بائبل اور مسیح کی الوہیت پر ایک اعتراض

Eastern View of Jerusalem

The Objection on the Bible And Deity of Christ

By

Rev.Mulawi Muhammad Shah

پادری مولوی محمد شاہ

Published in Nur-i-Afshan August 29, 1888

نور افشاں مطبوعہ ۲۹۔ اگست۱۸۸۹ء

 جناب ایڈیٹرصاحب

 تسلیم ۔ ۱۱ جولائی ۱۸۸۹ء کا نور افشاں بندہ کی نظر سے گذرا اور جب بندہ نے اُس کو پڑھا تو معلوم ہو ا کہ ایک سائل(سوا ل کرنے والا) بنام مولوی محمود شاہ صاحب نے جناب مسیح کی الوہیت اور بائبل کے کلام اللہ ہونے پر مسیحیوں سے سوال کیا ہے۔ بند ہ نے بھی مناسب جانا کہ سائل کی خدمت شریف میں اس سوال کا جواب خدا کے کلام سے کچھ تھوڑا سا ذکر کروں یہ سائل کا سوال کچھ نیا سوال نہیں ہے جناب مسیح کی الوہیت اور بائبل کے کلام اللہ ہونے پر مسیحیوں نے بہت سی کتابیں لکھیں ہیں۔ شائد سائل نے کبھی اُن کو نہیں دیکھا ۔ پہلے سائل کو مناسب تھا کہ’’میزان الحق۔ اور مسیح ابن اللہ اور نیا زنامہ‘‘ کا مطالعہ کرنے اور پھر مسیحیوں سے جناب مسیح کی الوہیت اور بائبل کے کلام اللہ ہونے پر سوال کرتے ۔ خیر ۔ سائل اگر بائبل کو غور سے پڑھتے تو اُن کو معلوم ہو جاتا کہ نبی اور رسولوں نے روح القدس کی ہدایت سے جناب مسیح کے حق میں کیا کیا  بیان کیا ہے ۔ او ر پھر جناب مسیح نے انجیل میں بذات خود اپنی نسبت کیا دعویٰ کیا ہے ۔ اگر سائل تواریخِ کلیسیا کو بھی غور سے مطالعہ کرتے تب بھی سائل کو معلوم ہو جاتا کہ قدیم کلیسیا کے لوگوں نے جناب مسیح کی ذات و صفات کی نسبت کیا لکھا ہے اور و ہ خود اُس کی نسبت کیا سمجھ کر اس سے گناہوں کی مغفرت اور برکت پانے کے لئے دعا کرتے تھے۔ جب ہم خدا کے کلام کو غور سے پڑھتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ نبی اور رسول جناب مسیح کی الوہیت کے قائل تھے اورجناب مسیح میں وہ ذات ِالہٰی  مان کر اُس پر اپنا بھر وسہ رکھتے تھےدیکھو (زبو ر ۲: ۱۲) آیت میں داؤد نبی روح القدس کی ہدایت سے کیا لکھتے ہیں ۔’’ بیٹے کو چومو تا نہ ہو  کہ وہ بیزار ہو اور تم راہ میں ہلاک ہو جا ؤ جب اُس کا قہر یکا یک بھڑکے مبارک وہ سب جس کا توکل اس پر ہے ۔ ( ملاکی ۴: ۲) کو دیکھویہاں پر نبی جناب مسیح کو آفتاب صداقت کہتا ہے ۔

  اب بندہ پاک کلام سے جناب مسیح کی الوہیت کی بابت چند دلیلیں پیش کرتا ہے جن کو سائل غور سے پڑھے ۔

بائبل میں دیکھیں تو اُن کو معلوم ہو جائے گا کہ جناب مسیح کون ہے

(اوّل )

