ایک نظر تو جہ کی ذرا اِدھر بھی

Eastern View of Jerusalem

Get your attention here

By

Rev.Dharam Dass

پادری دھرم داس

Published in Nur-i-Afshan August 29, 1889

نور افشاں مطبوعہ ۲۹۔ اگست ۱۸۸۹ ء

 ’’جب وہ تمہیں ایک شہر میں ستائیں ۔ تو دوسرے میں بھاگ جاؤ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہر وں میں نہ پھر چکو گے ۔ جب تک ابن آدم نہ آلے‘‘ ( متی ۱۰ : ۲۳) ۔

 عہد ِجدید میں مسیح کی آمد اپنے محل اور موقعہ کے مطابق ایک سے زیادہ معنی رکھتی ہے۔یہاں پر صرف آیت کے متعلق آمد کا ذکر کیا جائے گا ۔ چنانچہ کل مسیحی خاص کر کے ذیل کے پانچ خیالوں میں سے کسی نہ کسی کو اس آیت کے سمجھنے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں ۔

 ( ۱) ۔ مسیح کا یروشلیم میں شاہانہ طور سے داخل ہونا ۔ دیکھو ( متی ۲۱: ۵۔ ۱۱) وغیرہ

( ۲) ۔ مسیح کا مصلوب ہو کر زندہ ہو نا ۔ دیکھو ( اعمال ۳: ۱۹۔۰ ۲۔ ۲۶ ) وغیرہ 

 ( ۳) ۔ پنتیکوست کے دِن روح القدس کا نازل ہونا ۔ دیکھو (یوحنا ۱۴: ۱۷۔ ۱۸) وغیرہ

 (۴) ۔ مسیح کا قوم یہود پاس انتقام کے لئے آنا ۔ دیکھو ( متی ۲۱: ۴۰ ۔ ۴۳) ( ۲۴: ۲۹) وغیرہ

 ( ۵) ۔ آخری دن منصف ہو کر آنا دیکھو ( متی ۲۵: ۲۱۔ ۲۳) (اعمال ۱: ۹۔ ۱۱)

( مکاشفہ ۱: ۷)وغیرہ ۔

مسیح کا یروشلیم میں شاہانہ طور سے داخل ہونا

 میری ناقص عقل میں یہ چوتھا خیال سندی آیت سے زیادہ مطابقت کھاتا اور اس کا مطلب کھولتا ہے آیت کے شروع ہی میں ہم رسولوں کا انجیل کی بشارت اور مسیح کے نام کی خاطر ستائے جانے کا ذکر دیکھتے ہیں ۔ لیکن ہم جب پہلے دوسرے اور تیسرے خیال کو اپنے ذہن میں رکھتے ہو ئےذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جیسا مسیح نے اپنے شاگردوں کو ( ۲۱اور ۷۰) دودو کر کے بھیجا ۔جب تک تو و ہ آیت کے مطابق ستائے نہیں گے تھے بلکہ خوشی سے ایسا کہ ان کا دل ہم بڑھا ہو ا دیکھتے مسیح کے پاس واپس آئے ۔ دیکھو ( مر قس ۶: ۳۰) ( لوقا۹: ۱۰ )وغیر ہ پھر جب کہ مسیح گدھی پر سوار ہو کر یروشلیم میں داخل ہوا ( خیال اوّل ) تو نہ تو رسول اس سے پیشتر اس طرح سے ستائے گئے تھے۔ کہ اُ ن کو شہر بہ شہر بھاگنا پڑا ۔ اور نہ آیت ہی میں مسیح کے شاہی طور پر یروشلیم میں داخل ہو نے کا ذکر ہے ۔ صرف اتنا کہ ’’ ابن آدم نہ آئے‘‘۔ پھر جب ہم آگے بڑھ کر خیال کرتے ہیں تب بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے مصلوب ہو کر زندہ ہونے۔ ( دوسرا خیال ) بلکہ پینتی کوست کے د ن کے ( تیسرا خیال ) کچھ دن بعد تک بھی وہ آئت کے حوالے کے مطابق نہ ستائے گئے۔ ہاں بے شک پینتی کوست کے دن کے بعد ہی مسیح کا فرمان ( متی ۱۰: ۲۳) کا اُن کی نسبت خاص طور سے شروع ہوتا ہے ۔ دیکھو ( اعمال ۸:۱ ؛۱۱: ۹؛ ۱۴: ۶) وغیرہ ۔

