نجات دینے والا تھا جس کی بابت نبیوں کی پیش گوئی میں مذکور ہوا یہ وہ بڑا نشان ہے جس کا تذکرہ خود مسیح نے کیا جب کہ یہودیوں نے اس سے آسمانی معجزہ طلب کیا یعنی یوناہ نبی کا نشان اور ہیکل کی دوبارہ تعمیر کرنے کا نشان اس کے ڈھا دینے کے بعد اگر وہ مرد وں میں سے جی نہ اٹھتا تو اس کے شاگرد اس پر ایمان نہ لاتے ۔یہ ماجرا اس نجات کے کام کا اختتام تھا جس کے پورا کرنے کے لئے وہ دنیا میں آیا اس سے ثابت ہوا کہ خدا کی درگاہ میں اس کا کفارہ مقبول ہوا اور گناہ اور موت پر وہ غالب آیا اس لئے رسول کہتا ہے کہ وہ ہماری خطاؑؤں کے واسطے حوالے کر دیا گیا اور پھر مردوں میں سے جلایا گیا تاکہ ہم راستباز ٹھہریں پھر لکھا ہے کہ خدا نے ہم کو اپنی بڑی رحمت سے یسوع مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کے باعث زندہ امید کے لئے ازسرنو پیدا کیا (رومیوں ۴: ۲۵ ، ۱۔پطرس ۱: ۳ )۔

اس سے پایا جاتا ہے کہ اگر مسیح زندہ نہ ہوتا تو ہماری امید بھی امر وہ اور منقطع ہونی سوا اس کے یاد رکھنا چاہئے کہ مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا ہماری روحانی زندگی اور نعمتوں کےساتھ تعلق رکھتا ہے۔ رسولوں کے خط میں ایمان داروں کے حق میں بیان ہوا ہے کہ وہ مسیح کے ساتھ جی اٹھے اور اس کی نئی زندگی میں شریک ہو کر آسمانی مکانوں میں اس کے ساتھ بیٹھا کے گئے ہیں ۔مسیح کے جی اٹھنے سے ہم کو بھی تسلی اور یقین ہوتا ہے کہ قیامت کے روز ہم بھی جی اٹھیں گے وہ پہلا پھل ہے اور جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اس کے پیچھے جی اٹھیں گے ان کو موت سے مخالفت ہونا چاہئے اور قبر ان کے واسطے ڈرنے کا باعث نہیں مسیح ان کا سر ہے اور وہ ان کے بدن کے اعضا اگر سر زندہ ہے تو بدن بھی زندہ ہے ۔جب کہ ہم مسیح کے جی اٹھنے کی یاد گاری کریں تو ہمیں یہ باتیں بھی یاد رکھنی چاہئیں مسیح کی موت اور کفارہ کو یاد کرنا اچھا ہے لیکن اس کے جی اٹھنے کو یاد کرنا اس سے بھی اچھا ہے کیونکہ یہ اس کے کفارے کے تکملہ(تکمیل) کا ثبوت ہے ۔

Leave a Comment