انجیر کی تمثیل

Eastern View of Jerusalem

PARABLE OF FIG TREE

By

Editorial

ایڈیٹر

Published in Nur-i-Afshan Jan 29, 1891

نور افشاں مطبوعہ ۲۹ جنوری ۱۸۹۱ ء

جنابِ مسیح کی یہ تمثیل بطور خاص قوم یہود سے اور بطور عام مسیحیوں اور غیر مسیحیوں جملہ آدم زاد سے علاقہ رکھتی ہے۔ اگر چہ ہمارے مسیحی ناظرین نے اس تمثیل کو اکثر انجیل مقدس میں پڑھا ہو گا لیکن غیر اقوام کے فائدہ کے لئے اگر ہم اولاً تمثیل کو پورا لکھیں تو نامناسب نہ ہو گا۔ خداوند نے فرمایا کہ ’’کسی کے انگور کے باغ میں انجیر کا درخت لگایا گیا تھا اور وہ ( باغ کا مالک) آیا اور اس پر پھل ڈھونڈ اور نہ پایا۔ تب اس نے باغبان کو کہا کہ دیکھ تین برس سے میں آتا ہوں اور اس انجیر کا پھل ڈھونڈتا اور نہیں پاتا ہوں اسے کاٹ ڈال کیوں زمین بھی رو کی ہے۔ پر اس نے جواب دے کے اسے کہا اےخداوند اس سال اور بھی اسے رہنے دے تا کہ اس کے گرد تھا لا(گڑھا)کھودوں اور کھاد ڈالوں شاید کہ پھل لائے نہیں تو کاٹ ڈالے‘‘ لوقا۱۳ :۶ ۔ ۹ ) تک اس تمثیل کا بیان ایسا صاف ہے کہ تفسیر و شرح کی زیادہ ضرورت نہیں تاہم چند باتیں لکھنا مناسب سمجھتے ہیں۔ مفسرین انجیل نے اس کی تفسیر یوں کی ہے کہ باغ کا مالک خدا ہے۔ انگور کے باغ سے دنیا مراد ہے اور انجیر کا درخت قوم یہود ہے۔ باغبان خداوند یسوع مسیح ہے۔اور تین سال موسیٰ اور نبیوں اور خداوند یسوع مسیح کا زمانہ ہیں یا یہ کہ مسیح یہودیوں میں تین برس اپنی خدمت کا کام کرتا رہا ۔ یا یوں سمجھئے کہ انسان کی زندگی کے تین زمانے یعنی لڑکپن جوانی اور بڑھاپا  ہیں۔ غرض تین برس جو انجیر کے پھلنے کی انتظاری کے لئے کافی ہیں ہیں ان کے خاتمہ پر بھی سوا پتوں کے اس میں کچھ نظر نہیں آتا  آخر الا مر حکم ہوتا کہ ’’اسے کاٹ ڈال کیوں زمین بھی روکی ہے‘‘ ۔ یہ کیسے عبرت ناک الفاظ ہیں ’’اسے کاٹ ڈال ‘‘ ۔ یہ سچ ہے کہ ہر فرد و بشر اس باغ عالم میں اپنی جگہ روکے ہوئے ہے۔ باغ کامالک صبر کے ساتھ ہر ایک سے پھلوں ( کار ہائے خیر) کا انتظار کرتا ہے۔ ایک سال یوں ہی گزر جاتا اور دوسرا شروع ہوتا ہے۔ لڑکپن کھیل کود لہو و لعب (کھیل تماشوں)میں گزر جاتا۔ جوانی میں آنکھوں میں چربی چھا جانا نیک و بد کچھ نہیں سوجھتا شوق عیش و عشرت طلب مال و دولت نفسانی و جسمانی خواہشات کی پیروی میں انسان دیوانہ دار جویاں اور پویاں رہتا۔ اور نہیں جانتا کہ ’’اس کی عمر کے دن ڈاک سے بھی جلد رو ہیں وے اُڑ جاتے اور چین نہیں دیکھتے ہیں ‘‘( ایوب۲۵:۹ )۔وہ نہیں سوچتا کہ خدا کی مہربانی اس پر اسی لئے ہے کہ وہ توبہ کرے اور اس کے لائق پھل لائے ناظرین شاید ہم تم میں سے کسی کی نسبت ۱۸۹۰ء کے اختتام پر مالک باغ کی طرف سے فرمایا گیا کہ ’’ اسے کاٹ ڈال کیوں زمین بھی رو کی ہے۔ لیکن اس سفارش کنندہ یسوع مسیح خداوند کی سفارش پر جو مسلے ہوئے سینٹھے (سرکنڈے)کو نہیں توڑتا اور دھواں اُٹھتے ہوئے سن کونہیں بجھاتا فرمایا ہو کہ اس سال ۱۸۹۱ء میں اور اسے رہنے دے تا کہ اس کے گردتھالا کھودوں اور کھاد ڈالوں شاید کہ پھل لائے نہیں تو بعد اس کے کاٹ ڈالیوہم فی الحال اس باغ عالم میں مالک باغ نے اور رہنے دیا تا کہ امسال اس کے حسب مراد پھل لا دیں ۔ خدا کرے نور افشاں کے ناظرین میں سے کوئی ایسا نہ ہو جس کے حق میں سال رواں میں یہ فتویٰ دیا جائے کہ اسے کاٹ ڈال کیوں زمین بھی رو کی ہے۔

Leave a Comment