 پاک کلام میں وہ سارے نام جو کہ لا محدود خدا کے لئے ضروری ہیں و ہ سب نام جناب مسیح کو منسوب کئے جاتے ہیں ۔ مثلاً پاک کلام میں وہ خداوند وں کاخداوند کہلاتا ہے ( زبور ۱۱۰ ۔ ۱ ) خداوند نے میر ے خداوند کو فرمایا کہ تو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں تلے کی چوکی بناؤں ۔ و ہ خدائے قادر کہلاتا ہے ۔ ( یسعیاہ ۹: ۶) کہ ہمارے لئے ایک لڑکا تو لد ہو ا ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا۔ اور سلنطت اُس کے کاندھے پر ہو گی وہ اس نام سے کہلاتا ہے۔ عجیب ۔ مشیر ۔ خدائے قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ وغیرہ  (ملاکی۴: ۲) 

یہوواہ یا خداوند کہلاتا ہے ۔ وہ خدا کہلاتا ہے ( رومیوں ۹: ۵) اور باپ دادے ان ہی میں کے ہیں اور جسم کی نسبت مسیح بھی اُنہیں  میں سے ہوا جو سب کا خدا ہمیشہ مبارک ہے آمین وہ خدائے بر حق اور ہمیشہ کی زندگی کہلاتا ہے( ۱۔یوحنا ۵: ۲۰) وہ بزرگ خدا کہلاتا ہے ( طیطس ۲: ۱۳) وغیر ہ سائل کو مناسب ہے کہ ان آیات کو غور سے دیکھے ۔

(دوم)

 پاک کلام میں وہ تمام صفات جو کہ لا محدود خدا کی ذات کے لائق ہیں وہ سب جناب مسیح کی حق میں منسوب ہو تی ہیں۔ وہ ہر جگہ حاضر وناضر کہلاتا ہے

 ( یو حنا ۳: ۱۳) اور کو ئی آسمان پر نہیں گیا سواُس شخص کے جو آسمان پر سےاُتر ا یعنی ابنِ آدم جو آسمان پر ہے۔اس آیت میں جناب مسیح یہ ظاہر کرتے میں ابنِ آدم ہو کے الہیٰ ذات رکھتا ہوں اور میں الہٰی شخص ہو کے آسمان و زمین دونوں جگہوں میں موجو د ہوں۔ ( متی ۲۸: ۲۰) دیکھو۔ و ہ غیر مبدل(لاتبدیل) کہلاتا ہے (عبرانیوں ۱۳: ۸) یسوع کل اور آج اور ابد تک یکساں  ہے ۔ وہ ازلی کہلاتا ہے ۔ ( میکاہ ۵: ۱) ( یوحنا ۸: ۵۸) یسوع نے اُنہیں   کہا میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں پیشتر اس سے کہ ابراہا م ہو میں ہوں ۔ وہ اوّل و آخر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

 (مکاشفہ ۱: ۸) میں الفا اور اومیگا ہوں یعنی میں اوّل اور آخر ہو ں  وغیرہ ۔ وہ عالم الغیب کہلاتا ہے  ( مکاشفہ ۲: ۲۳) اور ساری کلیسیا ؤں کو معلوم ہو گا کہ میں وہی ہوں جو دلوں اور گردوں کا جانچنے والاہوں وغیرہ ۔ ( یوحنا ۲: ۲۴؛۴باب ۱۸؛ ۱۶باب ۳۰ ) ان آیات میں ہمارے جناب مسیح کے عالم الغیب ہونے کا بیان ہے ۔

(سوم )

 پاک کلام میں اس کی عبادت ایسی کی جاتی ہے جو کسی دوسرے کی نہیں کی جاتی ہے ۔ باپ کے برابر یعنی خدا کے برابر اس کی عزت کرنی چاہئے ( یوحنا ۵: ۲۳) تاکہ سب بیٹے کی عزت کریں جس  طرح سے باپ کی عزت کرتے ہیں جو بیتے کی عزت نہیں کرتا باپ کی جس نے اُسے بھیجا ہے عزت نہیں کرتا۔

