تناسخ

Eastern View of Jerusalem

The Reincarnation

By

Rev.P.C Uppal

پادری پی۔سی اوپل

Published in Nur-i-Afshan September 05, 1886

نور افشاں مطبوعہ ۵۔ستمبر۱۸۸۶

تناسخ(ایک صورت سے دوسری صورت اختیار کرنا) یعنی چورا سی جیون یا آوا گون (ہندوؤں کے اعتقاد کے مطابق بار بار مرنے اور جنم لینے کا سلسلہ)

تناسخ یعنی آواگون کسے کہتے ہیں ؟ انسان کی روح کا اپنے قالب یا بدن سے نکل کر دوسرے قالب یا بد ن میں جانے کو تناسخ یعنی آواگون کہتے ہیں اور یہ انسان کی موت کے وقت وقوع آتا ہے ۔

 اہل ہنود(ہندو کی جمع) اور اہل بدھ کے سواس مسئلہ کو اور کوئی قوم یا اہل مذہب نہیں مانتے ۔اہل بد ھ چونکہ ہمارے ملک ہندو ستان میں نہیں اور نہ ہم اُس مذہب سے کا فی علم رکھتے ہیں اور چونکہ اس مسئلہ کے حسن و قباحت (برائی،نقص)دونوں مذہبوں سے متعلق ہیں ہم فقط ہندوؤ ں پر کفایت کر یں  گے۔ پنڈت دیا نند صاحب کی تشریف آوری سے پیشتر ہم سُنتے تھے کہ جب آدمی مر جاتا ہے اُس کی روح بموجب اپنے اعمال کے کسی نہ کسی حیوان کے جسم کو اختیار کر لیتی ہے ۔ خواہ وہ جسم انسان کا ہو یا حیوان کا مطلق کا یہاں تک کہ میلے اور گندگی کے کیڑے کے جسم کو بھی اختیار کرتی ہے اور چور اسی لاکھ یا کم یا زیاد ہ جیون کے بعد پھر آدمی بنتا ہے ۔البتہ نیک لوگوں کو انسان اور اچھے پاکیزہ جانوروں کا جسم ملتا ہے اور بدگردار شریروں کو بُرے اور گندے ناپاک جانوروں کا یہ عقیدہ ہندوستان کے تمام اہل ہنود میں مروج (رائج)ہے ۔بلکہ اکثر آریہ لوگ بھی اس کو اسی طرح مانتے ہیں مگر بعض آریہ اپنی سہولیت کے واسطے یوں کہتے ہیں کہ

’’آدمی کی روح کسی جانور کے جسم میں نہیں بلکہ پھر انسان کے بدن میں انتقال کرتی ہے نیکوں ۔ خدا رپر ستوں کی روح آرام میں اور بدوں اگیانیوں کی مصیبت اور اگیان میں رہتی ہے ‘‘۔

یہ مسئلہ تناسخ نہ صرف پرانوں اور شاستروں میں جن کو پنڈت دیانند صاحب اور اکثر آریہ لوگ بر ہمنوں کی ساخت بتلاتے ہیں مندرج ہے بلکہ خاص ویدوں میں موجود ہے ۔ ہم نے خود پنڈت صاحب سےاس مسئلہ کے بارے میں بحث مباحثہ کیا ہے وہ اُس کے پورے معتقد(پیرو) تھے ۔ہمیں ذرہ بھی شک نہیں کہ کوئی ہندو خواہ پرانے فیشن کے بر ہمنوں  کامعتقد ہو یا نئے فیشن کے پنڈت صاحب کا اس عقیدے سے انکار کرے گا۔ بلکہ سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ تناسخ کا مسئلہ شاستروں پر انوں اور خاص ویدوں میں موجو د ہے ۔

