آبِ حیات

Living Water

Published in Nur-i-Afshan May 14, 1885

آبِ حیات

مطبوعہ ۱۴ مئی ۱۸۸۵ءوعہ ۲۱۔ مئی ۱۸۸۵ء

شکر ہے اُس خداوند کریم کا جس نے ہمہ (تمام)موجودات کو اپنی قدرت کا ملہ سے آراستہ وپیرا ستہ (سجاوٹ کرنا) کیا اور انسان کو اشرف المخلوق بنا کر عقل بخشی تا کہ نیک وبد میں تمیز کر سکے اور ہمیشہ اپنے خالق کی یادگا ری میں مصروف رہے اور اُس کی حمد و ثنا میں دل اور روح سے گیت گائے،مگر انسان نے عقل کو اُس کے خالق کی طرف سے عنایت ہوئی تھی کھود یا اور جہالت کے گرد اب (گھمن گھیری) میں پڑکر اپنے آقا کو بھول گیا اور بجائے اس کے شیطان کی تابع داری کو قبول کیا جس میں آج تک سرگردان اور پر یشان یہ غریب انسان مارا مارا پھر رہا ہے ۔ اور کوئی راستہ نہیں پاتا جہاں سے نکل کر اپنی جان کو بچا ئے اسی لئے اپنے خالق کی نزدیکی سے دو ر ہو گیا ہے اور اُس پر موت کا فتویٰ لگایا گیا ہے ۔ جس کا نام ہمیشہ کی موت ہے اور وہ ہمیشہ کی موت جہنم کی سزا ہے جس سے گنہگا ر کو رہائی کی امید نہیں اور وہ جہنم کی سزاایسی سخت ہے جس کے سننے سے کان سنسنا تے (خوف زدہ ہونا) ہیں اور ہر ایک بشر کا کلیجہ منہ کو آتا (جی اکتانا)ہے ۔ جب خدا قیامت کو اپنے تخت عدالت پر بیٹھے گا تو اُس وقت گنہگار روں کا کوئی حامی اور شفیع (شفاعت کرنے والا)نہ ہو گا مگر اے بھائیو خدا کسی گنہگار کی موت میں راضی نہیں ہے ۔ اُس نے تو ہم پر اپنا ایسا فضل ظاہر کیا جس کے ہم لائق نہ تھے اُس نے ہماری نجات کے لئے ایک چشمہ آب حیات کا جو مسیح کے خون کا جاری ہے بہایا ۔ جس کے پینے سے مردوں کو ازسر نو(نئے سرے سے)زندگی حاصل ہو تی ہے اور وہ چشمہ ہر ایک مُردہ کے سامنے پیش کیا جا تا ۔ جو کوئی اس میں سے ایک گھونٹ پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے ۔اور یہ چشمہ ہر خاص و عام کے لئے ہے نہ کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کے لئے نہ صرف دولتمندوں کے لیے بلکہ بھوکے اور پیاسوں کے لیے بھی کسی سے کوڑی پیسہ (بہت تھوڑی رقم جس کا شماربھی نہ ہوسکے)طلب نہیں کیا جاتا بلکہ مفت ملتا ہے ۔

