The Religion of Islam
By
Rev. Elwood Morris Wherry
Translated By Rev. Munshi Muhammad Ismail
پادری۔ای۔ایم۔ویری صاحب ڈی۔ڈی
منشی محمد اسمعٰیل نے انگریزی زبان سے بامحاورہ اور سلسیس اردو میں ترجمہ کیا
Published in 1905
دین اسلام
باب اوّل
تعریفِ اسلام
معمولی مسیحی کے خیال میں اسلام کل کا بچہ ہے۔ اسلام کی نسبت وہ بزرگی وعظمت کا خیال پیدا نہیں ہوتا جو ہندو اور بدھ مذاہب کے حق میں اُن کی قدامت کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔مسیحی کے نزدیک دینِ اسلام عربی نبی کا دین ہے۔ وہ اس میں اپنے یا اپنے آباؤ اجداد کے دین سے کوئی بڑا تعلق نہیں دیکھتا۔ اُس کے نزدیک عقائد اسلامیہ کی خاص باتیں صرف یہ ہیں (1) اللہ اوراُس کے نبی محمد صاحب پر ایمان لانا(2) کثیر الازدواجی کی رسم کو برحق جاننا اور (3) منکروں سے جہاں کرنے میں متعصبانہ جوش دکھانا۔ لیکن مسلمان کے نزدیک صرف اسلام ہی اکیلا سچا مذہب ہے۔ اُس کے خیال واعتقاد کے مطابق یہ وہ مذہب ہے جو پہلے آدم شیت اورحنوک کو پھر ابراہیم ۔ موسیٰ اور دیگر بزرگوں اور بعد ازاں داؤد اور تمام نبیوں کو اور عیسیٰ اوراُس کے رسولوں کے اور آخرکار خاتم الانبیاء محمد صاحب کو عنایت کیا گیا۔ اُسکے نزدیک اِس دین میں خدا کی مرضی پورے طور سے مشتمل اور متضمن ہے۔ جنِوں اور فرشتوں کا یہی دین ہے اور عاقبت میں بہشت کی خوشیوں میں پہنچ کر اس کا خاتمہ ہوگا۔ علاوہ بریں اسلام اطاعتِ الہٰی کا دین کہلاسکتا ہے۔ چنانچہ علمائے اسلام کہتے ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس نے اپنی گردن الہٰی جوئے کے نیچے رکھدی ہے۔
پس اسلام بھی یہودی اور مسیحی دین کی طرح ایک جدا دین ہے۔ وہ کسی دوسرے دین کو سچا نہیں مانتا۔ وہ کسی کو اپنا ہم حیثیت اورہم رتبہ تسلیم نہیں کرتا ۔ بعض مسیحی مصنفین کا خیال ہے کہ دین اسلام اور دین عیسوی اپنے اپنے ایمان واعتقاد کے نشانوں کی بے تعصبانہ تشریح کرنے کے بعد اس خاص غرض سے قائم ہوئے ہیں کہ ہاتھ میں ہاتھ لئے ہوئے نہایت اتفاق سے کفار سے جہاد کریں لیکن یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ ایسا میل ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمیشہ ایک دوسرے کے تنزل سے خوش ہونگے۔ جہاں تک مشنری معاملے کا تعلق ہے اُس سے صاف اور صحیح نتیجہ یہی اخذ ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ لڑائی جاری رہیگی لیکن یہ لڑائی روحانی ہے جسمانی ہتھیاروں سے کام لینا ٹھیک نہیں۔روح القدس کی تلوار کا اسلامی تلوار سے مقابلہ ہے اور مناسب ہے کہ ہم اسلامی عقائد کوسمجھنے کی خاطر اسلام کے بنیادی اُصول پر غور کریں۔
مسلمان مصنف اسلام کے چار رکن یا ستون بیان کرتے ہیں۔ (1) قرآن (2) احادیث یا روائتیں(3) اجماعِ امت یا علماء کی متفق رضامندی اور (4) قیاس یعنی دلیل جوقرآن واحادیث اوراجماع پر مبنی ہو۔ پس اِن ارکان پر جُدا جُدا غور کرنا ضروری معلوم ہوتاہے۔
فصل اول
قرآن
مسلمان اس کو قرآن المجید۔ قرآن الشریف۔ فرقان او رکلام اللہ کہتے ہیں۔ اصل کی نسبت بیان کرتے ہیں کہ خدا کے تخت کے نیچے لوحِ محفوظ پر مرقوم ہے۔ وہاں سے نقل کرکے جبرائیل فرشتہ کی معرفت محمد صاحب پر نازل کیا گیا۔ اِس سے صاف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد صاحب اپنے معتقدوں کے خیال میں اُن تمام باتوں کو بیان کرنے میں جو اُس نے لوگوں کے سامنے پیش کیں گویا خدا کا ترجمان تھا۔