تناسخ ایک صورت سے دوسری صورت اختیار کرنا

 جب ہم سوال کرتے ہیں کہ تناسخ کی غرض کیا ہے سب پُرانے اور نئے فیشن کے ہندو ہم آواز ہو کر جواب دیتے ہیں کہ انسان کے کاموں کی سزا اور جزا اسے حاصل اور مراد ہی یعنی شریروں کو سزا اور نیکوں کو جزا ۔جب کو ئی نیک خدا پرست آدمی مر گیا اُس کو اچھے انسان یا پاکیزہ حیوان مطلق کا جسم ملا یعنی یاتو و ہ گیان والا بر ہمن یا گائے بیل بنا ۔ ہم اُس بر ہمن سےپوچھتے ہیں بھائی تو بتا کہ تو بر ہمن کیوں بنا اور تیرے کونسے کاموں کا پھل تجھ کو ملا ۔ تو اپنے پہلے جنم کی کچھ خبر دے سکتا ہے ؟ وہ کچھ جواب نہیں دے سکتا ۔ گائے بیل سے دریافت کرنے کی حاجت نہیں کہ حیوان مطلق ہیں نہ حیوان ناطق (بولنے والا)اور سزا اور جزا سمجھ دار کو اُس کے قابل ہونے پر دی جاتی ہے کہ ایک سے دکھ پائے اور دوسرے سے آرام کہ یہ اُس کے کاموں کا ثمر ہ ہے ۔ شیرخوار جب اپنے والدکی داڑ ھی پکڑ لیتا یا پاگل بیہوش آدمی لوگوں کو گالیاں دیتا اور پتھر مارتا ہے تو ان کو سزا نہیں  دی جاتی بلکہ اُن کو ایسی حرکات  سے باز رکھنے کے لئے تدار ک(چارہ،علاج) کیا جاتا ہے ۔ جب بر ہمن اور گائے بیل مدلل اور معقول جواب نہیں دیتے کہ ہمارے فلاں فلاں کا موں کا ثمر ہ ہے کہ ہم ایسا جنم رکھتے ہیں تو سالم عقل فتویٰ  دیتی ہے کہ یہ بات سچ نہیں کہ وہ پہلے جنم کے نیک کاموں کے سبب اس لئے پر تر یعنی پاک جاندار پیدا ہوئے ۔

 بفرض محال اگر ہم مان لیں کہ جزا اور سزا کی خاطر نیکوں کو اچھا اور بدوں کو بر اجنم ملتا ہے تو ایک اور مشکل در پیش ہے کہ یہ جزا اور سزا اچھا جنم اور بُرا جنم انسان کے نزدیک معلوم ہوتا ہے ۔ اصل ہیں تو ایسا نہیں ہے ۔ مہتر(بزرگ) آپ کو بر ہمن سے ہر گز کم نہیں سمجھتا اور اپنی حالت میں مست اور خوش رہتا ہے  ۔بلکہ حیوانات مطلق بھی اپنی اپنی حالتوں میں نہایت خوش ہیں و ہ اپنی حالت کو مُصیبت نہیں سمجھتے ۔ میلے کا کیڑہ بھی میلا کھا کے خوش ہوتا ہے ۔ سب اپنی اپنی حالت میں خوش ہیں اگر یہ کہا جائے کہ انسان میں قسم قسم کے درجہ ہیں ۔ کوئی امیر ہے  اور کوئی غریب ایک عیش کرتا اور دوسرا مصیبت میں رہتا ہیں ۔ یہ بھی غلطی ہے کیونکہ جن کو ہم آرام میں سمجھتے ہیں حقیقت میں بڑے دُکھی ہوتے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ غریب مفلس کسان بادشاہ سے بھی زیادہ خوش ہوتا کہ بادشاہ کو بےشمار فکر اور اندیشے بے آرام کرتے ہیں اور وہ کبھی سکھ اور چین سےنہیں سوتا اور غریب کسان سوکھی پھیکی روٹی کھا اور ٹھنڈا پانی پی کر اپنی جورو اور بال بچوں کےپاس آرام سے سوتا اور کوئی بُرا خواب بھی اُس کو دِق نہیں کرتا۔ اچھا بھائی کس کو آرام میں اور کس کو دُکھ میں کہو گے ،اگر کسی کو آرام میں بر عکس اس کے سمجھیں تو ٹھیک نہیں ہے اس سے یہی ثابت ہو ا کہ بر ہمن اور گائے بیل کا جنم اُن کو اُن کے پہلے جنم کے باعث نہیں ملا ۔ کیونکہ دلیل معقول معدوم (ناپید،نابود،فنا کیا گیا)ہے ۔

