ASCENDED TO HEAVEN
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan Dec 14, 1894
نور افشاں مطبوعہ۷دسمبر۱۸۹۴ ء
اور ایسا ہوا۔ کہ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا۔ ان سے جدا ہوا۔ اور آسمان پر اٹھایا گیا(لوقا۵۱:۲۴)۔
گذشتہ اشاعتوں میں مسیح خداوند کے جی اٹھنے کی تصدیق و ثبوت ۔ اور مخالفین کے قیاسات فرضی کی تردید (انکار) و تکذیب بخوبی تمام ہو چکی ہے ۔ اور اب مناسب معلوم ہوتاہے کہ کس قدر اس امر کا بیان کیا جائے۔ کہ جی اٹھ کر وہ کیا ہوا۔ اور کہاں چلا گیا۔ جب کہ وہ تین شبانہ روز مدفون رہ کر اتوار کو جی اٹھا۔ اور اسکی قبر ہمیشہ کےلیے خالی اور ویران و سننان چھوڑ ی گئی۔ تو وہ فوراً آسمان پر نہیں چلا گیا ۔ بلکہ پورے چالیس دن تک اپنے شاگردوں کو نظر آتا۔ ” اور خدا کی بادشاہت کی باتیں ان سے کہتا رہا”۔ اور اس کے بعد جیسا لوقا کا تب اعمال الرسول (اعمال لکھنے والا رسول ) لکھتا ہے ۔ ” وہ ان رسولوں کو جنہیں اس نے روح القدس سے چنا تھا۔ حکم د ے کر اوپر اٹھایا گیا”۔ تذکرہ الابرار میں منقول ہے۔ کہ “اس مطلب پر تین لفظ کلام میں ملتے ہیں۔ اول جس لفظ کا ترجمہ یہاں پر اٹھایا گیا ہوا وہ یونانی میں اوپرپایا گیا۔ اور لوقا۵۱:۲۴میں دوسرا لفظ ہے۔ جس کا ترجمہ ہے اٹھایا گیا۔مگرافسیوں۸:۴اور یوحنا ۲۶:۶اور ۱۷:۲۰میں تیسرا لفظ ہے۔ یعنی چڑھ گیا اپنی سے پس آسمان نے دروازہ کھولا ۔ یا کسی نے اٹھا لیا۔ یا اپنی مرضی سے چڑھ گیا”۔یہ حقیقی معراج یا صعود(بلندی) ہے ۔ جس کےلیے نہ کسی آتشی (آگ سے جلتی ہوئی) رتھ کی ضرورت تھی۔ اور نہ کوئی براق یہ کر ان یا ذوالجناح درکار تھا۔ بلکہ وہ جسم لطیف بخود یہ قدرت رکھتا تھا۔ کہ حسب خواہش آسمان کو صعود رکر سکے۔ کیونکہ لکھا ہے کہ’’ اس نےآسمانوں کو جھڑکا۔ اور نیچے اترا اور اس کے پاؤں کے تلے تاریکی تھی وہ کروبی (فرشتے) پر سوارہوا۔ اور پرواز کر گیا۔ وہ ہوا کے پروں پر اڑا‘‘(زبور۹:۱۸۔۱۰) “و ہ اپنے بالا خانوں کو پانیوں پر بناتا ہے۔اور بدلیوں کو اپنی رتھ ٹھہراتاہے۔ اور ہوا کے بازوؤں پر سیر کرتاہے”(زبور۳:۱۰۴)۔
اگر جی اٹھنے کے بعد مسیح اپنی قیامت کو ثابت کر کے کسی کھوہ یا غار میں۔ یا کسی بحر ناپیدا کنار۔ یا کسی بیابان پر خار (کانٹوں) میں غائب ہو جاتااور پھر کسی انسانی نظر کو کبھی دکھائی نہ دیتا۔ تو خواہ اس کے اس عمل کو لوگ کیسی ہی عظمت و وقعت(قدر) کی نظر سے دیکھتے۔ مگر پھر بھی نازک خیال اشخاص یہی خیال کرتے ہیں ۔ کہ مثل دیگر زمینی اجسام کے وہ بھی اسی پردہ زمین پر کہیں نہ کہیں پیوند خاک ہو گیا ہوگا۔ اور اس صورت میں اس کے یہ اقوال بھی نہ صرف غیر مفہوم۔ بلکہ بے معنی ہو جاتے ۔ کہ “کوئی آسمان پر نہیں گیا۔ سو اس شخص کے جو آسمان پر سے اترا۔ یعنی ابن آدم جو آسمان پر ہے‘‘۔یوحنا۳:۱۳۔’’وہ جو اوپر سے آتاہے۔ سب کے اوپر ہے۔ وہ جو زمین سے ہے زمینی ہے۔ اور زمین کی کہتا ہے۔ وہ جوآسمان سے آتاہے ۔ سب کے اوپر ہے‘‘(یوحنا۳۱:۳)۔اور چونکہ انجیل مقدس میں اکثر مسیح خداوند نے یہ فرمایا کہ میں آسمان سے اترا ہوں ۔ اس نے اس سے اپنی الوہیت کا اظہار کیا۔ اور یہودیوں کی سمجھ میں بھی اس کا ایسا دعویٰ کرنا۔ اس کی الوہیت(ربانیت) اور پیش ہستی تر دال تھا۔ اور یہ ان کے لیے بڑی حیرانی اور ٹھوکر کا باعث تھا۔ اور اسلیے کہ اس نے کہا ” وہ روٹی جو آسمان سے اتری میں ہوں”۔ یہودی اس پر کڑ کڑائے اور کہا۔ ” کیا یہ یسوع یوسف کا بیٹا نہیں جس کے باپ اور ماں کو ہم جانتے ہیں؟ پھر وہ کیونکر کہتا ہے۔ کہ میں آسمان سے اترا ہوں”۔ اسی لیے اس نے ایک دفعہ یہ فرمایا۔ کہ ” یہ ٹھوکر کا باعث ہے؟ پس اگر تم ابن آدم کو اوپر جاتے۔ جہاں وہ آگے تھا۔ دیکھو گے ۔ تو کیا ہوگا؟(یوحنا۶۲:۵) ۔ بہر حال یہودیوں اور منکر ان الوہیت (ربانیت) کا خیال کچھ بھی ہو۔ وہ جہاں سے آیا تھا وہیں گیا۔ اور خد ا باپ کے دہنے ہاتھ (دائیں ہاتھ) بیٹھا ۔ جہاں اپنے ایمانداروں کی شفاعت کے لیے ہمیشہ موجود رہتاہے ۔ کیا مسیحیوں کے لیے یہ کمال خوشی کا اور فخر کا باعث نہیں ہے۔ کہ ان کا سردار کاہن ایسا ہے جو آسمان پر جناب عالی کے تخت کےدہنے ہاتھ بیٹھا ہے۔ اور خدا کے حضور ان کے لیے حاضر ہے؟
اور میں داؤد کے گھرانے پر۔ اور یروشلم کے باشندوں پر فضل اور مناجات کی روح برساؤ گا۔ اور وہ مجھ پرجسے انہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے (زکریاہ۱۰:۱۲)۔
ان انگریزی خواں اشخاص سے جو غیر ملکی اخبارات اور رپورٹوں کو پڑھا کر تے ہیں۔ یہ امر پوشیدہ نہیں ہے کہ مسیحی مشنوں کا کام نہ صر ف بت پرست اور محمدی ممالک و اقوام میں جاری ہے۔ بلکہ خدا کی برگزیدہ و قدیم قوم اسرائیل کے درمیان بھی جوئش مشن امید اور کامیابی کے ساتھ اشاعت (پھیلاؤ) انجیل کی خدمت میں بدل مصروف ہے۔ اور اکثر خدا ترس یہودی اپنے موعود مسیحا پر ایمان لاتے جاتے ہیں۔ لیکن ابھی تک مشن مذکورہ دیگر ممالک میں ہی اپنا کام کرتی رہی۔ اور ان آوارہ یہودیوں کے لیے جو مختلف مقامات ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ کچھ فکر نہیں کیا۔ مگر بڑی خوشی کی بات ہے کہ اب خداوند کے لوگوں کی توجہ ہندی یہودیوں کی طرف بھی مبذول ہوئی ہے۔ اور امید ہے کہ وہ ان کو خداوند مسیح کی طرف پھرانے میں کامیاب ہوں گے۔ چنانچہ اخبار مسنجر آف لائٹ بحوالہ ایک انگریزی اخبار کے لکھتا ہے کہ۔
فی الح کلکتہ میں یہودیوں کے لیے بھی ایک کام جاری کیا گیاہے۔ دہ کمرے اس کام کے لیے تجوی کئے گئے ہیں۔ اور امید ہے کہ ان یہودی مستورات کےلیےسینے کا ایک کلاس کھولا جائے گا۔ جو کہ نہایت غریب ہیں اور ایک اتواری مدرسہ ، روزانہ سکول اور عام کتب خانہ بھی ان کے لیے کھلے گا۔ مسڑ کالبر ر لکھتے ہیں کہ ” میں امید کرتا ہوں مٹرولنکس ایک ایجنٹ ہندوستان کو بھیج سکیں گے۔ اور یہ کیسا بڑا کام ہوگا کہ ہم کو چند بڑی یہودی مشنری یہودی باشندگان ہندوستان کےلیے بہم پہنچ سکیں گے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اپنے قدیم لوگوں کے درمیان ہمارے اس نئے کام میں ہمارے ساتھ ہو۔ اور ہماری رہنمائی ہر قدم پر اس کام میں کرتارہے”۔