بہت سے خوش اعتقاد مسلمان بڑے وثوق سے بیان کرتے ہیں کہ محمد صاحب قرآن سنانے کے لئے بلا ئے گئے۔ شہر مکہ کے قریب چند ہفتوں تک خلوت نشین کی طرح ایک غار میں رہا۔ ایک روز نہایت خوف زدہ ہوکر کانپتا ہوئے اپنی بیوی خدیجہ کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے چھپادو۔ جب تک اُن کا خوف موقوف نہ ہوا خدیجہ نے اُنہیں کپڑے سے چھپائے رکھا۔ کچھ دیر بعد محمد صاحب نے تھراتھراتے اور کانپتے ہوئے بیان کیاکہ جبرائیل فرشتہ میرے پاس آیا تھا اورمجھ سے کہنے لگا کہ ” پڑھ” میں نے کہا” میں ان پڑھ ہوں”۔ پھر اُس نے مجھے پکڑا اورمیری برداشت کی حد تک مجھے دبایا اور چھوڑ کر کہا “پڑھ” میں نے کہا ” میں ان پڑھ ہوں” ۔ اس پر اُس نے پھر مجھے دبایا اور چھوڑدیا۔ پھر تیسری مرتبہ ایسا ہی کیا اورکہا “پڑھ” اپنے رب کے نام سے جو انسان کا خالق ہے۔ پڑھ کیونکہ تیرا خدا نہایت ہی کریم ہے۔ اُس نے آدمیوں کو قلم کا استعمال سکھایا۔ اُس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا”۔
یہ قصہ سن کر وفادار خدیجہ اپنے شوہر کو تسلی دینے کے لئے مستعد ہوئی۔ اُس کے خوف کو دور کرنے کی غرض سے اوراِس لئے کہ کہیں وہ خوف سے مر نہ جائے یا کہیں شیطان کے بس میں نہ ہوجائے وہ یوں کہنے لگی کہ” میں خدا کی قسم کھاتی ہوں کہ وہ کبھی تم کو اُداس یا رنجیدہ نہ کریگا کیونکہ فی الحقیقت تم اپنے رشتہ داروں پر مہربان ہو۔ تم سچ بولنے والے اور امانتدار ہو۔ تم لوگوں کی تکلیفوں میں ہمدرد ہوتے ہو اورکچھ تجارت سے کماتے ہو سب کا سب اچھے کاموں میں صرف کرتے ہو۔مہمان نواز اوراپنے ہم جنسوں کی مدد کرنے والے ہو” ۔ اس کے بعد خدیجہ محمد صاحب کو اپنے عم زاد بھائی ورقہ کے پاس لے گئی۔ ورقہ ایک مقدس آدمی سمجھا جاتا تھا اور یہودی نوشتوں سے واقفیت رکھتا تھا۔ ورقہ نے کہا ” اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو”؟ اس پر محمد صاحب نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کیا اور ورقہ نے کہا کہ” یہ وہی عزت ہے جو خدا نے موسیٰ کو عنایت فرمائی تھی”۔ اس سے یہ ظاہر کیا کہ اُسے الہام ہوتا ہے۔
محمد صاحب کی نبوت کا شروع یہی تھا۔ اِس وقت سے بیس برس تک برابر اس عجیب وغریب شخص کے اظہار اور بیانات بڑی ہوشیاری سے لکھے گئے اور کلام اللہ کے طورپر پیش کئے گئے ۔ تمام قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا اور نبی کے تجربوں اور مومنین کے حالات کے رنگ میں رنگا گیا۔ قرآن کے مختلف حصوں کا مختلف موقعوں پر حسب ضرورت اظہار اور استعمال کیا گیا۔ جب کبھی نبی کو کوئی ضرورت پیش آئی اور کوئی ذاتی فائدہ ملحوظ اور مدنظر فوراً آسمانی الہام وضع کیا گیا۔
اس نبوت کی روح کے جوش نے مکہ میں قومی بتوں کے بُت خانہ اور بتوں پر لعنت کی اور خلقت اور انسانی ضمیر کی شہادت سے خدا کی وحدت کو قائم کیا۔ قبیلہ قریش جوشہر مکہ میں ایک نہایت زبردست فرقہ تھا اور کعبہ کے مقدس مقام کا محافظ تھا اس تبلیغ سے نہایت ناراض اور برا فروختہ ہوگیا۔ چنانچہ اُنہوں نے محمد صاحب کو پاگل اورمجنوں ودیوانہ سمجھ کر ٹھٹھوں میں اڑایا اوراُس کے تمام پیروؤں کو ستایا۔محمد صاحب کواپنے زبردست رشتہ داروں کے باعث حفظ وامن نصیب ہوا۔ قرآن اِن واقعات کا بڑی خبرداری اور شرح وبسط کے ساتھ بیان کرتاہے اور ستانے والوں کوخوب ملامت کرکے ڈراتا ہے۔ نیز گزشتہ زمانہ کے انبیاء کے حالات کو پیش کرتا ہے کہ کس طرح بے ایمانوں اور کافروں نے اُن کو ستایا اور ٹھٹھوں میں اڑایا۔ کس طرح خدائے کریم نے اُن کو معجزے عنایت کئے اور تمام دشمنوں پر غلبہ عطافرمایا۔لیکن وہ بدبخت سنگدلی کے باعث آنکھیں بند کئے ہوئے ہلاکت کی طرف دوڑے چلے گئے ۔ بعض کی ہلاکت کے لئے زمین متزلزل ہوکر پھٹ گئی اور وہ زندہ درگور سے بدتر ہوکر غرق ہوگئے اور بعض طوفان میں ڈوب مرے۔ بسا اوقات رات کے وقت بادِ سموم چلی اور تمام باشندوں کو ہلاک کردیا۔ خدا کے انبیاء کے دشمنوں پر اُنہیں ہلاک کرنے کے لئے وبائیں آئیں۔ جب یہودیوں نے مخالفت کی تو گذشتہ زمانہ کے منکرین کی ہلاکت وبربادی کے حالات پیش کرکے اُنہیں متنبہ کیا گیا۔