اور جب و ہ ستائے جائیں  تو اجازت نہیں د ی گئی تھی کہ اپنی جان بے فائدہ دے دیں یا ایسی صورت میں اپنے خداوند کے انجیلی پیغام کو چھپادیں ۔ بلکہ اپنی جان کی حفاطت اور خوشخبری کے سُنانے کی خاطر وہ موقعہ پا کر ایک سے دوسرے شہر کو بھاگ جائیں ۔ گویا مسیح مہر بان باپ کی طرح اُن سے کہتا ہے کہ اے میرے رسولو اگر چہ تم ستائے جاؤ گے اور میری خاطر ایک شہر سے دوسرے میں بھاگتے پھروگے پر میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں ( جہاں جہاں وہ آباد ہیں پہلے یہودیوں کو پھر یونا نیوں کو سُناتے ہوئے نہ پھر چکوگے جب تک ابن آدم نہ آلے ۔ اور کس لئے؟ انتقام کے لئے کیونکہ اہل اسرائیل مجھ کو مار یں  گے ۔ اور تم کو ستائیں گے ۔ دیکھو انگور ستان کی تمثیل ( متی ۲۱: ۳۳۔ ۴۶ خاص کر ۴۱آیت ) ۔

اور جب رسول یہودیوں سے عید پینتی کوست کے بعد پر خاص کر کے استفس کی شہادت کر کے ستائے جاتے رہے تب اُنہوں نے تتر بتر ہو کر جہاں کہیں موقعہ پایا کلام کی بشارت دی نیزا پنی جانوں کو بچایا دیکھو ( اعمال کی کتاب ۔ پولو س کے بعض خطوط ۔ اور تواریخ کلیسیا پہلی صدی  وغیرہ ) تاوقت یہ کہ اُن کا خداوند ’’ابن ِآدم ‘‘۔ آپہنچا ۔ جہاں تک کہ اہل اسرائیل کی آبادی کے کئی ایک شہر رہ گئے کہ جن میں انجیل کے مبشر پھر نہ چُکے تھے۔ جب کہ ابنِ آدم آگیا اور رومی فوج کو اپنا ہتھیار بنا یا تا کہ قوم یہود کی شرارت کے لبر یز پیالہ کو اپنے غضب سے توڑ ے اور اُن کے اختیار ات ( جو کہ اُس زمانہ میں وہ رکھتے تھے ) احکام ریت و رسومات ۔ دینی ودنیوی انتظام ہیکل کی عبادت وغیرہ کو ختم کرے ۔ دیکھو ( متی ۲۱: ۴۳، ۲۴: ۲۷۔۴۴) ( لوقا ۱۸: ۸، ۲۰: ۹۔۱۸) وغیرہ ۔ اور جو کہ ایک نمونہ ہے اُس آخری بڑے عدالت کے د ن کا ( خیال پانچواں ) جس میں شریروں اور نا راستوں پر جو کہ سچائی پر ایمان نہ لائے بلکہ ناراستی سے راضی تھے سزاپائیں گے ۔ دیکھو (۲ ۔تھسلنیکوں ۲: ۱۲۔ اور متی ۲۵: ۳۱) وغیرہ ۔

 اس لئے خداوند اُن سے تاکید اً فرماتے ہیں کہ اے میرے رسولو جلدی کرو ۔ ایسا کہ تم وقت نہ پاؤ گے تاکہ اسرائیل کے سب شہروں میں پھر پاؤ ۔ تا کہ میری  گواہی دو جب کہ وہ لوگ جنہوں نے تم کو ستایا بر باد کئے جائیں  گے ۔ زمین اُن سے لی جائے گی دنیا میں وہ تتر بتر کئے جائیں  گے اور اسیری اور غلامی میں اِدھر اُدھر بھیجے جائیں  گے ۔چنانچہ یہ وار دات مسیح کے فرمان کے چالیس بر س بعد ۷۰ء؁ میں وقوع میں آئی جب کہ تیتس کے ماتحت رومی فوج نے ہو کر یروشلیم کا جس میں ہزار ہا ہزار یہودی پناہ گیر تھے محاصرہ کیا اور جو شہر کے باہر تھے اُن میں سے سینکڑوں بطور کھیل تماشہ کے صلیبوں پر لٹکائے گئے ۔ شہر میں سخت کال پڑا ۔ یہاں تک کہ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کو پکا کر کھا گئیں ۔ آپس میں لوٹتے مارتے ۔ ایک دوسرے سے تلوار چھینتے پھر تے تھے۔ شہر کی نالیاں آدمی کے خون سے پانی کی طرح بہتیں اور گلیاں کو چہ سببب بے شمار لاشوں کے بند تھے۔ آخر ش شہر ٖغارت ہو ااور ہیکل مسمار کی گئی ملک  یہودیہ کے ہزار وں اور لاکھوں جو ان قید ہوئے ۔ اور غلامی کی حالت دو دو روپیہ فی جان کا کوئی خرید ار نہ ہو ا ۔ دیکھو یوسیفس مورخ کی کتاب بنام ’’ جنگ قوم یہود ‘‘ ۔جلد ۶۔

 پس مسیح کا آنا جو اس آئت سے علاقہ رکھتا ہے ۔ اور جس میں شاگر دوں کے لئے آگاہی اور دلاسہ اور قوم یہود کی بر بادی کی پیش خبر ی پائی جاتی ہے ۔ مذکورہ بالابیان کے مطابق معلوم پڑتا ہے ۔

Leave a Comment