 ایک اور بات کا ذکر کرنا نہایت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جزا اور سزا اس غرض سے دی جاتی ہے کہ جزا پانے والا اپنے کاموں کا پھل دیکھ کر خوش ہوا ور نیکی میں ترقی کرے ۔دوسروں کے لئے ترغیب کا باعث ہواور سزا پانے والا اپنے بُرے کاموں سے باز آئے اور  دوسروں کے لیے باعث  عبرت ہو ۔ اچھا بھائی اگر نیک مرد مرکر برہمن یا چھتری یاکوئی پاکیزہ جانور بنا تو جزا کی غرض پوری نہیں ہوئی کیونکہ تجربہ سے معلوم ہے کہ بر ہمن چھتری اور لوگوں  کی نسبت نیکی اور پاکیزگی میں زیادہ تر قی نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی دیکھا گیا ہے کہ مہتر(نیچ طبقے کے ) لوگ زیادہ خدا تر س اور عاجز اور فروتن ہوتے ہیں البتہ بر ہمن اور چھتری لوگ دنیاوی باتوں میں تو ترقی کرتے ہیں مگر خدا تر سی ۔ خیرخواہی ۔ حلیمی ۔ فروتنی میں کسی سے زیادہ نہیں بلکہ غرور اورتکبر سے پُر ہو تے اور دوسروں کوحقیر اورنیچ جانتے ہیں اور گائے بیل اور کسی پاکیز ہ جانور کا ذکر کرنا فضول ہے ۔کیونکہ وہ ترقی کرنے کا مادہ بھی نہیں رکھتے ۔ برعکس اُس کے جب شریر مر ا تو اُس کو بڑے نیچ آدمی یا نا پاک جانور کا جسم ملا بھلا و ہ کب بدی سے باز آئے گا وہ تو شریر وں کے ساتھ رہ کے کہ ایسے ہی اُس کے ساتھی ہو ں گے زیادہ شرارت کرے گا اور ہر جنم میں بد تر جنم اختیار کرے گا اور اُس کی سزا سے دوسروں کوعبرت کہا ں ہوئی کیونکہ دوسرے تو جانتے ہی نہیں کہ وہ کیوں ایسا شر یرنانا پاک جانور آیا بدی سے باز رہے گا یا نہیں اور دوسروں کو اُس سے عبرت ہو گی یا نہیں یہ ہم آپ کے انصاف پر چھوڑتے ہیں ۔ہم تو بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ ناطق  نہ ہونے کے باعث نہ ترقی کر سکتے اور نہ شرارت سے باز رہ سکتے اور نہ دوسروں کی عبرت کا باعث ہو سکتے ہیں۔ جب آدمی اپنے بد کامو ں کے سبب شریر اور نیچ پیدا ہوا یا کسی ناپاک جانور کا جسم اُس کو ملاتو پہلی حالت میں اغلب ہے کہ و ہ بد تر ہو تا جائے اور ہر جیون میں اُس کو بد تر جنم لینا پڑے گا اور دوسرے حالت یعنی جانور کے جسم میں ہو کر تو وہ بالکل گیان یعنی علم سے خالی ہو گیا تناسخ کی غر ض قطعی معدوم ہو گئی ہر کوئی مان لے گا کہ انسان کے سوا مادہ علم یا گیان اور کسی جانور میں نہیں ہے ۔جب یہ مادہ ہی نہ رہا تو سزا اور جزا اور نتیجہ تناسخ باکل فضول اور باطل ٹھہرا ۔

جب یہ مادہ ہی نہ رہا تو سزا اور جزا اور نتیجہ تناسخ باکل فضول اور باطل ٹھہرا

 ایک اور بات نہایت مشکل لاحل پیش آتی ہے کہ چونکہ اور بدی راستی اور نا راستی کی تمیز کی صفت فقط انسان میں  ہے اور نتیجتاً وہ اپنے افعال و اقوال اور خیالات کا ذمہ دار ہے اور تجربہ ہم کو قائل کرتا ہے کہ کوئی انسان گناہ سے خالی نہیں یا یوں کہیں کہ جب انسان پیدا ہو ا تو ضرور گناہ کرے گا پس لازمی دلیل ہے کہ یہ تناسخ کا تسلسل تاابد جاری رہے گا یعنی اگر ممکن ہو کہ انسان چوراسی لاکھ یا زیادہ یا کم جیون حاصل کرکے پھر انسان بنے تو وہ ضرور گناہ کر ے گااور ضرور پھر اُسی درد میں یعنی تناسخ کے تسلسل میں جا پڑئے گا اور اُس سے کبھی رہائی نہ پائے گا ۔اس تسلسل کا آخر نہیں ۔پس خدا کا کیا فائد ہ ہوا اور وہ ہم کو اُس سے رہائی نہیں دےسکتا کیونکہ تناسخ کے قانون کے بموجب انسان اپنے اعمال کا پھل پائے گا اگر نہ پائے تو قانون ٹوٹتا ہے حیوان مطلق کو چھوڑ ہم انسان کی بابت بولتے ہیں کہ جو کچھ وہ ہے اور جو دُکھ سکُھ وہ حاصل کرتا ہے سب پہلے جنم کے اعمال کا ثمرہ ہے  وہ خوداس کو نہ بدل سکتا ہے اور نہ خدا اس کو بہتر بناسکتا اور نہ قانون شک کھائے گا پس انسان کی فعل مختاری گم ہوئی اور خدا کی قدرت مطلق نہ رہی ۔پھر جب انسان اپنے بداعمال کا ثمرہ پاکر ناپاک جانور بنا اور ہر جنم میں بدتر ہوتا رہا یہاں تک کہ بدترین گندگی کے کیڑے کے جسم میں آیا تو پھر کیا بنے گا ۔کیا انسان بنے گا یا معدوم ہوجائے گا اگر کہو انسان تو ہر کوئی دانشمند آدمی اس پر ہنسے گا اور جواب کو بے وقوفی سمجھے گا کیونکہ تناسخ کے عقیدے سے ثابت ہے کہ نہایت عمدہ اعمال کا ثمرہ انسان کا جنم ملتا ہے تو اس کیڑے نے کونسی بھگتی اور تپسیا اور نیک اعمال کئے کہ انسان بنا اگر کہو کہ معدوم ہوجائے گا تو یہ بھی مسئلہ مذکور کے خلاف ہے کیونکہ ہر کوئی اپنی سزاوجزا پاکر کچھ بنتا رہے گا اگر کہو کہ پرمیشور میں لین یعنی جذب ہوجائے گا تو ہم ضرور اتنا ہی کہیں گے کہ اشرف المخلوقات کو تولین یعنی جذب نہ کیا مگر بدترین گندے میلے کیڑے کو کرلیا جس میں تمیز ہی نہیں اس میں کچھ عقل نہیں یہ محال مطلق ہے عام فہم انسان بھی اس کو نہ مانے گا ۔