مدینہ میں نبی کی حالت بالکل تباہ ہوگئی اور قرآن الہام کے طرز بیان میں بھی بہت کچھ فرق آگیا۔ شروع میں تونبوت نہایت دلکش تھی۔ یہودیوں کی بہت کچھ چاپلوسی اور خوشامد کی گئی ۔ مسلمانوں کو حکم ملا کہ یروشلیم کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کریں۔ عہد عتیق کے بزرگوں کی بہت کچھ تعریف کی گئی ۔ اس طرح سے محمد صاحب نے بنی اسرائیل کواپنے ساتھ ملالینے کی کوشش کی لیکن وہ اِس نئے رسول کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ اُنہوں نے اُس کے نبیوں کو ستایا اور قتل کیا۔ بیت المقدس واقعہ یروشلیم کے عوض میں کعبہ قبلہ مقرر ہوا۔ مسلمانوں کو حکم ہوا کہ آئندہ مکہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کیا کریں۔ مسیحیوں کا ذکر نہایت نرمی اور ملائمت سے کیا گیا۔ عیسیٰ کو خدا کا نہایت بھاری اور الوالعزم نبی تسلیم کیا۔ اُس کے چال چلن کی پاکیزگی اوراُس کے عجیب وغریب معجزات کا ذکر اذکار ہونے لگا۔
اِ س عرصہ میں بہت سے لوگ اِس نئے دین کے پیرو ہوگئے۔ عربی ۔ یہودی اور عیسائی بھی اس میں شامل ہوئے۔ اب ایک نیا مخالف یعنی عبداللہ نامی ایک شخص برپا ہوا۔ یہ شخص مدینہ کے ایک نہایت زبردست فرقہ کا سردار تھا۔ یہ محمد صاحب کے روز افزوں اقتدار واختیار پر بہت حسد کرنے اور شک کھانے لگا۔
اس وقت سے محمد صاحب کے الہامات نے عبداللہ اوراُس کے فریق کی طرف رُخ کیا۔ الہامات کی ضروریات بہت بڑھ گئیں اور آنحضرت کے کانوں میں ہر وقت جبرائیل فرشتہ کی آواز سنائی دینے لگی۔ بقول حضرت محمد بعض اوقات تو یہ آواز گھنٹے کی آواز کی سی تھی اور بعض وقت رعد اور گرج کی سی۔اس کی سندمیں ہم ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔
راوی: عبداللہ بن یوسف , مالک , ہشام بن عروہ , عروہ , عائشہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَيْفَ يَأْتِيکَ الْوَحْيُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَکُ رَجُلًا فَيُکَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا۔
ترجمہ: عبداللہ بن یوسف، مالک، ہشام بن عروہ، عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی میرے پاس گھنٹے کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر بہت سخت ہوتی ہے اور جب میں اسے یاد کر لیتا ہوں جو اس نے کہا تو وہ حالت مجھ سے دور ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے اسے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھا پھر جب وحی موقوف ہو جاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔(صحیح بخاری ۔ جلد اول ۔ وحی کا بیان ۔ حدیث 2)
ایک دفعہ کا ذکر کیا جاتاہے کہ جبرائیل آنحضرت کے خادموں میں سے ایک شخص دہیاہ کی مانند ہوکر ایسی آواز سے ہم کلام ہوا جو صاف سنائی دیتی تھی۔ کبھی یہ حکم سنایا گیا کہ کاروانِ مکہ سے جنگ کرو۔ کبھی مسلمانوں کے اپنے معاملات کی نسبت احکام آئے۔ اِن احکام سے غالباً اُن کی باہمی راہ ورسم کا انتظام مقصود تھا۔ شاید اُن کی زوجات اورہمسایوں سے برتاؤں کرنے کے متعلق ہدایات تھیں یا اس امر کی تشریح تھی کہ مومنین آنحضرت سے کیسا سلوک کریں۔ کبھی نماز اور روزوں کی تعلیم دی گئی۔ کبھی اہل عرب کے بعض قدیم دستورات موقوف کئے گئے ۔ مثلاً قدیم دستور کے مطابق کوئی عرب اپنے متنبیٰ بیوی سے نکاح نہیں کرسکتا تھا لیکن جب آنحضرت نے اپنے متنبیٰ زید کی حسین بیوی زینب پر عاشق ہوگئے تویہ دستور منسوخ کردیا گیا۔ زید نے آنحضرت کو زینب کا شیفتہ وفریفتہ دیکھ کر اُس طلاق دیدی۔ اگر چہ آنحضرت طلاق دینے سے زید کو ظاہرا منع فرماتے رہے لیکن بمصداقِ ” عشق ومشک را نہتواں نہفتن”۔ چونکہ زید حقیقتِ حال کو تاڑ گیا تھا اس لئے اُس نے آنحضرت کو زینب کی ہم آغوشی سے محروم نہ رکھا۔ اگرچہ محمد صاحب کے محبتی بچے اُن کے اس افعل سے ناخوش نہ تھے توبھی اہلِ عرب کا دستور اس کے خلاف تھا۔ اُن کے نزدیک کسی شخص کا اپنے متنبیٰ کی مطلوقہ بیوی سے نکاح کرنا نہایت ہی مکروہ اور معیوب تھا۔ اس موقعہ پر فوراً وحی آسمانی نے آپ کی حمایت کی۔ فی الفور قرآنی وحی آپ کی بریت کی آیت لئے ہوئے لپکتا ہو آیا۔ آنحضرت نے بیان فرمایا کہ یہ اس لئے ہواہے تاکہ آئندہ کے لئے وہ پرانا نامناسبت دستور جومومنین کواپنے لیپالکوں کی مطلوقہ بیویوں سے نکاح کرنے سے منع کرتا اور روکتاہے موقوف کیا جائے۔
مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللَّهُ لَهُ سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا
پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا۔ اور جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان میں بھی خدا کا یہی دستور رہا ہے۔ اور خدا کا حکم ٹھیر چکا ہے(سورہ احزاب آیت 38)۔
ایک دفعہ مقدس مہینوں میں جنگ کرنے پر فساد بپا ہوا۔ کیونکہ عرب کے قدیم دستور کے مطابق ان مہینوں میں جنگ کرنا بالکل منع اور ناجائز تھا۔ تلواریں میان میں کی جاتی تھیں اور ڈھالیں اور تیروکمان وغیرہ خیموں کے اندر لٹکائے جاتے تھے اور دشمن جان ومال کے خطرہ سے بے خوف ہوکر آپس میں ملتے جلتے تھے۔کسی کے باپ یا بھائی کا خونی بھی انتقام سے بے خوف ہوکر اُسکی صحبت میں رہ سکتا تھا۔ ان مقدس مہینوں کے شروع میں ایسا ہوا کہ مسلمان ڈاکوؤں کی ایک چھوٹی سی جماعت نے یہ دیکھ کر کہ ایک کاروان مکہ ایک چاہ کے قریب نہایت بے فکری اور اطمینان سے خیمہ زن ہے اُس پر فوراً حملہ کیا اور چونکہ وہ کاروان کسی طرح کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں اس لئے بآسانی مسلمان لٹیروں کا شکار ہوا۔ چنانچہ مومنین تمام مال واسباب لوٹ کر اور غنیمتِ جنگ کے طورپر اپنا حق سمجھ کر بمصداقِ
خوشی خوشی اپنے مآرب ومراصد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس پر تمام منکرین ومنافقین مکہ نے شور مچایا اور مسلمان بھی اس سے بہت شرمندہ ہوئے اور چونکہ یہ سرق ونہب محمد صاحب کے حکم سے وقوع میں آیا تھا اس لئے آنحضرت پر بھی رہزنی اور لوٹ مار کا الزام لگا اور آپکا اختیار نہایت ہی معرض خطر میں آگیا۔ آپ نے عوام کی تسلی کے لئے ڈاکوؤں کو حراست میں رکھا اور مال غنیمت بھی آسمانی فیصلہ کی انتظاری میں کچھ دنوں تک تقسیم نہ کیا لیکن یہ انتظاری دیر تک نہ رہی ۔چنانچہ جبرائیل فرشتہ فوراً پیغام لایا کہ ان مہینوں میں بھی تمام کافروں اور منکروں کو لوٹنا اور قتل کرنا جائز ہے کیونکہ کفراِن مہینوں میں جنگ کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔ پس ڈاکوؤں کو آزاد کردیا اور اُنہیں خوب انعامات تحسین وآفرین سے خوش کیا اور تمام مالِ غنیمت مومنین میں تقسیم کیا گیا۔
پھر ایک موقعہ پر حسب الحکم قرآن یہودیوں پر چڑھائی کی گئی۔ بعض گستاخ عرب غیر مناسب بے تکلفی کے ساتھ محمد صاحب سے ملے اور اس پر فوراً قرآنی آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت سے ملاقات کرنے کے طریق اورآپ کے حضور میں حاضر ہونے کے قواعد بیان کئے گئے ۔پھر آنحضرت کی پیاری بیوی عائشہ پر الزام لگایا گیا اوراس سے سخت بے عزتی اور بدنامی ہوئی لیکن قرآن نے فوراً عائشہ کو ان الزامات سے بری کردیا اور الزام لگانے والوں اور بدنام کرنے والوں کے لئے سزا تجویز کی گئی۔ وحی قرآن کا یہ ایک خاصہ نظر آتا ہے کہ وہ آنحضرت کی ضروریات اور تمام کارروائیوں کے حسب حال خوب ہی زمانہ سازی کرتاہے۔ قرآنی الہامات اور آنحضرت کی کارروائیوں میں ایک نہایت ہی گہرا تعلق ہے۔ قرآن کو بخوبی سمجھنے کے لئے آنحضرت کے سوانحِ عمری اورحالات زندگی سے واقفیت حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔
