اسکندریہ کے کتب خانہ کی تباہی اور اسلام

Eastern View of Jerusalem

The Destruction of Alexandria Library and Islam

By

One Disciple

ایک شاگرد

Published in Nur-i-Afshan May 21, 1884

نور افشاں مطبوعہ ۲۱ مئی ۱۸۸۴ ء

جب اسکندریہ پر اہل اسلام کا تسلط ہو گیا اور عمرو سپہ سالار اس جگہ کا ناظم مقرر ہوا تو اس نے فیلفونس اسکندریہ کے نامی حکیم اور فاضل اجل سے ملاقات کی چونکہ عمروعلم دوست اور عالمانہ گفتگو کا ازبس (بہت زیادہ ، نہایت)شائق (شوقین ، مشتاق)تھا اس دانا حکیم کی صحبت اور فعل اور قول سے ایسا محفوظ ہوا کہ دل سے اس کی عزت کرنے لگا۔ ایک دن موقعہ پا کر فیلفونس نے سپہ سالار کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے اسکندریہ کے کل بیت المال ذخائر اور سرکاری گوداموں کا ملاحظہ فرمالیا ہے اور ہر قسم کے اسباب پر مہر چھاپ لگا دی ہے سوجو چیزیں آپ کے کارآمد ہیں میں ان کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جو آپ کے کام کی نہیں ہیں اور ان میں سے بعض شائد میرے فائدے کی ہیں اگر میری درخواست بے جا نہ ہو تو مجھ کو عنایت کی جائیں ۔

عمرو نے پوچھا کہ آپ کون سی چیزیں مانگتے ہیں حکیم نے جواب دیا کہ زر نہیں جواہرات نہیں اور کوئی قیمتی اسباب نہیں صرف فلسفے کی کتابیں ہیں جو سرکاری کتب خانہ میں بے کار پڑی ہیں عمرو نے جواب دیا کہ اس درخواست کی منظوری میرے اختیار سے باہر ہے اور میں اس بارے میں سوا اجازت امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے کوئی حکم نہیں دے سکتا ۔اس پر منظوری منگوانے کے واسطے ایک مراسلہ خلیفہ وقت کے حضور میں بھیج دیا گیا وہاں سے جواب آیا کہ اگر ان کتابوں کے مضامین منشاء قرآن کے مطابق ہیں تو گویا ان کے مطالب قرآن میں آچکے اور وہ اب ردی ہیں اور اگر ان میں کوئی بات مخالف قرآن ہے تو ہم کو ان کے وجود سے نفرت ہے فی الفور جلا دی جائیں ۔

عمرو نے اس حکم کی تعمیل میں کل جلدیں اسکندریہ کے حماموں میں بانٹ دیں اور حکم دے دیا کہ ان کو جلا کر حمام گرم کئے جائیں کہتے ہیں کہ چھ مہینے تک برابر حمام انہیں کتابوں کی آگ سے گرم ہوتے رہے۔

ذرا اس واقعہ کو پڑھو اور غور سے دیکھو کہ اس کے پڑھنے سے دلوں پر کیا اثر ہوتا ہے ۔غرض دنیا کے اس مشہور کتب خانہ کا خاتمہ یہ تھا اور دنیا میں جہالت اور وحشت کے زمانہ کا آغاز بھی وہی ہوا۔

Leave a Comment