Original Sin
Published in Nur-i-Afshan April 30, 1885
اصلی گناہ
نور افشاں مطبوعہ ۳۰ اپریل ۱۸۸۵ء
اصلی گناہ اصلی صداقت سے خالی ہونے اور ساری طبیعت کی خرابی کو کہ جس کے سبب سب عملی خطائیں ظہور میں آئیں کہتے ہیں ۔ یہ وہی چشمہ ہے جو ہمارے پہلے ماں باپ آدم و حوا سے پشت در پشت بہتا ہو ا چلا آ یا اور جس کے سبب کل بنی آدم آج تک اُن کی پہلی خطا کی سزا میں گرفتار ہو کے نیک کاموں سے محروم ہیں اصلی گناہ پر غور کرنے سے تین باتیں بخوبی ظاہر ہوتی ہیں۔
(۱) آدم کی پہلی خطا کی سزا واری
(۲) اصلی صداقت سے خالی ہونا
(۳) ساری طبیعت کی خرابی
پہلی آدم کی پہلی خطا کی سزا واری
گناہ کی واجبی سزا اُٹھانے سے مراد ہے جس وقت سے کہ آدم نے گناہ کیا اس وقت سے تمام بنی آدم اُس کی پہلی خطا میں شریک ہیں کیونکہ وہ اپنی تسلی کا مختار تھا اور جب وہ اپنی اصلی صداقت سے خارج ہوکے گناہ میں گرفتار ہو ا تو اُس کی اولاد بھی اُس کے ساتھ گرگئی اور اصلی گناہ کی واجبی سزا اُٹھانے کا فتویٰ ان پر غالب ہوا اور اُسی اصلی گناہ کے سبب سارے بنی آدم اپنی بگڑی طبیعت سے غضب کے فرزند پیدا ہوتے ہیں اور یہ طبیعت خدا کی بندگی اور ابدی خوشی حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ۔
دوسری اصلی صداقت سے خارج ہونا
اصلی صداقت اُس طبیعت سے جو خدا کی شریعت کے موافق نیکی کی طرف مائل ہونے سے مراد ہے جیسے کہ گناہ کرنے سے پیشتر ہمارے باپ آدم کی طبیعت تھی مگراُس نے گناہ کرکے اُس طبیعت کو کھودیا اور اصلی صداقت سے خالی ہوا ۔پس ایسی اصلی صداقت کا نہ ہونا وہی حصہ ہے جس کے سبب صداقت کے کام کرنے کی طبیعت نہ رہی ہے ۔
تیسری ساری طبیعت کی خرابی
اب یہ سمجھو کہ جب انسان کی طبیعت اصلی صداقت سے خالی ہوتی تو گناہ نے اُس میں دخل پایا اور اس کی طبیعت یہاں تک بگڑ گئی کہ وہ نیکی سے نہایت نفرت کرتا اور بدی سے رغبت رکھتا ہے ۔ اسی خرابی نے انسان کی روح بلکہ بدوں کے تمام عضا کو غلبہ پاکر اُس کو قدر غارت کیا کہ اُس میں نیکی کا نشان تک بھی نہیں پایا جاتا ہے ۔چنانچہ اس بات کے ثبوت میں کئی ایک دلیلیں بھی پیش کی جاتی ہیں اول طبیعت کا بگڑنا اس بات سے بھی کہ ہرایک آدمی وقت سن تمیز سے عملی گناہ کا مرتکب ہونا ثابت ہے یہاں تک کہ اُس کے ہرایک کام و خیال رفتا روگفتار میں گناہ میں شامل ہے اگر تم کسی لڑکے کو اُس کے ایام طفولیت(بچپن) سے ایسی نیک تعلیم دو کہ بدی کا نام تک بھی اُس کے کان تک نہ پہنچے تو بھی وہ گناہ کئے بغیر نہ رہےگا کیونکہ گناہ اُس کی اصلیت تو بھی وہ گناہ کئے بغیر نہ رہے گا کیونکہ گناہ اُس کی اصلیت ہی ہے سمایا ہوا ہے۔ پس اگر غور کرو تو معلوم ہو گا کہ انسان پیدائش ہی سے لے کے عمر بھر گناہ کرتارہتا ہے ۔ مثلاً شیر خوار بچے مٹی کھاتے اور جب اُن سے پوچھتے تو صاف جھوٹ بولتے اور انکار کر دیتے ہیں ۔اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ضرور اس عام تاثیر کا کہ جس کے وسیلے عملی گناہ عمل میں آنے کو کوئی خاص سبب ہے اور وہ سبب اسی طبیعت کی خرابی ہے بعض لوگ ایسا گمان کرتے ہیں کہ چھوٹے بچے گنہگار نہیں ہیں تو اُن کی رفع شک کے لئے کلام الہٰی کہ جس میں بڑی صفائی کے ساتھ لکھا ہے کہ کل بنی آدم اصل پیدائش سےہی گنہگار ہیں موجود ہے جیسا کہ داؤد کہتا ہے کہ’’ دیکھ میں نے بُرائی میں صورت پکڑی اور گناہ کے ساتھ میری ماں نے مجھے پیٹ میں لیا‘‘ (زبور ۵۱: ۵ ) کو ن ہے جو ناپاک سے پاک نکالے کوئی نہیں (ایوب ۱۴ : ۴ ) اس کے سوا اور بہت آیتیں ہیں۔ جن میں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے (ایوب ۱۵: ۱۴؛ زبور۸۵: ۳؛ یوحنا ۳: ۶؛ افسیوں ۲: ۳) کو دیکھو یہ سب آیتیں اِسی مطلب پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان اپنی ذات اور طبیعت سے گنہگار ہیں دوم طبیعت کی خرابی کلام الہٰی کے اُن مقامات سے بھی جن میں یہ لکھا ہے کہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے سے پیشتر نئی پیدائش ضرورہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ کوئی انسان پاک اور روحانی نہیں اور نہ وہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق ہے۔ سوئم چھوٹے بچوں کو بپتسمہ دینے سے بھی ثابت ہے کہ انسان طبیعت سے گنہگار ہے کیونکہ بپتسمہ کا پانی ذاتی ناپاکی اور پاکیزگی کی ضرورت پر دلالت کرتا ہے۔ پس جب کہ چھوٹے بچے بھی بپتسمہ پانے کے محتاج ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ وہ بھی اصلی گناہ میں شامل اور مسیح کی روح اور اُس کے خون کے جو اُن کو پاک کر سکتا ہے محتاج ہیں۔ چہارم طبیعت کی خرابی اور اصلی گناہ ثابت کرنے کے لئے ایک اور دلیل یہ ہے کہ چھوٹے بچے تکلیف پاتے اور مر بھی جاتے ہیں اگر وہ گنہگار ہوتے تو موت اُن پر غالب ہوتی کیونکہ موت تو گناہ کی مزدوری ہے پر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر چہ کوئی عملی گناہ اُن سے سرز د نہیں ہوتا تو بھی وہ اصلی گناہ میں شامل ہیں پس دلایل مذکورہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کل بنی آدم اصلی صداقت سے خارج ہوکے طبیعت کی خرابی میں گرفتار ہیں اور یہی اصلی گناہ ہے اگر خدا کا فضل خداوند مسیح کے وسیلے انسان کے شامل حال نہ ہو تو جس کے سب غداب ابدی کے لائق ہیں ۔