The Bigotry
By
Jameel Singh
جمیل سنگھ
Published in Nur-i-Afshan May 28, 1884
نور افشاں مطبوعہ ۲۸ مئی ۱۸۸۴ ء
چند روز ہوئے کہ میں بازار میں متصل (قریب)منڈی وعظ کررہا تھا اتفاقاً مولوی محمود شاہ صاحب جو ہزارہ والے کے نام سے مشہور ہیں وہاں آنکلے اور انہوں نے یہ سوال کیا کہ کیا توریت میں کہیں لکھا ہے کہ خدا پاک ہے؟ میں نے جو اب دیا کہ ہاں مولوی صاحب یہ صفت تو خدا تعالیٰ کی اور صفات سے زیادہ مقدم ہے اور جابجا توریت میں اس کا ذکر ہے چنانچہ فرشتے اس کی اور کسی صفت کا نام لے کر ان کی تعریف نہیں کرتے بلکہ خاص اسی صفت سے اس کی ثنا خوانی کرتے ہیں اور پکارتے ہیں قدوس ،قدوس،قدوس رب الافواج ۔اس پر مولوی صاحب نے فرمایا کہ تو ریت میں لفظ پاک لکھا ہوا دکھلاؤ۔ جو خداکی شان میں آیا ہو ۔اس وقت میرے پاس تو ریت موجود نہ تھی میں نے کہا مولوی صاحب آپ ارشاد فرمائیں تو آپ کے مکان پر یا جس جگہ آپ چاہیں حاضر ہوکر توریت میں بہت جگہ اس کا بیان دکھلاؤں گا ۔مولوی صاحب نے فرمایا کہ میں تمہارے مکان پر کل آٹھ(۸) بجے آؤں گا اور دیکھوں گا ۔میں نے عرض کی کہ آپ شوق سے میرے مکان پر تشریف لائیں میں آپ کے واسطے منتظر رہوں گا ۔غرض مولوی صاحب بجائے آٹھ (۸)بجے کے قریب دس(۱۰) بجے تشریف لائے ۔اور بجائے میرے مکان پر آنے کے جیسا کہ مولوی صاحب نے بازار میں فرمایا تھا فرمانے لگے کہ مسجد میں جو تمہارے مکان کے متصل ہے چلو وہیں بیٹھیں گے ۔میں نے عرض کی کہ مولوی صاحب آپ میرے مکان پر تشریف لائیں میں آپ کو یہاں کچھ اندیشہ نہیں۔ نہیں بیٹھئے انہوں نے فرمایا کہ نہیں بہتر ہے کہ میدان میں بیٹھو ۔میں نے کہا بہت خوب اور ایک میدان میں میں نے مولوی صاحب کے واسطے کرسی بچھا دی اور وہ بیٹھ گئے اور محلے کے بہت سے لوگ اور اور بھی جو مولوی صاحب کے ساتھ آئے تھے بیٹھ گئے میں نے توریت میں سے اوّل (احبار ۱۹: ۲) آیت پڑھ کر سنائی جو یہ تھی کہ ’’خدا نے موسیٰ کو خطاب کرکے فرمایا بنی اسرائیل کی ساری جماعت کو کہہ اور انہیں فرما کہ تم مقدس ہو کر میں خداوند تمہارا خدا قدوس ہوں ‘‘۔اس پر مولوی صاحب نے فرمایا کہ قدوس کے معنی کیا ہیں میں نے کہا پاک ۔مولوی صاحب نے کہا کہ یہ عربی لفظ ہے اور تم کو عربی کا علم نہیں اور تم اس کے معنی نہیں جانتے میں نے فوراً غیاث اللغات لاکر مولوی صاحب کو دکھلادی اور اس میں یہی معنی نکلے ۔مگر مولوی صاحب نے لفظ قدس نکال کر فرمایا کہ دیکھو قدوس قدس سے نکلا ہے اور اس کے معنی پہاڑ کے ہیں ۔
میں نے عرض کی کہ مولوی صاحب مہربانی سے اس عبارت میں پہاڑ کے معنی لگا کردکھلائیں ۔اور مولوی صاحب نے اس طر ح پر تعصّب سے آنکھیں بند کرکے معنی کئے کہ خدانے موسیٰ کو خطاب کرکے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ اور انہیں فرما کہ تم پہاڑ بنو کہ میں خداوند تمہارا خدا پہاڑ ہوں ۔پھر میں نے کہا کہ اچھا مولوی صاحب آپ لفظ پاک تو تسلیم کریں گے اور میں نے (خروج ۱۵: ۱۱) نکال کر دکھلایا پر تعصّب کو چھوڑ کر مولوی صاحب کس طرح راستی پر آئیں ۔ میں نے اور بہت جگہ میں تو ریت میں سے نکال کردکھلایا کہ خدا کی پاکیزگی کا بیان تمام توریت میں بھر ا ہے اور اگر یہ صفت اس میں نہ ہو تو وہ گنہگاروں سے گھن نہ کرے اور ان کو سزا نہ دے پر ظاہر ہے کہ خدا تمام گناہوں سے نفرت کرتا ہے اور گنہگارکو ضرور سزا دے گا ۔واضح ہو کہ تعصّب بُری بلا ہے یہی بطلان مذاہب کا بانی اور اسی کا دشمن ہے ۔ایک شخص جا ناحق پر ہے اور اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا اگر وہ اس راستی اک قائل بھی ہو جائے لیکن اس پر دہ ڈال کے سچائی کو چھپاکے اور جھوٹ ہی کا دم بھر ے گا ہرچند کہ اس میں اس کا نقصان ہی ہو اور بہت سی گفتگو مولوی صاحب موصوف نے کی پران کا ایک ایک لفظ تعصّب سے بھرا تھا اور حق بات کو خواہ ثابت بھی ہو ہرگز نہ مانتے تھے اور برخلاف اس کے اپنے اسلام کے جوش میں آکر قرآن کی وعظ شروع کردی اور اسی طرح فضول تقریر کے بعد برخاست ہوئے ۔خدا کرے کہ یہ تعصّب کا بھاری پردہ ہرایک بشر کی آنکھوں سے اُٹھ جائے تاکہ سچائی اور راستی کی پہچان پاکر خدا کے راہ راست پر آکر نجات ابدی کے مستحق ہوں ۔