And He Said To Her
By
One Disciple
ایک شاگرد
Published in Nur-i-Afshan April 30, 1891
نور افشاں مطبوعہ۳۰ اپریل ۱۸۹۱ ء
اور اُس عورت سے کہا۔ تیرے گناہ معاف ہوئے (لوقا ۴۸:۷)۔
نورافشاں مطبو عہ ۱۶ ۔ اپر یل کے ایڈیٹوریل کالم میں ناظرین نے پڑھا ہو گا کہ خداوند مسیح نے یہی بات ایک مفلوج آدمی کے حق میں زبان مبارک سے فرمائی تھی ’’تیرے گنا ہ تجھے معاف ہوئے ‘‘۔ اور وہ شمعون فریسی کے گھر میں اُس تائب و شکستہ دل (گناہ سے پلٹنے والا ٹوٹا ہوادل) عورت کو بھی ۔ جو اُس کی خبرسن کر وہاں پہنچی اور تو بہ کے آنسوؤں سے اُس کے پاؤں دھوتی اور اظہار محبت کے نشان میں اپنے سر کے بالوں سے اُنہیں پونچھتی اور چومتی تھی۔ خداوند نے فرمایا ’’ تیر ے گناہ معاف ہوئے‘‘۔ اس ضیافت کے گھر میں ایک غیر تائب (توبہ نہ کرنے والا) خوش دل مرد۔ اور ایک تائب و مغموم (توبہ کرنے والی غمزدہ) عورت کا نقشہ ہمارے پیش نظر ہے۔ اور جب ان دونوں کی دلی حالت کی تصویر پر غور کرتے ہیں کہ باوجود یہ کہ گناہوں کو معاف فرمانے والا ۔
ابن آدم ۔ رُو برو موجود او ر ہر دو گنہگاروں کو بخشنے کے لئے تیار ہے ۔ ایک بخشش ِالہٰی سے محروم اور دوسری مغفور و مسرور(بخشش اور خوشی) نظر آتی ہے صا حبِ خانہ اپنے معزز مہمان کے نبی اور عالمِ الغيب (غيب کا علم رکھنے والا) ہونے کےامتحان وآزمایش کی فکراور اس غمزدہ گنہگار عورت نسبت حقارت ونفرت آمیز خیالات میں مستغرق (گم ہونا) ہو کے اپنی خطر ناک حالت میں مبتلاہے اور یہ شکستہ دل عورت نجات دہندہ کے منہ سے اپنے حق میں یہ تسلی بخش و خورمی بخش الفاظ سن کر ’’ تیرے گناہ معاف ہوئے ‘‘۔ مطمئن و شاد کام نظر آتی ہے۔ اکثر لوگوں کا ایسا حال ہے کہ وہ اپنی گناہ آلودہ حالت و طبیعت سے مطلق( با لکل) بے خبر اور بے فکر رہتے۔ اور دوسروں کو بڑا گنہگار و تقصیر وار ( خطا وار) جان کر بنظر حقارت اُنہیں دیکھتے ہیں۔ اور نہیں جانتے کہ اس کا انجام کیا ہو گا ۔ دوسروں کو گنہگار خیال کرنا بہت آسان ۔ لیکن اپنے لیکن اپنے کو خطا کارو بد کردار سمجھنا بڑا مشکل ہے۔ اس قسم کے آدمیوں کی مثالیں کلام اللہ میں اور بھی پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ خداوند مسیح نے ایک مرتبہ اُن لوگوں کے حق میں جو اپنے اُوپر بھروسا رکھتے تھے۔ کہ راستباز ہیں۔ لیکن دوسروں کو ناچیز جانتے تھے۔ یہ تمثیل کہی کہ ’’ دو شخص ہیکل میں دُعا مانگنے گئے ۔ ایک فریسی دوسرا محصول لینے والا ۔( ٹيکس لينے والا) فریسی(رسم پرست فرقہ) الگ کھڑا ہو کے یوں دُعا مانگتا تھا کہ اے خدا تیر اشکر کرتا ہوں کہ میں اَوروں کی مانند لُٹیرا ۔ ظالم ۔ زناکار ۔ یا جیسا یہ محصول لینے والا ہے نہیں ہوں ۔ میں ہفتہ میں دوبارہ روزہ رکھتا ۔ اور میں سارے مال کی دیکی (دسواں حصہ) دیتا ہوں ۔ پر اس محصول لینے والے نے دورسے کھڑ ا ہو کر اتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے ۔ بلکہ چھاتی پیٹتا اور کہتا تھا کہ ’’ اے خدا مجھ گنہگار پر رحم کر‘‘۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہ شخص دوسرے سے راستباز ٹھہر کے اپنے گھر گیا۔ کیونکہ جو اپنےآپ کو بڑا ٹھہراتا ہے چھوٹا کیا جائے گا۔ اور جو اپنے تئیں چھوٹا ٹھہراتا ہے بڑا کیا جائے گا ۔ یقیناً وہ لوگ جو فریسیا نہ طبیعت رکھتے ہیں بڑی خطرناک حالت میں ہیں۔ پروہ جو اپنے کو گنہگار جان کر معافی کے لئے خداوند مسیح کے قدم بوس ( قدم چومنا) ہوتے اور تائب و مغموم ہیں نجات کے وارث ہوں گے۔