محمد صاحب کی وفات کے بعد قرآن کے مختلف حصے ایک صندوق میں پائے گئے جو آنحضرت کی زوجات میں سے ایک کے سپرد کیا گیا تھا۔ یہ قرآنی آیات اور سورتیں کھجور کے پتوں اور سفید پتھروں پر مرقوم تھیں۔ اس کے علاوہ بہت سے مسلمانوں کے پاس بھی قرآن کے بعض حصوں کی نقلیں تھیں اور اُن میں سے بعض نے اُن کو ازبرکیا ہواتھا۔ایسے لوگوں کو حافظ کہتے ہیں۔ جنگ وجدل اور کشت وخون سے حافظوں کی تعداد بہت کم ہوگئی۔ آخرالامران ہی وجوہات سے خلیفہ ابوبکر نے زید ابن ثابت کو قرآن کو مرتب کرنے پر مقرر کیا ۔زید نے اس کام کو سرانجام تک پہنچایا اور وہ تمام حصے جو کھجور کے پتوں اور پتھروں پر لکھے ہوئے تھے اور بعض جو مومنین نے حفظ کئے ہوئے تھے نہایت احتیاط اور خبرداری سے مرتب کئے ۔ چنانچہ موجودہ قرآن وہی ہے جو زید ابن ثابت نے جمع کیا تھا۔یہ تو سچ ہے کہ خلیفہ عثمان کے عہد میں بھی قرآن میں کچھ ردوبدل اور تغیر و تبدل ہوا لیکن یہ ردوبدل صرف اس حدتک تھا کہ محاورات واصطلاحات مکی عربی اور قبیلہ قریش کے محاورات کے مطابق ہو۔
کل قرآن میں ایک سوچودہ سورتیں ہیں لیکن اِن ابواب یاسورتوں کا سلسلہ ترتیب تواریخی نہیں ہے بلکہ کسی قدر یہودی نوشتوں اوراُن کے انبیاء کے صحیفوں کی طرز پر ہے۔ لمبی لمبی سورتوں کوشروع میں درج کیاہے اور چھوٹی چھوٹی سورتیں آخر میں رکھی ہیں۔ تمام سورتوں کے پہلے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مندرج ہے اور جو سورت شروع میں رکھی گئی ہے اس کا نام فاتحہ ہے اوراُس کا مضمون دعائیہ ہے۔ چنانچہ وہ سات آیات پر یوں مشتمل ہے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ترجمہ: شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا مہربان ہے۔ سب تعریف واسطے اللہ کے ہے جو پروردگار ہے تمام جہان کا۔ بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا۔ روزجزا کا مالک ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم کو راہ مستقیم کی ہدایت عنایت کر۔ اُن لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تونے فضل کیا ۔ جن پر تو غضبناک ہے اور جوگمراہ ہیں اُن کی راہ سے ہمیں بچالے۔(سورہ فاتحہ)۔
قرآن کا یہ مضمون قرآن کی تمام عبارت سے زیادہ موثر ہے۔ بیس کروڑ (اُس کی وقت آبادی) بنی آدم کے دلوں پر قرآن کے پر تاثیر ثابت ہونے کے کم از کم دو سبب ہیں۔ اول یہ کہ قرآن کی عبارت نہایت عمدہ ہے اور اصل زبان کا لہجہ بہت ہی شیریں ہے۔ جب کوئی قرآن پڑھتا ہے توسننے والے کو ایسا معلوم ہوتاہے کہ کوئی خوش الحان کوئی دلکش سرودسنا رہا ہے۔ہزارہا لوگ ایسے ہیں جوقرآن کا شاید ایک حرف بھی نہیں سمجھتے لیکن سنتے وقت عبارت ولہجہ کی خوبی کے باعث بالکل مجذوب ہوجاتے ہیں۔ دوم اس کتاب میں توحید پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اورخدا کی وحدت کی سچائی اورنجات کے باب میں خدا پر توکل کرنے کے بیانات عموماً لوگوں کواسلام کی طرف کھینچتے اورمائل کرتے ہیں۔
قرآن کے متعلق جومسلمانوں کا اعتقاد ہے اُس میں یہ تین باتیں قابل لحاظ ہیں:
(1)قرآن کے ازلی ہونے کی تعلیم۔اس تعلیم کے رو سے قرآن غیر مخلوق ہے۔ کاغذ اورسیاہی وغیرہ اجزائے کتاب مخلوق مانے جاتے ہیں۔ حروف کی شکلیں بھی مخلوق تسلیم کی جاتی ہیں لیکن کلام اللہ جواُس میں اشکال حروف کے وسیلہ سے ظاہر کیا جاتاہے تمام دیندار اورخوش اعتقاد مسلمانوں کے خیال میں ازل ہی خدا کے ذہن میں موجود تھا۔ باعتبار اپنے وجود کے قرآن ازلی ہے اور اگرچہ خدا نہیں لیکن خدا سے جُدا بھی نہیں ہے۔