 جو کوئی چاہئے آئےاور پئیے لیکن اےبھائیوں یہ چشمہ بغیر مسیح پر ایمان لانے سے ملتا نہیں ہے ،کیونکہ ہم اپنی روشنی سے اس چشمہ کو پا نہیں سکتے جب تک کہ ہمارا راہبر خداوند مسیح نہ ہو۔ اس سے اے بھائیو ظاہر ہوتا ہے کہ اس چشمہ کی تلاش کے لئے دو امر ضرور ہیں پہلا امریہ ہے کہ خداوند مسیح پر ایمان لاؤ۔ دوسرا یہ ہے کہ بپتسمہ لو خداوند مسیح پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے جھوٹے مذہب کو چھوڑ کر اور اپنے گناہو ں سے سچی توبہ کر کے خداوند مسیح کے پاک خون پر بھروسہ رکھو جس سے سب گنہگا روں (توبہ کر کے خداوند مسیح کے پا ک خون پر  بھروسہ رکھو جس سے سب گنہگار وں ) کو نئی زندگی حاصل ہوتی ہے پھر بپتسمہ لینے سے یہ مراد ہے کہ جب کوئی سچے دل سے خدواند مسیح کو پیار کرتا ہے اور اُس کا مرید(پیروی کرنے والا) ہوتا ہے تو اُس کو چاہئے کہ اپنے دلی ایمان کو اور لوگوں پر ظاہر کرے شاید کوئی کہے کہ دوسرا جانے نہ جانے ہم اپنے دل ہی میں خداوند مسیح پر ایمان رکھتے ہیں کچھ ضرورت نہیں ظاہر کریں ۔تو اے بھائیو ایسا ایمان سچا ایمان نہیں ٹھہر سکتا خداوند نے اپنے دین کا یہ ایک نشان ٹھہرا یا ہے کہ جس سے اس پرایمان لانے والے شاگردی کی مہر پاتے ہیں ۔یہ افسوں گری (جادو گری ) نہیں جو تمہارے کان میں پھونکی جائے پر وہ بپتسمہ یعنی اصطباع( بپتسمہ ) کی رسم ہے جو مسیح کی شاگردی اختیار کرتا ہے وہ عام خاص کے سامنے اقرار کرتا ہے کہ میں اپنے جھوٹے مذہب کو چھوڑ کر خداوند مسیح کا پیرو ہوتا ہوں، تب وہ نو مرید خدا یعنی باپ، بیٹا، روح القدس کے نام اصطباع ( بپتسمہ ) پاتا ہے۔ پھر خداوند کے سچے شاگردو ں کے دلوں میں روح القدس بود باش کرتی ہے اور اُس کی تعلیم سے خدا کی شناخت اور محبت میں مسیح کا شاگرد روز بروز ترقی پاتا جاتا ہے اور گناہ سے باز رہ کر ہر طرح کے نیک کام کرتا ہے ۔ پس اے بھائیو تم ان باتوں کو پڑھ کر شاید کہو گے کہ ہم مذہب چھوڑ کے مسیح کی پاک کلیسیا میں شامل ہوں تو اپنی ذات پات اور بھائی بہن اور عزیز واقربا کو چھوڑنا پڑئے گا۔ پس اے بھائیوں یہ بات سچ ہے کیونکہ تم اپنے رشتہ داروں کی جماعت سے ضرور نکالے جاؤ گے اور تم سے سب پر ہیزکریں گے ،لیکن اے ہمارے عزیزبھائیو اگر تم آب حیات پی کر ہمیشہ کی زندگی چاہتے ہو اور اپنی روح کو گناہ سے پاک کرنا چاہتے ہو تو کچھ ہی تمہارے بھائی بند کہیں اُن کی فکر مطلق نہ کرو بلکہ یہ خیال کرو کہ بھائی بند جو کچھ کہیں سو کہیں مگر ہم اپنے تئیں موت کے ڈنگ سے بچائیں گے ۔ تم اے بھائیو خوب جانتے ہو کہ تم کیسا ہی جھوٹ بولو یا گالی دو یا چوری یا رنڈی بازی یا کسی طرح کے بُرے کام کرو تو کوئی تم کو برادری سے نکال نہ دےگا کیونکہ سب طرح کے بدمعاش لوگ تمہاری ذات پات میں رہ سکتے ہیں لیکن تم جو اپنی حیات ابدی کے لئے جھوٹ اور برائی چھوڑنا چاہو تو لوگ تم کو برادری سے نکال دیں گے اس بات کو غور یہ کہتے ہیں کہ جو کوئی خداوند عیسیٰ مسیح کے دین میں آنے کے سبب ذات برادری سے الگ کیا جائے سو وہ مبارک ہے کیونکہ خدا کے مقدس لو گوں میں گنا جائے گا اور ایسی ذات برادری پرافسوس ہے ۔

اب اس پر غور کرو کہ کس کی بات قابل قبولیت ہے۔ خدا کی یا ذات برادری کی تو وہی گواہی دیتا ہے کہ خدا کی بات کو مان لینا چاہئے ۔ اب ہم سے کہو کہ عاقبت میں خدا یا ذات برادری تمہارے کام میں آئیں گی کیا تمہارے بھائی بند مرتے مرتے تمہارے ساتھ جائیں گے اور انصاف کے وقت میں تمہاری عوض جواب دیں گے کبھی نہیں پھر جو تم مسیح کے شاگرد ہو جاؤ اور لوگ تم کو ذات برادری سے نکال دیں اور تم پر لعن طعن کریں تو تم جانو کہ یہ چند روز ہ تکلیف ہے اور مرنے کے بعد خدا تم کو بہثت میں جگہ دے گا جس کا نام حیات ابدی ہے اور وہاں ہمیشہ خوش حال رہو گے ،اگر تم بھائی بند کے خوف سے اپنے ایمان کو چھپاؤ گے تو خدا تم سے زور عدالت میں فرما ئے گا کہ کیوں تم نے میری بات کو نہ مانا اور بھائی بندکی با تو ں کو جو میرے حکم کے بر خلاف تھیں مانا اس لئے تم کو بہشث کے لائق نہ جانے کہ جہنم میں ڈالے گا جس کا نام ہمیشہ کی موت ہے اور وہاں ہمیشہ دکھ اور تکلیف میں رہو گے۔ اب اے ہمارے پیارے بھا ئیو ہم تمہاری منت کرتے ہیں کہ جلدی آؤ اور آب حیات پیو اور خدا وند مسیح کو سچے دل سے قبول کرو جیسا کہ خدا وند مسیح نے (یوحنا ۶ باب ۔ ۳۔ آیت ) میں فرمایا ہے’’ کہ زندگی کی روٹی میں ہوں جو مجھ پاس آتا ہے ہرگز بھوکا نہ ہو گا اور جو مجھ پر ایمان لاتا ہے کبھی پیاسا نہ ہوگا‘‘ اب اے بھائیو اس بات پر غور کر کے خواب غفلت سے جاگو ابھی خدا کی رحمت کا دروازہ کھلا ہے ۔ اگر اب تم اُس کی رحمت کو ٹال دو گے تو آخر کو تمہارے اوپر غضب نازل ہوگا ۔پس اے پیارو تم اپنی جان بچانے کے لئے جلدی کرو اور خداوند مسیح کے شاگرد ہو جاؤ تا کہ اُس کے پاک خون کے ذریعہ سے تمہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل ہو۔فقط

الراقم

غلام جیلانی

عیسائی طالب العلم مدرسہ علم الہٰی سہارنپور مورخہ ۶ مئی ۱۸۸۵ء

Leave a Comment