 باپ کے بر ابر اُس پر ایمان لانا چاہئے یعنی خدا کی برابر ( یوحنا ۱۴: ۱) تم خدا پر ایمان لاتے ہو مجھ پر بھی ایمان لاؤ ۔ اُس کے آگے ہر ایک گُھٹنا جُھکے گا( یسعیاہ ۲۵: ۲۳) ( رومیوں ۱۴: ۱۰ ۔۱۱) ( فلپیوں ۲: ۱۰ ) سائل کو مناسب ہے کہ ان آیات کو بھی غور سے دیکھے ۔

(چہارم )

پاک کلام میں اُس کے ایسے کاموں کا تذکرہ ہے کہ جن سے ظاہر ہو تا  ہے کہ و ہ خدا ہے اوروہ کام ایسے ہیں جو فقط خدا ہی کر سکتا ہے ۔

کیونکہ اُسی سے ساری چیزیں جو آسمان او رزمین پر ہیں

 وہ خلقت کا پیدا کنندہ کہلاتا ہے ۔ ( کلسیوں ۱: ۱۶) کیونکہ اُسی سے ساری چیزیں جو آسمان او رزمین پر ہیں دیکھیں اور اندیکھیں کیا تخت کیا حکومتیں کیا ریاستیں کیا مختاریاں پیدا کی گئیں وغیرہ ( یو حنا ۱:۱۔ ۳) وہ خلقت کو سمبھالتا ہے ۔( عبرانیوں ۱: ۲۔ ۳) ان آخر ی دنوں میں ہم سے بیٹے کےوسیلے بولا جس کو اُس نے ساری چیزوں کا وارث ٹھہرا یا اور جس کے وسیلے اُ س نے عالم بنا ئے و ہ اُس کے جلال کی رونق اور اس کی ماہیت کا نقش ہو کے سب کچھ اپنی ہی قدرت کے کلام سے سمبھالتا ہے وغیر ہ ۔ لوگوں کواُن کے گناہوں سے خلاضی دیتا ہے ( عبرانیوں ۹: ۱۲) اپنی قدرت سے معجزہ دکھلاتا ہے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ ( مرقس ۲: ۵) قیامت کے دن مردو ں کو زندہ کرئے گا ( یوحنا  ۵: ۲۸۔۲۹) یہ سب آیا ت ہمارے جناب مسیح کے حق میں ہیں اگر سائل مہر بانی سے ان کو بائبل میں دیکھیں تو اُن کو معلوم ہو جائے گا کہ جناب مسیح کون ہے بائبل میں نبی اور رسول نے جناب مسیح کو الہٰی درجہ دیا ہے اگر نبی اور رسول جناب مسیح کو فقط انسان ہی خیال کرتے تو اس کو ایسے درجہ میں بیان نہ کرتے جیسا کہ اُنہوں نے روح القدس کی ہدایت سے پاک کلام میں بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی عقل اُس کو قائل کرتی ہے کہ کسی انسان کو الہٰی درجہ دے کر اس کو خدا جاننا یہ بات انسان کی عقل کے نزدیک بہت بُری معلوم ہے اور خدا کے نزدیک بھی یہ ایک بڑا بھاری گناہ ہے جیسا کہ خدا کے پہلے اور دوسرے حکم میں ذکر ہے ایسا کون انسان ہے جو یہ کلمہ کہہ کر اپنے اُوپر خدا کی لعنت لے اور ہمیشہ کے عذاب کا مستحق ہو جائے خداکی اور مقدسوں اور فرشتوں کی صحبت سے محروم ہو جائے ۔ مولوی صاحب خدا کے کلام میں ایسی بہت سی آیا ت ہیں جن سے جناب مسیح کی الوہیت ثابت ہوتی ہے ۔ اور جناب مسیح نے بھی اپنے آپ کو یہودی قوم کے سامنے ابن اللہ کہہ کراپنے میں ذات الہٰی کے شامل ہو نے کا دعویٰ کیا ہے کہ میں ابن ِاللہ ہوں اور خدا میرا باپ ہے ۔اگر آپ کہو کہ یہودی اور فرشتہ بائبل میں ابن اللہ کہلاتے ہیں ہاں بے شک اُ ن کی نسبت ابنِ اللہ لفظ لکھا ہے مگر جس غرض سے جناب مسیح اپنے کو ابن اللہ کہتے تھےاُس غرض سے نہ ہوئے اور نہ فرشتہ ابن ِآدم کہلاتے ہیں ۔جناب مسیح اپنے کو ابن اللہ کہہ کر اپنے میں ذات ِالہٰی کو شامل کر کے خدا کے برابر ٹھہراتے تھے بلکہ خدا کا اور اپنا ایک ہونا بیان کرتے تھے دیکھو (یوحنا ۷: ۹) سے شروع کر کے جبکہ فلپس نے جناب مسیح سے سوال کیا کہ ’’اے خداوند باپ کو ہمیں دکھلا تب جناب مسیح نے فلپس کے جواب میں کہا کہ اے فلپس میں اتنی دیر سے تمہارے ساتھ ہوں اور تم نے مجھے نہ جانا جس نے مجھ کو دیکھا باپ کو دیکھا ہے کیونکہ میں اور باپ ایک ہیں ‘‘پھر اگر سائل یوحنا کی انجیل کا مطالعہ کرے گے تو اُن کو معلوم ہو جائے گا جب کہ یہودی لوگوں نے جناب مسیح کو کہا کہ تو انسان ہو کے  تئیں خدا کے برابر ٹھہراتا ہے اور اپنے کو ابن اللہ کہہ کر اپنے میں خدا کی ذات کو شامل کرتا ہے یہ تو کفر کہتا ہے اور انسان ہو کے اپنے کو خدا بناتا ہے ۔ قدیم زمانہ کے ایماندار لوگ جناب مسیح کو ایک الہٰی شخص جان کراُس کی پیروی دل و جان سے کرتے تھے اور دشمنوں کی ایذاسے موت کے وقت اُ س کو اپنی روح سپر د کرتے تھے دیکھو ( اعمال ۷) میں استفنس کا ذکر ہے کہ اُس نے موت کے وقت کیا کہا ۔ یہ کہ جناب مسیح میں ذات الہٰی ہے یعنی وہ ایک الہٰی شخص ہے ۔اس بات کو جان کر مسیحی اُس کو خدا مانتے تھے اس عقیدہ کا انکار قرآن میں بھی موجود ہے کہ عیسائی لوگ جناب مسیح کو خدا جانتے ہیں جیسا کہ سورہ مائدہ  آیت ۷۲ میں لکھا ہے