(2) اس عقیدہ پر شہادت بھی قرآنی ہے۔ جس تعلیم کا اوپر بیان ہوچکا ہے اُس کی روشنی میں ہم اس بات کوبخوبی سمجھ سکیں گے کہ قرآن کے ایک ایک نقطہ اور شوشہ کی مسلمانوں کے نزدیک کہاں تک قدرومنزلت ہے۔ صرف پاک اور مطہرہی قرآن کو پڑھ سکتے ہیں۔ کسی آیت میں کسی طرح کی تبدیلی جائز نہیں۔ بہت سے خوش اعتقاد مسلمان قرآن کو حفظ کرتے ہیں اور تمام معتقدات قرآن ہی کی تعلیم سے درست یا نادرست قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ ایمان کے لئے ایک ہی آیت کافی ہے۔
(3) قرآن کی تعلیم میں مسئلہ ” ناسخ ومنسوخ” بھی موجو دہے۔ محمد صاحب کے ایام حیات ہی میں اس مسئلہ کا وجود پایا جاتاہے۔ نبوت کے دعاوی کی ضروریات نے اس مسئلہ کو اختراع کیا۔ وقتاً فوقتاً حالاتِ زمانہ کے مطابق الہامات میں تبدیلیاں واقع ہوئیں اوریہ نیا مسئلہ وضع کیا گیا کہ نیا الہام پُرانے الہام کو اُس کے موافق نہ ہونے کی حالت میں منسوخ کردیتاہے۔
یہ نسخ کی تعلیم ہوتے ہوتے اہل اسلام کے علمِ الہٰی کی ایک شاخ ہوگئی۔چنانچہ اب یہ تعلیم زمانہ حال کے مسلمانوں کے نزدیک اگلی کتابوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مسلمان بے تامل اور بغیر کسی طرح کے پس وپیش کے کہتے ہیں کہ یہ یہودیوں کی کتابیں عیسائیوں کی کتابوں سے منسوخ ہوگئیں اور پھر اسی طرح عیسائیوں کی کتابوں کوقرآن نے منسوخ کردیا۔
اگر فاخر مسلمان کے ہاتھ میں قرآن ہوتواُسے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔اُس کے لئے قرآن میں نہ سچائی ہی ہے بلکہ روایتوں کو شامل کرکے جہاں تک مذہب سے علاقہ ہے اُس میں پوری سچائی موجود ہے۔
خلیفہ عمر کی نسبت یہ قصہ بیان کیا جاتاہے کہ جب اُس سے پوچھا گیاکہ ” سکندریہ کے مشہور کتب خانہ کی نسبت کیا کیا جائے یعنی اُسے تلف کیا جائے یا محفوظ رکھا جائے؟ تو اُس نے جواب دیا کہ اگر وہاں کی کتابیں قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں تواُن کی کچھ ضرورت نہیں اور اگر وہ قرآن کے خلاف ہیں تو ضرور اُنہیں برباد کردینا چا ہیے”۔ اس قصہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک عیسائی نوشتوں کی کیا قدرومنزلت ہے۔ جہاں کہیں وہ قرآن سے اتفاق نہیں کرتے فوراً محرف قرار دئیے جاتے ہیں۔اُن کو وہیں تک صحیح تسلیم کیا جاتاہے جہاں تک کہ وہ قرآن سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ باوجود یکہ قرآن بائبل کی صحت ودرستی اوراُس کے منجانب اللہ ہونے پر گواہی دیتا ہے توبھی مسلمان یہی رائے قائم کئے بیٹھے ہیں کہ موجودہ بائبل قابل اعتبار نہیں اور چونکہ اُس میں قرآنی تعلیم کی مخالفت پائی جاتی ہے اس لئے اُسے رد کرنا ضرور ہے۔
فصل دوم
احادیث
اسلام کا دوسرا رکن اگرچہ قرآن سے بہت قریبی رشتہ رکھتا ہے تاہم اسکی نسبت کچھ متفرق اورمختلف ہے۔ یہ رکن احادیث یا روایات کا ہے۔ احادیث کی آیات کو سنت کے نام سے بھی نامزد کرتے ہیں۔ مختلف معاملات میں محمد صاحب کے کلام واحکام اورکام کا ذکر پایا جاتاہے۔ یہ تمام روایات محمد صاحب کی وفات سے دو تین سوبرس بعد تحریر ہوئے اور اُن تمام باتوں کا بیان مندرج ہے: (1) وہ باتیں جو محمد صاحب نے کی(2) وہ باتیں جومحمد صاحب اپنے مریدوں کے سامنے عمل میں لائے(3) وہ باتیں جو مرید عمل میں لائے اور آنحضرت نے اُن پر کسی طرح سے نامنظوری ظاہر نہ کی اور(4) وہ باتیں جو مرید آنحضرت کے سامنے عمل میں لائے اور آنحضرت نے اُن کی تردید کی اوراُنہیں ناجائز قرار دیا۔ یہ ُکل مضامین چھ بڑی بڑی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں اوراُن کتابوں کو ” الصحاح الستہ” یعنی چھ صحیح کتابیں کہتے ہیں۔