آخر میں ہم سوال کرتے ہیں کہ یہ اور یعنی تناسخ یا جیون اور آواگون کا تسلسل کب سے شروع ہوا ۔جواب ملتا ہے کہ ہمیشہ سے کہ نہ اس کا شروع ہے اور نہ آخر کیونکہ سرشٹی یعنی دنیا انادی یعنی بے ابتداء ہے اور نتیجتاً بے انتہا۔کیا وید شاستروں کی تعلیم یہ ہی ہے ؟ بے شک یہی ہے ۔پنڈت صاحب نے ایسا ہی فرمایا اور ویدوں میں یہی درج ہے ۔اچھا بھائی جب اس تسلسل کا شروع اور آخر نہیں اور یہ سر شٹی انادی ہے تو پرمیشور یعنی خدا کون ہے  ۔خالق اور خلقت اور مخلوق کیا چیز یں ہیں مخلوق کا تو شروع ہوتا ہے اور اس سرشٹی(دنیا) کا شروع نہیں ۔پس یہ مخلوق نہیں ۔پھر خالق کون اور اس کی ضرورت کہاں ؟جب مخلوق نہیں خالق ہی نہیں اور اس کا کام یعنی خلقت بھی نہیں ویدوں سے تو خالق کی نیستی پائی گئی پس کوئی خدا نہیں ۔وہ آریہ لوگوں کا فخر کہ وید پرمیشور کی کی کتابیں ہیں ویدوں سے پرمیشور ثابت ہی نہیں ہوتا تو پرمیشور کی کتابیں کیا ؟ یونان اور روم کے حکماء مثلاًسقراط،  بقراط ، افلاطون سسرو کیٹووغیر ہ نے بھی ایسی کتابیں لکھی ہیں جن سے خدا کی ہستی کا انکار ٹپکتا ہے اُن کو ایشور کرت یعنی خدا کا کلام مان لو ۔

 سچ ہے کہ انسان نے آپ کو دانا تصور کر کے آپ کو بے وقو ف ثابت کیا اور وہ کیا کچھ نہ کرئے گا کیونکہ شیطان نے اُس کی عقل کو تاریک کر رکھا ہے اگر خدا اپنے رحم اور عقل سے ہماری ہدایت نہ کر ے تو ہم سب گمراہ رہے گے اس لئے الہٰام الٰہی کی ضرورت ہو ئی اور شکر بے حد اُس کی رحمت کے لئے کہ اُن سے ہم کو بغیر الٰہام کے گمراہ نہیں چھوڑا اور الہٰام کا مل تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ تو ریت ۔ زبور اور انبیا کے صحائف اور انجیل میں موجود ہے ۔ طالب حق اگر چاہے دیکھ اور معلوم کر سکتا ہے ۔ مسئلہ تناسخ پر ہم مفصل تحریر نہیں کر سکتے کہ اس مضمو ن میں طوالت کی گنجایش نہیں ہے انشااللہ تعالیٰ بشر ط زندگی و صحت و فرصت ایک عمدہ چھوٹی کتاب میں مفصل بیان کریں گے فی الحال مذکورہ بالا چند اعتراضات ناظرین نے پیش ہیں خدا کریم حق کی تلاش میں پڑھنے والوں  کی مد د اور ہدایت کرے ۔

Leave a Comment