;لَقَدۡ کَفَرَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ مَرۡیَمَ

یعنی البتہ تحقیق کا فر ہوئے وہ لوگ جو کہتے ہیں تحقیق اللہ  وہی ہے مسیح بیٹا مریم کا ۔ وغیرہ

 قرآن میں عیسائیوں کے اس عقیدہ کا انکار اُس وقت کیا گیا ہے جب کہ یہ عقیدہ قدیم عیسائی کلیسیا میں رائج تھا اور جناب مسیح کو خدائے مجسم مانتےتھے چنانچہ یہی عقیدہ جو کہ قدیم کلیسیا کا خدا کے کلام کے مطابق تھا آج کل بھی یہی عقیدہ مسیحی کلیسیا میں پایا جاتا ہے ۔ مولوی صاحب مسیحی لوگ ہر زمانہ میں جنابِ مسیح کی الوہیت کو خدا کے کلام کےمطابق مانتے چلے آئے ہیں یہ کچھ نئی بات ہے جو کہ ہم لوگوں نے اپنی طرف سے ایجاد کی ہو۔ یہ ہمارا عقیدہ خدا کے کلام کے مطابق ہے ۔اس عقیدہ کو ہم چھوڑ نہیں سکتے ہیں کیونکہ اس عقیدہ کا چھوڑ نا گویا خدا کے کلام کو رد کرنا ہے اور اپنے اوپر خدا کی لعنت لینا ہے فقط ۔

Leave a Comment