صحیح اور وضعی احادیث کے درمیان امتیاز کے قواعد نہایت ہی عجیب وغریب ہیں۔ اِن احادیث کو جمع کرنے والوں نے احادیث کی متعلقہ شہادتوں کو بغور آزمانے اور دیکھنے کی نسبت اُن کے روایوں کا زیادہ خیال رکھاہے۔اگر تمام راوی دیندار مسلمان ۔ دانا۔ صاحب اختیار اور پرہیزگار ودوراندیش تھے توروایت قابل قبول اور حدیث صحیح قرار دی گئی اوراگرایک دوراوی ایسے تھے جن کی شہادت کوہرحالت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور اُن پر اعتماد نہیں ہوسکتا توایسی احادیث کمزور یا مشکوک متصور ہوتی تھی۔ لہذا یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں احادیث کی تفسیر کرنا علمائے اسلام کے لئے کوئی ہلکا ساکام نہیں ہے۔
اِ س جگہ مثال کے طورپر احادیث کی ایک مشہور کتاب سے جس کا نام ترمذی ہے خلاصتًہ کچھ درج کیا جاتاہے۔ اِس سے صاف پتہ لگ جائے گا کہ احادیث کا طرزِ عمل بیان کیا ہے اوراُن کی روایات کے سلسلہ کا کیا ڈھنگ ہے۔”ابوکریب نے ہم سے بیان کیا کہ ابراہیم ابن یوسف ابن ابی اسحاق نے ہم سے کہا کہ میرے باپ نے روایت کی ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے روایت کی طلاطہ ابن مصارف سے کہ سنا ابن مصارف نے عبدالرحٰمن سے یہ کہتے سنا کہ میں نے رسول صلعم سے کہ جوکوئی دودھ دینے والی گائے خیرات کرے گا یا چاندی یا پانی کی مشک خیرات میں دے گا اُسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملیگا”۔ اس مقام پر یہ بات قابلِ یاد ہے کہ سلسلہ روایت محمد صاحب سے لے کر آخری راوی تک پورے اورکامل طورسے پایا جاتاہے۔
جس طرح قرآن اپنی تعلیم کے لحاظ سے اعلیٰ اعتماد اور خاص اعتبار کا رتبہ رکھتاہے اُسی طرح احادیث روزمرہ کے کاروبار کے عملی عمل کا ایک خاص چشمہ خیال کی جاتی ہے۔ احادیث نہ صرف اُن رسومات اور دستورات ہی سے تعلق رکھتی ہیں جو روزانہ اور مقرر پنجگانہ نمازوں ۔ ماہِ رمضان کے روزوں اور محرم کی تقریب اور خیرات وحج کے بارے میں ہیں بلکہ بیاہ شادی اور پیدائش واموات۔ زیورات وپوشاک اورمجالس ومحافل کے تمام دستورات احادیث میں بالتشریح پائے جاتے ہیں۔ حتی کہ داڑھی تراشنے بالوں کو رنگنے اورمسواک کے لئے خاص قسم کی لکڑی استعمال کرنے کے قواعد بھی مندرج ہیں ۔ طہارت اور غسل کے بارے میں جس قدر مسائل ہیں وہ سب کے سب احادیث ہی سے حل ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی کتا چاہ میں گر کر ڈوب مرے تو فوراً یہ سوال پیش آتاہے کہ اب چاہ کا پانی کس طرح پاک وصاف کیا جائے؟ ایسے موقعہ پر علما سے صلاح لی جاتی ہے اور وہ کتاب کھول کر بتاتے ہیں کہ اتنے من یا اتنے پیمانے پانی نکال دو۔ اس سے چاہ کا پانی بالکل پاک وصاف ہوجائے گا۔
یہودی فقیہ ہاتھ دھونے اور دیگچیوں کو صاف کرنے کے مسائل کے ثبوت میں اپنے ربیوں اور عالموں کی تعلیم پیش کرکے کبھی اپنی علمیت کا اس قدر اظہار نہیں کرتے جس قدر مسلمان مولوی اس قسم کے چھوٹے چھوٹے امور پر بحث کرتے وقت کرتے ہیں۔
فصل سوم
اجماع
اسلا م کا تیسرا رکن اجماع ہے۔ اہل اسلام کے ذہن میں لفظ اجماع کا مفہوم وہی ہے جو مسیحیوں کے نزدیک بزرگوں کی متفق رائے Consensus of the Fathers سے مراد ہے۔ اجماع سے اُن عالموں اور مجتہدین کی رایوں کا مجموعہ مقصود ہے جومحمد صاحب کے اصحاب اور انصار ومددگار تھے جو آنحضرت کے ایامِ رسالت میں مدینہ میں مسلمان ہوئے۔ان لوگوں کے شاگردوں اور ساتھیوں کی رایوں کا مجموعہ بھی ایسا ہی خیال کیا جاتاہے اوران سب کے حق میں یہ گمان ہے کہ وہ قرآن کا مطلب سمجھنے کی زیادہ قابلیت رکھتے تھے اور خصوصاً آنحضرت کے اقوال یعنی احادیث کو وہی بخوبی سمجھ سکتے تھے باوجود اِس سب کے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ اجماع کسی صورت میں قرآن اوراحادیث کی مخالفت نہ کرے اور ہر حالت میں اُن کی تعلیم کے موافق ہو۔اگر اجماع قرآن واحادیث سے متفق ہو تو شرع وتفسیر کے تمام مسائل پر سب سے بڑی شہادت اجماع ہی ہے۔
