ایک محمدی اور عیسائی کے سوال و جواب

Eastern View of Jerusalem

Christian and Muslim Dialog

By

M.D

ایم ڈی

Published in Nur-i-Afshan Dec 16, 1890

نور افشاں مطبوعہ۱۶اکتوبر٫۱۸۹۰

مسلمان :کیوں صاحب ’’آپ کی انجیل میں لکھا ہے کہ مبارک وہ ہیں جو صلح کرانے والے ہیں‘‘بات تو اچھی معلوم ہوتی ہےلیکن کیا سب جو عیسائی کہلاتے ہیں ضرور صلح کرانے والے ہیں؟

عیسائی:نہیں صاحب۔ میں افسوس سے کہتا ہوں کہ بہت ایسے ہیں جو صرف نا م کے عیسائی ہیں اور ان میں کوئی خوبی نہیں پائی جاتی جس کے واسطے ہمارے خداوند نے مبارک کہا ہے۔

مسلمان:تو بھلا یہ بتلاؤ پھر فرق کیا ہوا اس طرح تو ہمارے مسلمانوں میں بہت آدمی برائے نام مسلمان ہیں تو پھروہ فضیلت دین عیسوی کی کہاں رہی جس پر آپ زور مارتے ہو؟

عیسائی:سُن لیجئے !دین کی فضیلت دین کے ماننے والوں پر منحصر نہیں ہےبلکہ اُس اصول پر کہ جس پر وہ دین مبنی ہو۔انسان مانے یا نہ مانے یہ اُس کی ذمہ داری ہے لیکن اصول پاک اور صاف فضیلت بخش چاہئے۔مثلاًمیں ادب اور عاجزی سے اور معافی مانگ کر عرض کرتا ہوں کہ اہل اسلام میں یہ اصول صلح کرانے والا جس کو آپ بھی اچھا جانتے ہو پایا نہیں جاتا۔

مسلمان:واہ صاحب ۔آپ عجیب قِسم کے آدمی ہو کہ ’’ہمچومن دیگرے نیست ‘‘ کے مسئلہ پر چلتے ہو ۔یہ کس طرح ثابت کر سکتے ہو کہ اسلام میں صلح کرانے والا کوئی اصول نہیں ہے ۔

عیسائی:صاحب من۔بھلا یہ بتلائیے کہ اگر ایک فوج کا سپہ سالار ایک کمزور ی میں خودمُبتلاہو تو اُس کی فوج یا گروہ جو اُس کی پیروی کرتا ہے کب تک اُس کی فوج یا وہ گروہ جو اُس کی پیروی کرتا ہے کب اُس کی کمزوری پر غالب ہوکر کامیاب ہو گی۔

مسلمان:بے شک یہ تو سچ ہے کہ رہبر یا سپہ سالار میں وہ خوبی ضرور ہونی چاہئے کہ جو اُس کے پیرؤں میں ہونا ضروری اور مطلوب ہے۔

عیسائی:مرحبا ۔آپ کے انصاف پر۔ لیکن میں تو خود ادب سے عرض کرتا ہوں۔خفا نہ ہوناجبکہ خود محمد صاحب میں صلح کرانے کی روح نہ تھی۔تو اہلِ اسلام میں کِس طرح ہو سکتی ہے۔

مسلمان :سنو صاحب۔ آپ پھر غصہ دلانے والی بات کرتے ہو یا تو یہ ثابت کرو ورنہ پھر ایسی بات اگر منہ سے نکالو گے تو کچھ اور سُن لو گے۔

عیسائی:بھائی صاحب۔سُنئے پہلے عرض کیا کہ دل دُکھانے کے واسطے یہ بات نہیں کہتا۔لو اَب صاف سُن لواور ثابت بھی کر لو (عیسائی)کیا یہ بات سچ نہیں کہ جس آدمی کی دو عورتیں ہوتی ہیں اِن ہر دو عورتوں میں صلح اور میل غیرممکن ہو؟

مسلمان:اِس سے تو انکار نہیں ہو سکتاکیونکہ ہم اس کی خرابی روز دیکھتے ہیں۔یہاں تک کہ رشک کے سبب زہر کھلانے تک نوبت پہنچی ہے۔

عیسائی:آفریں!جب دو عورتوں کی صلح کا یہ حال ہے تو جہاں چار یا گیارہ عورتیں ہوں اور وہ حصّہ اپنے خاوندکی محبت اور اتحادکا جوایک عورت خاص اپنے واسطے چاہتی ہے۔(اور ہے بھی صحیح کیونکہ یہ اس کا حق ہے)تو جب وہ محبت یا اتحاد یا جو کچھ ہوچار جگہ یا گیارہ جگہ تقسیم کیا جائے تو ان عورتوں کے گروہ میں صلح ممکن ہو ؟صاحب سُن کیا آنحضرت کے گیارہ قبیلے نہیں تھے اور مذکورہ بالا بیان کے مطابق اِن گیارہ عورتوں میں وہ صلح جس کے معنی آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں قائم رہ سکتی ہے؟

مسلمان:خاموش

عیسائی۔ بس میرے عزیز مسلمان بھائی اگر سپہ سالار اور رہبر آپ کا صلح کے اصول سے واقف نہیں بلکہ برعکس اس کے اپنی خوشی کو پوری کرنے کے واسطے ایک تعداد عورتوں میں جو ذی روح تھیں نفاق اور ناراضگی کا باعث ہوئے تو خدا سے صلح انسان کی کس طرح کرا دیں گے۔تسلیم۔ خدا وند آپ پر فضل کرے اور صلح کا اصلی مسئلہ جو یسوع مسیح کے وسیلہ سے دُنیا پر ظاہر ہوا آپ پر بھی پورے طو ر سے ظاہر ہو اور آپ کی صلح خدا کے ساتھ اُس سچے صلح کرنے والے کے وسیلہ سے ہو۔آمین 

Leave a Comment