فصل چہارم
قیاس
اسلام کا چوتھا رکن قیاس ہے اوراس سے علمائے اسلام کی وہ بحث اور تحقیقات مراد ہے جو قرآن وحدیث اور اجماع کی تعلیم کے مطابق ہو۔ اہل اسلام کے لئے صرف یہی پہلا موقعہ ہے جہاں عقل کو کام میں لانے کی گنجائش ہے لیکن یہ گنجائش بھی بہت ہی کم ہے۔ اسلام کی پہلی تین صدیوں کے علما وائمہ اورمجہتدین نے چند تقریریں کیں۔ یہ تقریریں قرآن اور احادیث پر مبنی ہیں اور مومنین کی ہدایت کے لئے قلم بند کی گئی ہیں۔ پھر بعد ازاں صدہاں سال تک ان علماء اور ائمہ ومجتہدین کا کوئی جائے نشین نہیں ہوا۔ مسلمان فاضلوں نے یہ دریافت کرنیکی کوشش ہی نہیں کی کہ دراصل قرآن اور احادیث کی تعلیم کیا ہے بلکہ صرف اسی قدر دریافت کرنے پر اکتفا کی ہے کہ قرآن واحادیث کی تعلیم کی نسبت علماء کیا کہتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی عقل سے کچھ کام نہیں لیتے بلکہ ان کے نزدیک عقلی مداخلت ناجائز ہے۔ خودنمائی نے اُنکے دلوں پر ایسا اختیار جمایا ہوا ہے کہ ان علماء وفضلا ء کی حکومت رومی کلیسیا کے پوپ اور بشپ کے اختیار سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اسلامی امامت دنیاوی حکومت واختیار کے جابرانہ لباس سے ملبس ہوکر اس قابل ہے کہ اُن تمام اشخاص کے لئے جو اسلامی تعلیم اور دینی معاملات کے باب میں کسی طرح کی مخالفت کریں سخت سے سخت سزا تجویز کرے۔ اگراسلام کی اس اصولی تعلیم پر غور کیا جائے تو اس بے حد سختی اور جوروستم کا صاف پتہ لگ جائیگا ورنہ ہرایک بات گویا معدنی صورت اختیار کئے ہوئے ہے اوراُس کے برآمد ہونے کی کوئی اُمید نہیں اوراسلام میں ترقی کی کوئی صورت نہیں رہتی۔مسلمان مولوی ہمیشہ گذشتہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اپنی عقل کا دخل ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں بتاتے کہ اُن کے اپنے خیال میں کتب مقدسہ کی تعلیم کیا ہے لیکن قدیم زمانہ کے فریسیوں کی طرح خوش الحانی سے پڑھ کر صرف وہی بات بتاتے ہیں جو ہزاربرس پیشتر کسی قدیم عالم نے سکھائی تھی۔
ترکی اور ہندوستانی مسلمانوں کے بعض خیر خواہ بڑے وثوق سے اُمید کئے بیٹھے ہیں کہ اہل مغرب سے ملنے جُلنے اوراُن کی شائستگی سے واقفیت حاصل کرنے سے اُن کے مذہب میں ضرور اصلاح ہوگی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرگرم خیر خواہ ہزار برس کی صلح بخش اور امن وچین کی اسلامی سلطنت کی راہ دیکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُس وقت مستورات کی واجبی عزت ملحوظ رکھی جائیگی۔کثیر الازدواجی موقوف ہوجائیگی۔ غلام آزاد کئے جائینگے۔ بردہ فروشی کی لعنتی رسم کا خاتمہ ہوجائیگا۔ عقل وضمیر آزاد ہونگے اورمسلمان اورمسیحی کمال محبت سے بغلگیر ہوکر تخت ورحمت کے سامنے سرنگوں ہونگے۔ ایسے خیالی پلاؤ پکانے والے دین اسلام کی حقیقت کونہیں سمجھتے ۔ جوبرائیاں اسلامی ممالک میں مشہور اوربکثرت پائی جاتی ہیں جن کا ابھی ذکر ہوچکا ہے اُن سب کا رواج اور جواز اسلام ہی کی طرف سے ہے۔ جب تک قرآن کا اختیار باقی ہے تب تک غلامی اور غلاموں کی گریہ وزاری کی ذلت اور کثر الازدواجی کی قباحت قائم رہیگی۔ جب تک اسلامی علماء احادیث وروایات اوراجماع کے بس میں ہیں تب تک اسلامی ممالک میں عقل وضمیر بیکاری اور غلامی کی حالت میں ہیں اور رہینگے۔ جب تک مسلمان بردہ فرشوں اور ترکوں اور عربوں کی بردہ فروشی سے قطعی طورپر باز نہ رکھا جائیگا تب تک افریقہ کے زخم بھر نہیں سکتے۔ اونٹ کٹارے سے انگور توڑنا بالکل ناممکن ہے۔